حمیداللہ بھٹی
قومیں جذبے اور اُمیدسے آگے بڑھتی ہیں، مایوسی توزوال کاباعث بنتی ہے ۔گزرے چندعشروں میں بااختیارعہدوں پر فائزشخصیات نے اپنے کردار سے جذبے اور اُمید کے بجائے مایوس عناصرکو مضبوط اور فعال کیاہے، جس کی ایک وجہ سیاسی تقسیم کے زیرِ اثرزہریلا پراپیگنڈہ ہے ۔حکومتیں بدلنے سے بھی نظام میں کوئی تبدیلی آئی اسی بناپر مایوسیوں کے اندھیرے گہرے ہوئے اورآج تو یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ وہ مقتدرطبقہ بیوروکریسی جس کے ہاتھ میں ملک کا اصل اقتدارواختیار ہے وہ بھی ملکی مستقبل سے مایوس اورفرارکے چکرمیں ہے۔ حالانکہ یہ مقتدرطبقہ مقابلے کا امتحان پاس کرتا اور اچھی تعیناتی لیکر دونوں ہاتھوں سے مال بناتاہے اور پھراپنے خاندان کو بیرونِ ملک آباد کرنے کی کاوشوں میں لگ جاتا ہے۔ یہ بہت خوفناک رجحان ہے جس پر اگر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا۔
وزیردفاع خواجہ آصف سے لاکھ اختلافات سہی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ذاتی رنجش کی بنیادپر نقاب کُشائی کی ہوکیونکہ اُن کا اپنا منظورِ نظر اے ڈی سی آراقبال چنڑ اربوں کی جائیداد اور دیگر اثاثے رکھنے کے الزام میں اینٹی کرپشن کی حراست میں زیرِ تفتیش ہے مگر ملک کی آدھی سے زائد بیوروکریسی کا یورپی ملک پُرتگال میں جائیدادیں خرید کر شہریت حاصل کرنے کے انکشاف نے محب وطن طبقے کوہلا کررکھ دیا ہے اِس لیے حکومت کوچاہیے کہ انکشافات کو سنجیدہ لیکر شفاف تحقیقات سے ملوث عناصرکو بے نقاب کرے اور طریقہ کار بناکر ایسا انتظام کرے جس سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے عناصر کو سز اہو، ذاتی رنجش کہہ کر نظر انداز کردیناہرگز مناسب نہیں ۔خواجہ آصف کے پاس ملکی دفاع جیسا اہم منصب ہے۔ اُن کے پاس اہم شواہد ہو سکتے ہیں جن سے مدد لے کر حکومت سرمائے کی غیر قانونی منتقلی روک سکتی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انکشافات کو سنجیدہ لیا جائے۔ خواجہ آصف خود بھی اہم عہدے پر فائز ہیں لہذا اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف انکشاف تک محدودنہ رہیں بلکہ خود بھی عملی طورپرکچھ کریں۔
ملک کے مختلف ہوائی اڈوں پر اجازت سے زائد غیر ملکی کرنسی پکڑنے جیسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ۔مگرکیا کسی ذمہ دار کوکبھی سزا بھی ملی ہے؟اِس بارے میںوثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتاکیونکہ مصدقہ اعدادوشماردستیاب نہیں ۔بریت کی وجہ ملزمان کو بڑے ہاتھوں کی پشت پناہی حاصل ہوناہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے اکائونٹس ،جائیدادوں اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اب تو عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے لگاہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سات ہزار کے قریب پاکستانیوں نے دبئی میں قیمتی جائیدادیں خرید رکھی ہیں جن کی مالیت اربوں میں ہے ۔ایک ایسا غریب ملک جو کمزور معیشت کی وجہ سے قرض لینے پرمجبورہے کے شہریوں بارے ایسی خبریں ہوش رُبا ہیں جو پاکستانیوں کا اپنی اشرافیہ پر اعتماد کم کررہاہے ،لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کے پاس اقتدارو اختیار ہے سبھی بدعنوان ہیں ۔لوٹ کھسوٹ کامال بیرونِ ملک منتقل کرنے سے ہی ملک میں غربت،بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ اب یہ سوچنا اربابِ اختیار کا کام ہے کہ بدنامی کو نیک نامی میں بدلنا ہے یا مزید بدناکامیاں سمیٹنی ہیں۔ یادرہے بدنامیوں کے داغ سنجیدگی سے دھوئے نہ گئے تو آئندہ انتخابات میں کامیابی کی توقع پوری ہوناممکن نہیں۔
وزیرِ دفاع جیسے منصب پر فائز ایک ذمہ دارعہدیداراگر بیوروکریسی کے متعلق دعویٰ کررہا ہے تو یونہی نظر انداز کرنا کاہلی وسستی اور فرائض سے غفلت ہی نہیں ملک دشمنی کے مترادف ہوگا ۔ہاں کسی کو اگر شک و شبہ ہے تو تحقیقات کرسکتاہے کہ کیا واقعی سرکاری آفیسریورپی ملک میں جائیدادیں خرید کر رہائشی اجازت نامے حاصل کررہے ہیں؟ ایسی معلومات حاصل کرناکچھ دشوار نہیں بلکہ اِس حوالے سے پاکستانی سفارتخانہ بھی مددگارثابت ہو سکتا ہے۔ اِس طرح سزادینے کامرحلہ سہل ہوجائے گا کیونکہ پھر دریافت کرنارہ جائے گا کہ ملوث افراد کے مالی وسائل کا سرچشمہ کیاہے ؟کیونکہ چند لاکھ کی تنخواہ سے بیرونِ ملک لاکھوں یورومالیت کی جائیدادیں خریدی نہیں جا سکتیں لہذا وسائل کے متعلق دریافت کرنے سے بدعنوانی بارے ابہام نہیں رہے گا ۔
آج کل مادیت پرستی کا ایسا دور دورہ ہے کہ جلد سے جلد امیر ہونے کامقابلہ جاری ہے۔ اسلام میں تو رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔ اِس کے باوجودبدعنوانی دراصل دین سے دوری ہے حکومت اگر بیرونِ ملک اثاثے رکھنے والے بیوروکریٹس کے نام اُن کی جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرلے اور پھر ذرائع آمدن اور شہریت جیسے معاملات کوعوامی آگاہی کے لیے منظرِ عام پرلانے سے بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے کیونکہ خواہ جو بھی صورتحال ہو ہمارے معاشرے میں بدعنوان عناصر سے کسی حدتک آج بھی نفرت ہے۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ نہ صرف چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان کی کمزور گرفت کی طرف اِشارہ ہے بلکہ اُن کے دفتر کی تعیناتیوں میں بڑھتی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ ذرائع کاکہناہے گجرات کے اے سی بلال زبیر کے والد بھی چیف سیکریٹری کے دفتر تعینات ہیں جنھوں نے اپنے فرزند کی گجرات تعیناتی کرائی ہے جن کی رشوت خوری اورلاہورمیں محل کی تعمیر بارے کہانیاں زبانِ زدِ عام ہیں پھربھی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ کوئی اُنھیں تبدیل نہیں کر اسکتا۔ جب ایسے حالات ہوں گے تو بیوروکریسی میں عزت کمانے نہیں مال بنانے کا مقابلہ ہی ہو گا ۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ منی لانڈرنگ ملکی معیشت کے لیے چیلنج نہیں تو وہ غلط ہے ۔یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس میں ملوث مجرموں پراگر جلد قابونہ پایا گیا تو ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتاہے ۔قانون نافذکرنے والے اِداروں کی کوششوں کو بہتر بنانے سے ہی مالی جرائم جیسے ناسور ختم ہوتے ہیں ۔یہ ایک ایسا حساس نوعیت کا معاملہ ہے جس کے متعلق حکمت عملی بنانے کے لیے سب کا مل کر غور کرنااور پھر متفقہ حل ترتیب دیناضروری ہے ۔اِدارے ایک دوسرے کی مہارت اور تجربے سے مددلے کر اپنی استعدادو صلاحیت بڑھاسکتے ہیں۔ غلطیوں کی نشاندہی سے ہی ایسے راستے بند ہوتے ہیں جن پر چل کر دولت غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک منتقل کی جاتی ہے۔ بدعنوانوں پرہاتھ ڈال کرلوگوں کے دلوں میں اِداروں کے متعلق وسوسے ختم اور اعتماد و احترام بحال کیاجاسکتاہے ۔کوئی ابہام نہیں کہ بیوروکریسی کی بڑی تعداد کے پاس امیر ممالک کی شہریت ہے جن میں وزارتِ خارجہ سرِ فہرست ہے جس سے سبکدوش ہونے والا کوئی آفیسر پاکستان نہیں رہتا جس سے ملک کے حساس راز افشاہونے کاخطرہ موجودہے۔ اگر پنشن کی ادائیگی کوہی مشروط کردیا جائے توبرین ڈرین میں کمی ممکن ہے کیونکہ باقی ماندہ بھی ایسی کوششوں میں مصروف ہیں ۔
بیرونِ ملک جائیدادیں خریدنے کے لیے پاکستان سے رقوم پہلے دبئی بھیجی جاتی ہیں اور پھر آگے مطلوبہ ملک منتقل کردی جاتی ہیں کیونکہ پُرتگال کا گولڈن ویزہ حاصل کرنے کا عمل بہت آسان ہے جو چند ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے،اسی لیے بیوروکریسی کی توجہ کا مرکزہے مگر ملک سے سرمایہ لے جانا ایسے ہی ہے جیسے ملک کی رگوں سے خون نچوڑنا۔اب ایسے عناصر کو لگام کیسے دینی ہے یہ سوچنا اور لائحہ عمل بنانا
ذمہ داران کاکام ہے۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کے متعلق اور پھر ملک کی ہیں جن ہیں کہ کے پاس کے لیے
پڑھیں:
بیرون ملک پاکستانیوں، سرمایہ کاروں کیلئے سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے: اسحاق ڈار
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستانی مشنز میں ویزا اجرا کا عمل تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق اسحاق ڈار نے اہم اجلاس کی صدارت کی، جس میں 2024ء کے دوران پاکستان کے غیر ملکی مشنز میں ویزا عمل سے متعلق متعارف کروائی گئی اصلاحات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزارت خارجہ کے اقدامات پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے ہدایت کی کہ ویزا کے طریقہ کار کو مزید مؤثر اور شفاف بنایا جائے، کارکردگی میں بہتری لائی جائے اور ویزا کے اجرا کے عمل کو تیز تر کیا جائے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کے لیے سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