Express News:
2025-09-17@21:31:24 GMT

پاکستان میں بچے تیزی سے ذیابیطس کا شکار ہورہے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT

ذیابیطس جسے عرف عام میں شوگر بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا مرض ہے جو پاکستان میں بالغان میں نہ صرف عام ہے بلکہ تیزی سے پھیل رہا ہے، بالغ افراد میں ذیابیطس کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، تاہم اب وطن عزیز میں شیرخوار بچوں سے لے کر دس بارہ سال کی عمر کے بچوں میں بھی اس مرض کے کیسز سامنے آرہے ہیں اور تشویش ناک امر یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہورہی ہیں، جو اس سے پہلے بڑی عمر کے افراد ہی میں دیکھنے میں آتی تھی۔

 بچوں میں ذیابیطس کے مرض، اس کی وجوہات، علاج اور احتیاط کے حوالے سے معروف ماہر امراض اطفال اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی ( SICHN ) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا سے کی گئی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

 ذیابیطس یا شوگر کسے کہتے ہیں؟ بچوں اور بڑوں کی ذیابیطس میں کیا فر ق ہوتا ہے؟

 پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ ویسے تو اس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جب خون میں شوگر یا شکر کی مقدار بڑھ جائے تو پھر یہ ایک مرض کی شکل اختیار کرجاتی ہے جسے ذیابیطس یا شوگر کہتے ہیں۔

بچوں اور بڑوں کی ذیابیطس بالکل الگ الگ ہوتی ہیں۔ یوں سمجھیں کہ بچوں کی ذیابیطس ایک الگ قسم کی بیماری ہے۔ بچوں میں ذیابیطس کی کم از کم تین اقسام دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جو جینیاتی ذیابیطس کہلاتی ہے۔ اس قسم میں بچے کے جینز میں کوئی خرابی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اسے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ایک دو ماہ کے شیرخوار بچوں کو بھی جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے ذیابیطس ہوجاتی ہے۔

 اس جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے بچوں کو کئی طرح کے سنڈروم ( بیماریاں) اور دماغی امراض بھی ہوسکتے ہیں اور جینز کی یہی خرابی بچوں کو ذیابیطس میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے ہونے والی ذیابیطس کی کچھ اقسام کا علاج عام سی دواؤں سے ہوسکتا ہے۔ اگر ایک سال یا چھے ماہ سے کم عمر بچے کو ذیابیطس ہو تو اس کے لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ ایسے بچے کی جینیٹک ٹیسٹنگ یعنی جینیاتی تشخیص کرائی جائے، پاکستان میں یہ سہولت دست یاب نہیں ہے مگر بیرون ملک بآسانی یہ تشخیص ہوجاتی ہے اور بلامعاوضہ بھی ہوجاتی ہے، ہم جینیٹک ٹیسٹ باہر بھجواتے ہیں جس سے یہ پتا چل جاتا ہے بچے کو ذیابیطس کس جینیاتی خرابی کی وجہ سے ہوئی ہے، اس تشخیص کے بعد ذیابیطس کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن کا دواؤں سے علاج ہوسکتا ہے، بقیہ اقسام کا دواؤں سے علاج ممکن نہیں۔

 شیرخوار بچوں کو عموماً جینیاتی بگاڑ کی وجہ سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہوتا ہے، بڑے بچے کس عمر میں اس مرض کا شکار ہوتے ہیں؟

اس بارے میں پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ بچوں میں ایک سال سے لے کر بارہ، پندرہ یہاں تک کہ اٹھارہ سال تک کی عمر میں ذیابیطس کی جس قسم کے زیادہ تر کیسز دیکھنے میں آتے ہیں وہ ٹائپ ون ذیابیطس کہلاتی ہے، پہلے اسے جووینائل ذیابیطس بھی کہتے تھے مگر  اب عام طور پر ٹائپ ون ذیابیطس ملائٹس کہتے ہیں۔

ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبے (پینکریاز) میں موجود انسولین بنانے والے خلیے مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر ان خلیوں کے تباہ ہونے کا سبب ان میں آٹو امیون اینٹی باڈیز کا تشکیل پاجانا ہوتا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز انسولین بنانے والے خلیوں جنہیں بیٹا سیلز کہا جاتا ہے انہیں نشانہ بناتی ہیں اور تباہ کردیتی ہیں، تاہم یہ عمل چند دن نہیں بلکہ مہینوں اور بعض اوقات سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ جب یہ خلیے بالکل یا نوے فی صد سے زیادہ ختم ہوجاتے ہیں تو ذیابیطس ظاہر ہوتی ہے۔

 ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار بچوں کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟

اس سلسلے میں ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ ٹائپ ون ذیابیطس میں چونکہ بچوں کے جسم میں انسولین ہی موجود نہیں ہوتی تو انہیں وہ دوائیں نہیں دی جاسکتیں جو عام طور پر  ذیابیطس میں دی جاتی ہیں۔

 بڑوںکو جو ذیابیطس لاحق ہوتی ہے جسے ٹائپ ٹو ذیابیطس کہا جاتا ہے، اس میں انسولین جسم میں موجود ہوتی ہے مگر وہ کام نہیں کررہی ہوتی۔ انسولین کی مثال ایسے سمجھ لیں کہ یہ چابی ہے جو دروازہ کھولتی ہے اور شوگر خلیے کے اندر چلی جاتی ہے جس کی جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ چابی نہیں ہوگی تو دروازہ نہیں کھلے گا اور باہر شوگر خون کی نالیوں میں گھومتی رہے گی اور بالآخر نکلنا شروع ہوجائے گی۔ تو بڑوں میں انسولین موجود ہوتی ہے مگر ان کی تالے کی چابی گڑبڑ کررہی ہوتی ہے اور بچوں میں انسولین ہوتی ہی نہیں ہے تو سمجھیں وہ چابی ہی غائب ہوگئی۔

 اس لیے بچوں میں ذیابیطس کا سوائے انسولین کے انجیکشن کے دنیا بھر میں کوئی علاج نہیں ہے، جب کہ بڑوں میں ہم تالے کی اس چابی کو ٹھیک کرنے کے لیے دوائیں دے سکتے ہیں کہ وہ کام شروع کردے۔ تو بڑوں اور بچوں کی ذیابیطس میں یہ بنیادی فرق ہے۔

 پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ  ٹائپ ٹو ذیابیطس کے لاحق ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے، یہ موروثی طور پر ہوسکتی ہے،  پھر طرز زندگی، خوراک اور جسمانی سرگرمی یعنی ورزش پر بھی اس کا انحصار ہوتا ہے۔ پہلے اس میں جسم کے اندر انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی ہے جو بعدازاں ذیابیطس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

بچوں میں ذیابیطس ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟

 اس سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ بچوں کی خوراک ہے۔ اب بچے زیادہ تر فاسٹ فوڈ، برگر، چپس، اور جنک فوڈ کھا رہے ہیں، پھر آن لائن ڈیلیوری سروسز ہیں جو یہ چیزیں گھر پہنچادیتی ہیں۔ پھر دوسرا سبب یہ ہے کہ بچوں میں ورزش کا رجحان بالکل ختم ہوگیا ہے۔ حالات کی خرابی، کھیل کے میدانوں کی کمی سمیت اب اس کی سب سے بڑی وجہ موبائل فون ہے۔

ہم روزانہ مریض بچے دیکھتے ہیں، بمشکل کوئی بچہ ایسا ہوتا ہے جو شام کو میدان میں جا کر کھیلتا ہو۔ ہمارے زمانے میں یہ تصور ہی نہیں تھا کہ شام کے وقت  بچہ گھر میں رہے۔  شام ہوتے ہی میدان میں جاکر موسم کا کوئی بھی کھیل کرکٹ، ہاکی وغیرہ کھیلنا معمول ہوا کرتا تھا۔ یہ تصور نہیں تھا کہ بچے شام کے وقت گھر میں رہیں۔

 اب معاملہ برعکس ہوگیا ہے، اب یہ تصور ہی نہیں ہے کہ بچے شام کے وقت گھر سے باہر جا کر کوئی کھیل کھیلیں۔ اس وجہ سے وہ ذیابیطس جو بڑوں کو چالیس، پینتالیس سال کی عمر میں جا کر ہوتی تھی وہ اب بارہ تیرہ سال تک آگئی ہے۔ اب تیرہ چودہ سال کے بچوں کو ہم ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا دیکھ رہے ہیں، جبکہ بچوں میں ٹائپ ٹو ذیابیطس ہوتی ہی نہیں تھی۔ تو لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اب کسی بھی قسم کی ذیابیطس کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے۔

