ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور نفرت یا خوف کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوگا.رانا ثناءاللہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اگست ۔2025 )وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور نفرت یا خوف کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ عمران خان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کیے جاسکتے‘مذاکرات ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتے ہیں.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کی قیادت میں میثاق استحکام کے لیے پوری طرح پرعزم ہے رانا ثنا اللہ نے کہاکہ پاکستان نے ایٹمی طاقت کا درجہ بھی پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کے دور میں حاصل کیا تھا اور اب استحکام کا خواب بھی حقیقت بنے گا. انہوں نے کہاکہ جو لوگ نفرت کی سیاست کرتے آئے ہیں، انہوں نے اور قوم نے دیکھا ہے کہ اس سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور مستقبل میں بھی یہ سیاست کامیاب نہیں ہوگی انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی مسائل کا حل صرف تمام جماعتوں کے درمیان بات چیت سے ممکن ہے، نہ کہ خوف یا دھمکی کے ماحول سے . رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مسلم لیگ نون ہمیشہ ڈائیلاگ کے ذریعے بات کرنے کی حامی رہی ہے اور آج بھی ہر کسی کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہے تاہم اگر کوئی جماعت ڈائیلاگ میں شریک نہیں ہوتی تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کیے جاسکتے، بلکہ مذاکرات ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ انہوں نے ہے اور
پڑھیں:
حماس کا ٹرمپ کے غزہ پلان پر جزوی اتفاق، مزید مذاکرات کی ضرورت پر زور
حماس نے اعلان کیا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے کے کئی حصوں کو قبول کرتی ہے تاہم بعض نکات پر مزید بات چیت ناگزیر ہے۔
ٹرمپ کے پلان پر ردعملالجزیرہ کے مطابق حماس نے جمعے کو ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا تحریری جواب دیا، یہ فیصلہ ٹرمپ کی جانب سے اتوار تک جواب دینے کی مہلت کے بعد سامنے آیا۔
اس منصوبے میں فوری جنگ بندی، تمام اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، بین الاقوامی نگرانی میں عبوری حکومت کا قیام اور حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط شامل تھی۔
قیدیوں کے تبادلے پر آمادگیحماس نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں، خواہ زندہ ہوں یا باقیات کو طے شدہ فارمولے کے تحت رہا کرنے پر راضی ہے اور اس کے لیے ثالثوں کے ذریعے فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
غزہ کی انتظامیہ کا معاملہحماس نے اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کی کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے حوالے کرنے پر تیار ہے، بشرطیکہ یہ فیصلہ فلسطینی قومی اتفاق اور عرب و اسلامی حمایت کے ساتھ ہو۔
اس بیان کو ٹرمپ کے تجویز کردہ ’بورڈ آف پیس‘ کی مخالفت سمجھا جا رہا ہے جس میں بین الاقوامی شخصیات بشمول خود ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی نگرانی کا ذکر تھا۔
حماس نے واضح کر دیا کہ کسی غیر فلسطینی کو فلسطینی عوام پر کنٹرول قبول نہیں ہوگا۔
مزید مذاکرات کی ضرورتحماس کے مطابق منصوبے کے وہ پہلو جو ’غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق‘ سے متعلق ہیں، انہیں صرف قومی اتفاق رائے اور بین الاقوامی قوانین و قراردادوں کی بنیاد پر طے کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ اور عالمی ردعملصدر ٹرمپ نے حماس کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں حماس ’پائیدار امن‘ کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی اسرائیل سے کہا کہ غزہ پر بمباری فوراً روکی جائے تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ انداز میں نکالا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:بدترین اسرائیلی جارحیت کے باوجود غزہ کی جانب بڑھنے والی واحد کشتی کی کہانی
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف غزہ کا نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیرینہ امن کا معاملہ ہے۔
عالمی ثالثوں کی کوششیںقطر اور مصر نے حماس کے جواب کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ امریکا اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس پیش رفت کو ’موقع‘ قرار دیتے ہوئے فریقین پر زور دیا کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے موقع ضائع نہ کریں۔
ہلاکتوں کی بڑی تعدادیہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل نے غزہ پر اپنا حملہ مزید تیز کر دیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ خیز آلات سے آباد علاقے تباہ کر رہا ہے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی جارحیت میں 66 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ امریکا انتونیو گوتریس حماس صدر ٹرمپ غزہ امن منصوبہ