پاکستان نے ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (PCA) کے اُس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جس میں سندھ طاس معاہدے کی تشریح سے متعلق اہم نکات واضح کرتے ہوئے بھارت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے بہنے دے۔

عدالت نے 8 اگست کو سنایا گیا فیصلہ اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ بھارت کو صرف محدود استثنیٰ حاصل ہے، جیسا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے مخصوص نوعیت کے ہائیڈرو پاور منصوبے، مگر ان کی تعمیر اور آپریشن سندھ طاس معاہدے کی شرائط کے عین مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ بھارت کے اپنے “مثالی”
بھارت کے اعتراضات مسترد، پاکستان کا موقف تسلیم
فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگرچہ بھارت نے نہ صرف اس ثالثی عمل میں شرکت سے انکار کیا بلکہ عدالت کے دائرہ اختیار کو بھی چیلنج کیا، تاہم عدالت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بھارت کو ہر مرحلے پر معلومات فراہم کی جائیں اور شرکت کی دعوت دی جائے۔
عدالت نے پاکستان کے مؤقف کی جانچ کے لیے مختلف ذرائع، تاریخی شواہد اور ماضی کے عدالتی فیصلوں کا بغور جائزہ بھی لیا، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ معاہدے کی درست تشریح وہی ہے جو پاکستان پیش کرتا رہا ہے۔
  فیصلے کی قانونی حیثیت
عدالت نے فیصلے کی قانونی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ حتمی ہے، فریقین پر لازم ہے اور اس کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔ ساتھ ہی، یہ بھی واضح کیا گیا کہ تنازعات کے حل کے لیے معاہدے میں مقررہ طریقہ کار کو ہی بنیاد بنایا جانا چاہیے۔
  پاکستان کا ردعمل
دفتر خارجہ کے ترجمان نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بھارت کے حالیہ یکطرفہ اقدامات کے برعکس پاکستان کے اصولی مؤقف کی بین الاقوامی سطح پر تصدیق ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلانات اور ثالثی عدالت کا بائیکاٹ، دونوں غیر ذمہ دارانہ تھے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے اور بھارت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ فوری طور پر معاہدے کے تحت معمول کی کارروائیاں بحال کرے اور عدالت کے فیصلے کی روح کے مطابق دیانتداری سے عمل کرے۔
پس منظر
یاد رہے کہ بھارت نے اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے ایک حملے کا الزام بغیر شواہد کے پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے اس اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پانی کی فراہمی روکنا جنگی اقدام کے مترادف ہوگا۔
بعد ازاں، پاکستان نے ویانا کنونشن کے تحت بھارت کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کیا، جس کا نتیجہ 8 اگست کو پاکستان کے حق میں سامنے آیا۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ

پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے ہر گاؤں، شہر، قریہ، بستی، پہاڑوں، زمینوں پر ایسے دن اور رات آتے رہے کہ خوب گرج چمک کے ساتھ کہیں بار بار اور ان گنت بار بارش ہوتی رہی، غالباً چکوال میں ’’ کلاؤڈ برسٹ‘‘ ہوا جس سے شہر اور ارد گرد میں خوب پانی جمع ہوا اور سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی۔

پھر مختلف شہروں میں کلاؤڈ برسٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہاڑوں پر بارش اور گلیشیئرز بھی پگھل کر ندی نالوں پر ٹوٹنے لگے جس سے نہریں لبریز ہونے لگیں، جس نالے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اس مرتبہ اپنی حد میں رہے گا وہ حدوں کو توڑتا ہوا اپنے ساتھ انسان، مال مویشی، سامان حتیٰ کہ کاریں بھی بہا کر لے گیا۔ پھر لاہور شہر میں بار بار موسلا دھار بارش ہوتی رہی۔ یہی حال راولپنڈی اور دیگر شہروں کا بھی تھا۔

ادھر بھارت میں بھی خوب بارشیں ہوئیں۔ بھارت نے عنقریب ایک جنگ ہاری تھی جسے وہ آج تک نہیں بھولا۔ اس نے اپنی باری میں پانی کی طاقت کو بطور ہتھیار استعمال کر ڈالا۔ اپنے ڈیمز بھرنے شروع کر دیے اور اس سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر حملہ آور ہو گیا۔ اب دریاؤں کی روانی میں بے چینی پیدا ہوئی، وہ غضب ناک ہوکر آگے بڑھتے رہے، سانپ چھوڑے گئے، مگرمچھ بھی آتے رہے، یہ سیلابی پانی جب بلا اطلاع چھوڑ دیا گیا تو گاؤں، دیہات، قصبوں میں شہری رات چین کی نیند سو رہے تھے کہ اعلانات سن کر ہڑبڑا کر اٹھے کہ باہر محفوظ جگہوں پر چلے جاؤ، کیوں کہ پانی آ رہا ہے۔

جب وہ باہر نکل ہی رہے تھے کہ پانی اندر آ گیا۔ دیواروں کو توڑنے لگا، دروازے اٹھا کر پھینکنے لگا، باڑوں سے گائے بھینسوں بکریوں کے ساتھ غصے سے ایسا سلوک کیا جیسے ان کو اغوا کرکے لے جا رہا ہو۔ بس پھر گاؤں ڈوب گئے، بستیاں بہہ گئیں، قصبے پانی میں گھر گئے، شہروں میں پانی داخل ہو گیا، کہیں 20 فٹ تک اوپر کہیں 30 فٹ تک اوپر الامان الحفیظ۔