بچوں میں ذیابیطس کی علامات کیا ہوتی ہیں؟

 پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے کہا کہ عام طور پر بڑوں کی ذیابیطس کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی پائی جاتی ہے کہ اس مرض میں مبتلا فرد کو پیشاب زیادہ آتا ہے اور بھوک، پیاس زیادہ لگتی ہے۔ علامات بچوں میں بھی یہی ہوتی ہیں، مگر نظرانداز ہوجاتی ہیں کیونکہ لوگوںکے ذہن میں یہ تصور ہی نہیں ہوتا کہ بچوں کو بھی ذیابیطس ہوسکتی ہے۔ تعلیم یافتہ طبقے میں تو پھر بھی اس حوالے سے شعور پایا جاتا ہے مگر کم پڑھے لکھے طبقے میں تو بچوں میں ذیابیطس کا تصور ہی نہیں ہے۔ بچہ خود ہی جاکر پیشاب کرلیتا ہے اور پانی پی لیتا ہے۔

 ڈاکٹر سید جمال رضا کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹر کے پاس والدین بچے کو لے کر آئے کہ اسے پیشاب زیادہ آرہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں بڑا ہوکر ٹھیک ہوجائے گا۔ اب وہ ڈاکٹر اتائی تھا یا نہیں، بہرحال بچوں میں ذیابیطس کے حوالے سے عمومی طور پر شعور و آگہی کا فقدان ہے۔ پھر اگر ذیابیطس کی تشخیص تاخیر ہو تو یہ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بچہ بعض اوقات ایک ایسی صورتحال کا شکار ہوجاتا ہے جسے ہم کیٹو ایسیڈوسس ( Ketoacidosis ) کہتے ہیں۔ اس حالت میں پہنچ کر بچے بے ہوش ہوجاتے ہیں اور انہیں جھٹکے پڑنے لگتے ہیں اور زندگی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔

 کیا بچوں کو ذیابیطس سے نجات مل سکتی ہے؟

 یہ ممکن نہیں ہے، کیوںکہ ذیابیطس کا شکار بچوں میں انسولین بنانے والے خلیے تو ختم ہوجاتے ہیں۔ فی الوقت دنیا میں کوئی ایسا علاج موجود نہیں جس سے انسانی جسم دوبارہ انسولین بنانا شروع کردے۔ تو جب انسولین نہیں بن رہی تو آپ بیرونی ذریعے سے اس کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے بتایا کہ ذیابیطس کا علاج دریافت کرنے پر تحقیق ہورہی ہے، ایک تحقیق یہ بھی ہورہی ہے کہ انسولین بنانے والے بِیٹا خلیوں کو ٹرانسپلانٹ کیا جائے، جیسے گردوں یا دیگر انسانی اعضا کا ٹرانسپلانٹ ( پیوند کاری) کی جاتی ہے، اور اگر یہ طریقہ کامیاب ہوجاتا ہے تو بِیٹا خلیے انسولین بنانے لگیں گے اور مریض کو ذیابیطس کے مرض سے نجات مل جائے گی لیکن یہ ابھی تحقیقی مراحل میں ہے، اور فی الوقت ترقی یافتہ ممالک میں بھی ذیابیطس کا علاج انسولین لگانا ہی ہے۔

جن والدین یا ان میں سے کسی ایک کو ذیابیطس ہے تو کیا ان کے بچوں میں اس مرض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟

 پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ والدین کو ذیابیطس کی کون سے قسم لاحق ہے۔ اگر انہیں ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے تو اس صورت میں بچے کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہونے کا خطرہ لاحق ہوگا، اور یہ مرض کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے بتایا کہ اگر بچے کا طرز زندگی صحت مند نہیں ہوگا تو کم عمری میں ذیابیطس ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

 اگر والدین یا ان میں سے کسی کو ٹائپ ون ذیابیطس ہے، یعنی انہیں بچپن میں ٹائپ ون ذیابیطس ہوئی اور وہ انسولین پر ہیں تو ان والدین کے بچوں میں بھی ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لیکن بہت زیادہ نہیں بڑھتا۔ اور ٹائپ ٹو کے مقابلے میں ٹائپ ون ذیابیطس کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

 ذیابیطس کا شکار بچوں کی خوراک کیا ہونی چاہیے؟

 اس بارے میں ڈاکٹر سید جمال رضا نے کہا کہ ایک تو شکر بڑھانے والی تمام اشیاء ہم منع کردیتے ہیں کہ وہ نہ دی جائیں، پھر چاول، میدے سے بنی چیزیں، شکر کی زائد مقدار کے حامل پھل اور پھلوں کے مشروبات (جوس) کی ممانعت کی جاتی ہے۔ پھل تھوڑی مقدار میں دیے جاسکتے ہیں مگر پھلوں کے مشروبات منع ہوتے ہیں۔

