پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر نے کہا ہے کہ کبھی طالبان کو سپورٹ کیا نہ آئندہ کریں گے، خیبر پختونخوا حکومت نے کسی آپریشن کی اجازت نہیں دی۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے قانون سے لوگوں کو مہم سے روکا جائے گا، مجھ پر ریاست نے بغاوت کا مقدمہ درج کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی سرگرمی پر دہشتگردی کا مقدمہ درج کیا گیا، سعد رفیق بار بار ہمیں کہتے تھے ہم بھگت چکے، یہ بھگتیں گے۔

جنید اکبر نے کہا کہ ہم پہلی بار حکومت میں آئے اور ہمیں سمجھ نہ تھی، آج جو قانون سازی ہورہی ہے، یہ لوگ بھگتیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس ملک میں 21 سے زائد آپریشن ہوئے، نتیجہ کیا نکلا؟ ایک بریفننگ ہوئی جس میں اس وقت کے آرمی چیف موجود تھے، آرمی چیف وزیر اعظم کا سیکیورٹی ایڈوائزر ہوتا ہے، اگر فیصلہ غلط تھا تو باجوہ صاحب اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو کٹہرے میں لایا جائے۔

جنید اکبر نے کہا کہ طالبان کو کس نے کہا تھا کہ پنجاب نہ آئیں؟ اس ملک میں حکومتیں گریں تو کون ذمہ دار تھا؟ آج کہا جا رہا ہے کہ پہ ٹی آئی نے طالبان کو سپورٹ کیا، پی ٹی آئی نے کبھی طالبان کو سپورٹ نہیں کیا، ہم نہ کبھی طالبان کو سپورٹ کریں گے، صوبائی حکومت نے کسی آپریشن کی اجازت نہیں دی۔

اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشتگری ایکٹ کی دفعہ 4 میں ترمیم کی، یہ آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی ہے، یہ آئین کے بنیادی حقوق جیسا ہے، پہلے ہائی کورٹ کا جج اضافی 3 ماہ تحویل کی اجازت دیتا تھا، اب ایس پی کو توسیع کا اختیار دے دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون پہلے بھی بنایا گیا تھا، اس طرح کے قوانین سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں، ان لوگوں نے ایک ہی سیاسی جماعت کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ فارم 47 والوں نے تحفہ دیا ہے، یہ قانون پورے پاکستان پر لاگو ہوگا، جس کو مشتبہ سمجھیں گے، اٹھالیں گے، 26 نومبر کو گولیاں برسائی گئی،  یہ پاکستان کا ایک اور سیاہ باب ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کبھی طالبان کو سپورٹ جنید اکبر نے کہا کہ کی اجازت

پڑھیں:

 افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-01-19

 

 

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا۔ بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر  پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ 4 برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنہ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں  اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ٹی ٹی پی / فتنہ الہند اور بی ایل اے / فتنہ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں، اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔ پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے، تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے، پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • وانا، اسلام آباد حملے بھارت اور افغان طالبان گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں، دفاعی تجزیہ کار
  • پی ٹی آئی رہنما جنید اکبر کی 22 دسمبر تک عبوری ضمانت منظور
  • ہم پہلے بھی 27ویں ترمیم کو نہیں مانتے تھے اور آج بھی نہیں مانتے: جنید اکبر
  • ہم پہلے بھی اس ترمیم کو نہیں مانتے تھے اور آج بھی نہیں مانتے،جنید اکبر
  • سینیٹ کا اجلاس آج، 27ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا جائے گا
  •  افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ
  • مسلم پرسنل لاء بورڈ کا احتجاجی پروگرام ملتوی، دہلی حکومت پر اجازت منسوخ کرنے کا الزام
  • دہشت گردوں کو پناہ دینے والا پاکستان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا؛ دفتر خارجہ 
  • افغان طالبان حکومت دہشتگردوں کو پناہ دے رہی ہے ،غلط بیانی سے گریز کریں،پاکستان کا انتباہ
  • پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور