UrduPoint:
2025-10-04@16:55:27 GMT

جرمنی میں مستحق شہریوں کو 47 بلین یورو کی ریکارڈ ادائیگیاں

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

جرمنی میں مستحق شہریوں کو 47 بلین یورو کی ریکارڈ ادائیگیاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) یہ معلومات جرمنی کی سوشل افیئرز منسٹری نےدائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے ایک پارلیمانی سوال کے جواب میں فراہم کیں۔ مستحق افراد کے لیے ان ادائیگیوں میں اضافے نے ملکی ویلفیئر پالیسیوں کے حوالے سے سیاسی بحث کو ہوا دی ہے، جبکہ ماہرین اسے افراط زر اور معاشی حالات سے جوڑتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے یہ سماجی امداد کسے ملتی ہے؟

بُرگرگیلڈ جرمنی کے بنیادی ویلفیئر پروگرام کا نام ہے اور اس کے تحت اُن افراد کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے، جو اپنی بنیادی ضروریات (جیسے رہائش، خوراک اور دیگر اخراجات) پورا کرنے کے قابل نہ ہوں۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر ان لوگوں کے لیے ہے، جو کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بے روزگار ہیں یا ان کی آمدنی ان کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے۔

(جاری ہے)

سماجی امداد کی تقسیم اور وصول کنندگان

رپورٹ کے مطابق 2024 میں حکومتی مالی امداد کے کل 5.

5 ملین وصول کنندگان تھے، جن میں بچوں اور نوجوانوں سمیت تقریباً چار ملین افراد کام کی صلاحیت رکھتے تھے، یعنی وہ دن میں کم از کم تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ کل ادائیگیوں کا 52.6 فیصد (24.7 بلین یورو) جرمن شہریوں کو دیا گیا، جبکہ 47.4 فیصد (22.2 بلین یورو) جرمنی میں مقیم غیرملکی شہریوں کو ادا کیا گیا۔

یہ تقسیم گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً یکساں ہے۔

غیر ملکی وصول کنندگان میں لاکھوں یوکرینی پناہ گزین شامل ہیں، جو سن 2022 سے روس کی اپنے ملک کے خلاف جنگ سے فرار ہو کر جرمنی آئے۔ انہیں 6.3 بلین یورو ادا کیے گئے۔

اے ایف ڈی کی طرف سے تنقید

اے ایف ڈی کی رکن پارلیمان رینے اشپرنگر نے ان مالی ادائیگیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا، '' یہ اخراجات بے قابو ہو رہے ہیں۔

‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ '' سوائے استثنائی صورتوں کے غیر ملکیوں کی اس مالی امداد تک رسائی ختم کیا جائے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ جرمنی میں کام کرنے والے غیر جرمن شہری بھی ٹیکس ادائیگیوں کے ذریعے اس نظام میں حصہ ڈالتے ہیں۔

جرمنی کی فلاحی ریاست، اصلاحات ’ناگزیر‘ ہیں

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

نیورمبرگ کے انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ (آئی اے بی) کے ماہر اینزو ویبر نے اشپرنگر کے موقف کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ اخراجات میں اضافہ سن 2023 اور 2024ء میں افراط زر اور معیاری نرخوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے ڈوئچے پریس ایجنسی (ڈی پی اے) سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ کوئی مسلسل رجحان نہیں ہے، جو مستقبل میں جاری رہے گا۔‘‘ ویبر نے مزید بتایا کہ سن 2024 کے موسم خزاں سے کام کی صلاحیت رکھنے والے وصول کنندگان کی تعداد میں کمی آئی ہے، جو ایک ''تبدیلی‘‘ کی نشاندہی ہے۔

ویبر نے اس بات پر زور دیا کہ حکومتی مالی امداد کے تقریباً نصف وصول کنندگان کے غیر جرمن ہونے کی وجہ قابل فہم ہے۔ انہوں نے کہا، ''جو لوگ جرمنی میں پہلے سے ملازمت کر رہے ہیں، وہ بے روزگاری کی صورت میں عام طور پر ایک سال تک بے روزگاری انشورنس کے فوائد حاصل کرتے ہیں اور اس دوران اکثر نئی ملازمت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن پناہ گزین جرمن لیبر مارکیٹ میں بغیر تیاری کے داخل ہوتے ہیں اور انہیں نمایاں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

‘‘ سماجی گروہوں میں تقسیم کی کوشش

اعداد و شمار کے مطابق یوکرینی پناہ گزینوں میں بھی روزگار کی شرح بڑھ رہی ہے، جو اکتوبر 2023 میں 24.8 فیصد سے بڑھ کر حال ہی میں 33.2 فیصد ہو گئی ہے۔

تاہم ویبر نے کہا کہ جرمن زبان سیکھنے کے کورسز اور پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے انضمام کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب جرمن ٹریڈ یونین کنفیڈریشن (ڈی جی بی) نے بھی اے ایف ڈی کے مطالبات کی مخالفت کی ہے۔

اس بورڈ کی خاتون ممبر آنیا پیئل کا کہنا تھا، ''اے ایف ڈی کے پاس کوئی تعمیری پالیسی نہیں، اس کے پاس صرف تارکین وطن یا سماجی فوائد کے حقدار افراد کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک ہے۔ ہر شخص کو ضرورت کے وقت بنیادی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ سماجی ترقی ہماری جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔‘‘

اسی طرح سوشل ایسوسی ایشن جرمنی کی چیف ایگزیکٹو مائیکیلا اینگلمائیر نے کہا، ''سماجی گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا، چاہے وہ ملازمت پیشہ افراد بمقابلہ پنشنرز ہوں یا جرمن بمقابلہ غیر جرمن، خطرناک ہے۔

یہ رجحان معاشرے کی تقسیم کو ہوا دیتا ہے اور اس طرح حسد، نفرت اور اشتعال انگیزی کا زہریلا ماحول بنتا ہے۔‘‘

تاہم جرمنی کے ادارہ برائے لیبر مارکیٹ پالیسی کے ترجمان مارک بیادات نے اخراجات میں اضافے کو ''خطرے کی گھنٹی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ''یہ صورتحال اصلاحات کے دباؤ کو بڑھاتی ہے۔ جرمنی کو فوری طور پرنئی بنیادی سکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہے، جو کام کو ترجیح دے، ملازمتوں کی تقسیم کو مضبوط کرے اور واضح تعاون کے فرائض متعارف کرائے۔‘‘ انہوں نے وفاقی خاتون وزیر لیبر بیربل باس سے کہا کہ ان کی وزارت کو اب نتائج دینا ہوں گے۔

ادارت: شکور رحیم

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وصول کنندگان مالی امداد بلین یورو اے ایف ڈی انہوں نے ویبر نے نے کہا

پڑھیں:

سیلاب سے 2لاکھ گھر متاثر ہوئے‘ عالمی برادری مدد کرے: حافظ عبدالکریم

لاہور (خصوصی نامہ نگار) عالمی یومِ مسکن کے موقع پر امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے اپنے پیغام میں کہا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت اور بنیادی انسانی حق ہے۔ پاکستان میں رہائشی مسائل کے حل کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان میں تقریباً 2لاکھ 30ہزار گھر متاثر ہوئے۔ اسی طرح غزہ میں بمباری سے لاکھوں افراد گھروں سے محروم ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی برادری اس مسئلہ پر فوری توجہ دے اور متاثرین کی ہرممکن مدد کرے۔ امیر مرکزی جمعیت نے کہا عالمی یومِ مسکن یاد دہانی کراتا ہے کہ ہر انسان کو بہتر رہائش، تحفظ اور بنیادی سہولتوں تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ حافظ عبدالکریم نے کہا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث نے ہمیشہ عوام کا ساتھ دیا، مستقبل میں بھی انسانی خدمت کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب سے 2لاکھ گھر متاثر ہوئے‘ عالمی برادری مدد کرے: حافظ عبدالکریم
  • پی ایم ای ایکس میں 59.633 بلین روپے کے سودے
  • جرمن شہر بون میں افغان قونصل خانے کے عملے کا اجتماعی استعفا
  • منقسم جرمنی کا دوبارہ اتحاد: پانچ حقائق
  • وزیر اعظم کا فلوٹیلا میں اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار پاکستانیوں کی واپسی کا مطالبہ
  • سیلاب پر فوری امداد نہیں مانگیں گے، کوشش ہے اپنے زورِ بازو پر معاملات ٹھیک کریں؛ وزیر خزانہ
  • حکومت ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر اور ریل کے نظام کی ترقی پر تیزی سے کام کر رہی ہے، بلال اظہر کیانی
  • پاکستان کا اسرائیلی جارحیت پر سخت ردعمل، صمود فلوٹیلا کے کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ
  • پی ایم ای ایکس میں 66.878 بلین روپے کے سودے
  • کنگ خان ہوگئے بلینیئر خان! شاہ رخ دنیا کے امیر ترین انٹرٹینر بن گئے؟