 ڈاکٹر جمال رضا نے مزید کہا کہ ذیابیطس کے مریض بچوں کے لیے ہم جن اشیائے خوراک کی سفارش کرتے ہیں وہ تقریباً وہی غذا ہوتی ہے جسے ہم صحت بخش غذا کہتے ہیں، یعنی کاربوہائیڈریٹ (نشاستہ) کا استعمال کم کیا جائے، پروٹین (لحمیات) تھوڑی سی زیادہ مقدار میں ہوں اور غذا میں سبزیاں اور فائبر (ریشے دار غذائیں) شامل ہونی چاہییں تاکہ نظام انہضام درست انداز میں کام کرے۔

یہی غذا ہم ذیابیطس میں مبتلا بچوں کو تجویز کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اس میں سے شکر نکال دی جاتی ہے۔ پھر علاج کے مراحل پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ جب کنٹرول بہتر ہوجاتا ہے تو ہم محدود مقدار میں کاربوہائیڈریٹ کے استعمال کی اجازت دے دیتے ہیں۔

 ذیابیطس میں مبتلا شیر خوار بچوں کے لیے کوئی خاص دودھ وغیرہ تجویز کیا جا تا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سید جمال رضا کا کہنا تھا کہ بچہ دودھ تو ماں ہی کا پیتا ہے، مگر ہم انسولین کی مقدار کو تھوڑا ایڈجسٹ کرلیتے ہیں۔

 ذیابیطس کا شکار بچوں پر اس مرض کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں؟

 اس بارے میں پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے کہا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں نفسیاتی اثرات بالکل ہوتے ہیں، وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں، ان میں رویے کے مسائل بھی دیکھنے میں آتے ہیں مگر اس کی براہ راست وجہ ذیابیطس نہیں ہے۔ اس کی وجہ ذیابیطس کے مریضوں کے ارد گرد موجود افراد ہوتے ہیں۔ بچہ ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ جب دوسرے بچے سب کچھ کھا رہے ہیں تو مجھ پر کیوں پابندی ہے، پھر جب بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اس کے رویے میں ناراضی آجاتی ہے، اور یہ غصہ بعض اوقات ایک مختلف شکل اختیار کرلیتا ہے۔

 ویسے بھی ٹین ایج، عمر کا ایک مشکل دور ہوتا ہے جب آپ کے اندر مزاحمت ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے پابندیوں کو چیلینج کرتے ہیں اور جب ذیابیطس بھی ہوجائے تو پھر مشکل سوا ہوجاتی ہے۔ پھر چار مرتبہ شوگر بھی ٹیسٹ کرنی ہے اور چار مرتبہ انسولین بھی لگانی ہے تو یہ کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔

پھر ہمارا معاشرہ جینے نہیں دیتا۔ ماں باپ سمیت تمام افراد اس بچے کو ہر قدم پر احساس دلا رہے ہوتے ہیں کہ تم ایب نارمل ہو۔ تو ہم والدین کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے اس بچے کے ساتھ بھی وہی طرز عمل اور رویہ اختیار کریں جو دوسرے عام بچوں کے ساتھ اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ مختلف محسوس نہ کریں۔

دوسری بات یہ کہ ذیابیطس کے مریض بچوں کے لیے ہم صحت بخش غذائیں تجویز کرتے ہیں اگر پورا گھرانا یہ غذا استعمال کرنے لگے تو پھر اس بچے کو محسوس ہی نہیں ہوگا کہ اس کے ساتھ کوئی امتیاز روا رکھا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سید جمال رضا نے کہا کہ پھر بچوں کی اس کیفیت کے علاج کے لیے ماہر نفسیات اور کاؤنسلرز ہوتے ہیں جو انہیں مختلف طریقے سے سمجھاتے ہیں اور انہیں غصے اور فرسٹریشن سے نجات دلاتے ہیں۔

  پاکستان میں بچوں میں ذیابیطس کی شرح کیا ہے؟

 پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا کا اس بارے میں کہنا تھا کہ پاکستان میں اس حوالے سے مستند اعدادوشمار دست یاب نہیں ہیں تاہم عالمی اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں میں ذیابیطس کی شرح کم ہے تاہم عملی طور پر دیکھیں تو ہمیں بہت بچے نظر آتے ہیں، کئی ہزار بچے ہمارے پاس ہیں اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، نیزبچوں میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا پھیلاؤ تو یقیناً بڑھ رہا ہے۔ بڑوں والی ذیابیطس کی یہ قسم (ٹائپ ٹو) پہلے بچوں میں نہیں ہوا کرتی تھی، جب سے بچوں کی خوراک میں تبدیلی آئی ہے اس سے ٹائپ ٹو ذیابیطس بڑھ رہی ہے۔

