امریکا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا یا نہیں؟ واشنگٹن نے بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی سے ملاقات سے قبل میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فعال حکومت کی عدم موجودگی میں ریاست کی شناخت کا تصور بھی ممکن نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
انہوں نے مزید کہاکہ ایک غیر فعال اور منتشر حکومت کے ہوتے ہوئے کسی ریاست کو تسلیم کرنا بے معنی عمل ہے۔ جے ڈی وینس کے مطابق صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی واضح ترجیحات پر قائم ہیں اور ان پر عمل جاری رہے گا۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر فلسطین کو تسلیم کرنے کی مہم میں تیزی آرہی ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 144 فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرچکے ہیں، جن میں چین، روس، بھارت اور بیشتر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔
یورپی یونین کے بیشتر ممالک نے تاحال فلسطین کو تسلیم نہیں کیا، تاہم حالیہ برسوں میں اسپین، آئرلینڈ، ناروے اور اب فرانس نے مؤقف میں تبدیلی کے اشارے دیے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے فلسطینی صدر محمود عباس کو خط میں وعدہ کیا ہے کہ آئندہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا
ماہرین کے مطابق امریکی نائب صدر کا یہ مؤقف اس بات کی علامت ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی روایتی اسرائیل نواز پالیسی پر قائم ہیں اور فلسطینی خودمختاری کے لیے جاری عالمی کوششوں سے خود کو الگ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول اس رویے سے نہ صرف خطے میں امن کا عمل متاثر ہوگا بلکہ امریکا کی عالمی ساکھ اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہم آہنگی بھی کمزور ہو سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل فلسطین جنگ امریکا امریکی صدر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی ریاست وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل فلسطین جنگ امریکا امریکی صدر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی ریاست وی نیوز ریاست کو تسلیم فلسطینی ریاست فلسطین کو
پڑھیں:
باجوڑ میں خوارج سے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا(سکیورٹی ذرائع )
خوارج باجوڑ میں آبادی کے درمیان رہ کر دہشت گرد اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں،رپورٹ
اگر قبائل خوارج کو خود نہیں نکال سکتے تو ایک یا دو دن کیلئے علاقہ خالی کردیں،دوٹوک انداز میں پیغام
سکیورٹی ذرائع کی جانب سے دوٹوک انداز میں واضح کیا گیا ہے کہ باجوڑ میں ریاست کی خوارج سے بات چیت یا سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ خوارج باجوڑ میں آبادی کے درمیان رہ کر دہشت گرد اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں، قبائل اور خارجیوں کی بات چیت کے ذریعے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، خوارج اورسہولت کاروں کے ساتھ حکومتی سطح پر کوئی بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب تک خارجی ریاست کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں بات چیت ممکن نہیں۔سکیورٹی ذرائع کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قبائلی جرگہ ایک منطقی قدم ہے تاکہ کارروائی سے پہلے حتی الامکان حد تک عوامی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے، کسی بھی طرح کی مسلح کارروائی کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، تاہم اسلام اور ریاست کے ننگ دشمن خوارج کے ساتھ کمپرومائز کرنے کی نہ دین اجازت دیتا ہے نہ ریاست اور نہ خیبرپختونخواہ کے بہادر عوام کی اقدار یہ اجازت دیتی ہیں، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ خارجیوں کی بڑی تعداد افغانیوں پر مشتمل ہے، وہاں کے قبائل کے سامنے تین نکات رکھے ہیں، پہلا نکتہ یہ ہے کہ ان خارجیوں کو جن کی زیادہ تعداد افغانیوں پر مشتمل ہے ان کو باہر نکالیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر قبائل خوارج کو خود نہیں نکال سکتے تو ایک یا دو دن کے لیے علاقہ خالی کردیں تاکہ سکیورٹی فورسز ان خوارجین کو اُن کے انجام تک پہنچا سکیں، تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کیے جا سکتے تو حتی الامکان حد تک نقصان سے بچا جائے کیوں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہر صورت جاری رہے گی۔