لیکن ہماری اپنی غلطیاں، لاپرواہیاں بھی ہیں عالمی موسمیاتی ادارہ تو 2024 میں ہی خبردار کرچکا تھا کہ نہریں، جھیلیں اور دریا اپنی فطری روانی سے ہٹ گئے ہیں۔ جب بادل ٹوٹ رہے تھے، ندی نالے اژدھے کی طرح پھیل رہے تھے، یہی پانی جو زندگی کا پیغام لاتا تھا اب مکان، مال مویشی، انسان اور سامان سب کچھ اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ یہ وہ عدم توازن ہے جسے عالمی موسمیاتی رپورٹ نے پانی کا غیر مستحکم نظام کہا ہے۔

یہ واویلا کچھ عرصے سے مچایا جا رہا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا اہم شکار ملک بن چکا ہے، کیونکہ ہمارا مافیائی نظام عرصہ دراز سے جنگلات کا صفایا کر رہا تھا۔ ہم شہر پھیلاتے رہے اور دریائی گزرگاہوں پر مکانات بناتے رہے۔ دنیا نے اپنی صنعتوں کو کھولا، دھواں اڑاتے رہے، فضاؤں کو زہر آلود بناتے رہے لیکن ہم بچاؤ کا کوئی نظام نہ بنا سکے۔ پڑوسی ملک سیکڑوں اور چین ہزاروں ڈیمز بنا چکا اور ہم ابھی ایک دو تین کی گنتی گن رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں درخت اگائیں، ندی نالوں کی صفائی کریں اور جو بھی فیصلہ سازی کریں ان لوگوں کو شامل کریں جو متاثر ہوئے ہیں جیسے کسان، شہری، یونین کونسل کے نمایندے اور دیگر افراد وغیرہ۔

 ہم اپنی زمینوں پر فطرت کے خلاف اور خاص طور پر دریاؤں کے راستوں پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے، بس پھر دریا بھی غضب ناک ہوگئے، قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے جنگلات کا کٹاؤ کرتے رہے، پہاڑوں سے درخت چھینتے رہے، وہ چیختے رہے کہ ہم سے ہماری چادر نہ کھینچی جائے لیکن اشرافیہ اور مافیا کب ماننے والے تھے۔ شہروں میں آبادی بڑھی لیکن نکاسی آب کا انتظام نہ ہو سکا، اب بہت سے ڈیمز بنانے پڑیں گے، سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے گہرائی والے کنوئیں بنانے ہوں گے، اب ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ اپنے معصوم بچوں اور معاشرے کے ہر فرد کو اب ’’ تیرنا ‘‘ سیکھنا ہوگا۔

اس میں مہارت پیدا کرنی ہوگی تاکہ ضرورت پڑنے پر اپنے مال مویشی اور مال و اسباب بھی کچھ لے کر دور پار جا سکیں۔ دنیا کے کئی ملکوں نے پانی کے ساتھ دوستی کر لی۔ بنگلہ دیش کے ہرگاؤں میں کشتیاں موجود ہوتی ہیں، اسکول کے بچوں کو تیراکی سکھائی جاتی ہے، ہمیں رضاکاروں کی ٹیم تیار کرنا ہوگی، ان کی تربیت کرنا ہوگی، ہر موقع کے لیے کیونکہ کبھی زلزلے آنا شروع ہو جاتے ہیں، کبھی پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے، ہمیں تیراکی، زلزلوں سے بچنے کی تدابیر،کشتی رکھنے اور ایسے مضبوط ترین مکانات کی تعمیر جو کچھ عرصے کے لیے سیلابی پانی کی سفاکیت کو برداشت کرلیں ان کی تعمیرات پر غور کرنا پڑے گا۔ ہر گاؤں دیہات کو بنگلہ دیش کی طرز پر اپنی مدد آپ کے تحت نمٹنے کی تربیت دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش سے تجربہ اور مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر ہم نے آج تیراکی کو، کشتیوں کو، رضاکاروں کی تربیت کو، مضبوط پناہ گاہوں کی تعمیرکو اور دیگر امور کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تو سیلاب میں بھی بقا کی نئی کہانی لکھی جائے گی۔

سیلاب آتے رہیں گے گزرتے رہیں گے۔ سانپوں کے کاٹے کا علاج، ویکسین کا استعمال اور ادویات ہر رضاکار کے پاس ہوں، بیماریوں سے، سیلابی وباؤں سے ڈینگی کی وبا سے بچنے کی تدبیر سب کو پتا ہونا چاہیے۔ حکومت جتنے بھی منصوبے بنا لے جب تک ہر فرد کو سیلاب سے نمٹنے کی تربیت نہیں دی جاتی، سیلاب کے نقصانات سے بچنا محال ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آیندہ اس سے بھی شدید سیلاب آ سکتا ہے۔ ہماری امداد کے لیے باہر ملک سے کوئی نہیں آئے گا، ہمیں خود کو بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے بچنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین۔)

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان اسمبلی ،گوادر کو میرانی ڈیم  سے پانی دینے کی قرارداد منظور
  • اب بہت ہوچکا، اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دونگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اب بہت ہو چکا، اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دوں گا، صدر ٹرمپ
  • جلال پور پیر والا میں سیلابی پانی اترنے کے بعد 5 افراد کی لاشیں برآمد،پنجاب میں دریاؤں کی صورتِ حال معمول پر آگئی، کوٹری بیراج پر سیلابی کیفیت برقرار، نقل مکانی جاری
  • ایران، ترکی کو بھی دفاعی معاہدے میں شامل کیا جائے: حافظ نعیم
  • عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ
  • سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو خوش آمدید کہتے ہیں، ایرانی صدرکا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
  • ایف بی آر ود ہولڈنگ ٹیکس کو زیادتی قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کرے گا
  • اسلامی نظریاتی کونسل کے ودہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار دینے پر ایف بی آر کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • مجھ سے متعلق فیصلے اور سزائیں پہلے سے لکھے ہوئے ہیں، عمران خان