والدین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

 پروفیسر ڈاکٹر سید جمال رضا نے والدین کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو بھی ذیابیطس ہوسکتی ہے اور اس کی علامات تقریباً وہی ہیں جو اس مرض کا شکار بالغ افراد میں ہوتی ہیں، یعنی اگر آپ کو لگے کہ بچہ پیشاب زیادہ کررہا ہے اور پانی بہت زیادہ پی رہا ہے تو ضرور ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور اسے کہیں کہ بچہ پیشاب زیادہ کررہا ہے آپ شوگر ٹیسٹ کرالیں۔

 بچوں میں بھی ذیابیطس کی عام طور پر یہی دو علامات ہوتی ہیں۔ بھوک کا لگنا بھی ایک علامت ہے مگر عمومی طور پر والدین اسے بیماری نہیں سمجھیں گے بلکہ وہ خوش ہوں گے کہ بچہ زیادہ کھا رہا ہے تو صحت اچھی ہوجائے گی۔ بچوں میں وزن کی کمی بھی ذیابیطس کی علامت ہوسکتی ہے مگر اس مرحلے یعنی وزن کم ہونے تک پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔

بہتر ہے کہ گھر میں گلوکومیٹر سے بچے کی شوگر چیک کرلیں یا پیشاب کا ٹیسٹ کرالیں تاکہ ذیابیطس ہونے کا خدشہ دور ہوجائے۔ ممکن ہے کہ بچے کی یہ کیفیت کسی اور وجہ سے ہو، مگر ٹیسٹ کرانے سے صورت حال واضح ہوجائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر سید جمال رضا کا ذیابیطس کا شکار بچوں بچوں میں ذیابیطس کی انسولین بنانے والے ٹائپ ون ذیابیطس ذیابیطس کے مریض ذیابیطس ہونے بچوں میں بھی دیکھنے میں ا تصور ہی نہیں پاکستان میں پیشاب زیادہ ذیابیطس میں میں انسولین بھی ذیابیطس کہنا تھا کہ ذیابیطس ہو کہ ذیابیطس ہوجاتے ہیں کو ذیابیطس کی ذیابیطس سے ذیابیطس ہوجاتی ہے ہوسکتی ہے ہوجاتا ہے میں مبتلا حوالے سے میں ٹائپ کہتے ہیں کرتے ہیں ہوتی ہیں ہوتے ہیں ہے تو اس نہیں ہے بچوں کو بچوں کے ہوتی ہے ہونے کا کا خطرہ ہوتی ہی کے بچوں بچوں کی کہ بچوں جائے گی ہوتا ہے جاتی ہے ہیں اور جاتا ہے یہ تصور میں بچے ہوتے ہی کا علاج رہے ہیں ہے مگر کہ بچہ ہے اور تو پھر رہا ہے ہے جسے کے لیے بچے کو میں یہ کیا جا ہیں کہ

پڑھیں:

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مسلسل دوسرے روز تیزی کا رحجان ، 100 انڈیکس نے 1 لاکھ 56 ہزارپوائنٹس کی نفسیاتی حدکو عبورکرلیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2025ء) پاکستان سٹاک ایکسچینج میں منگل کومسلسل دوسرے روزبھی کاروبارمیں تیزی کارحجان رہا اورکے ایس ای 100انڈیکس نے ایک مرتبہ پھر1لاکھ 56ہزارپوائنٹس کی نفسیاتی حدکوکامیابی سے عبورکیا۔دن 12بجے تک کے ایس ای 100انڈیکس میں 720.94پوائنٹس کااضافہ ہوااورانڈیکس 156105.44پوائنٹس تک پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

مجموعی طورپر584308679حصص کالین دین ہواجن کی مالیت 19.26ارب روپے تھی۔

کے ایس ای 30انڈیکس 281.53پوائنٹ اضافے کے بعد47748.52پوائنٹس تک جبکہ اسلامی مالیات کاحامل کے ایم آئی 30انڈیکس 1814.26پوائنٹ کے اضافے سے 229459پوائنٹس تک پہنچ گیا۔فیوچرٹریڈنگ کے تحت 4.32ارب روپے کے سودے طے پائے۔ بینک آف پنجاب،پاکستان انٹرنیشنل بلک ٹرمینل اورمیڈیاٹائمز لیمیٹڈ سرفہرست ایڈوانسرکمپنیاں رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شوگر کے مریضوں کے لیے مورنگا (سہانجنا) کے 6 حیرت انگیز فوائد
  • پاکستان میں گلیشیئرز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں: چیئرمین این ڈی ایم اے کا انتباہ
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 200 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • ایشیا کپ: پاک یو اے ای میچ ہوگا یا نہیں، ایشین کرکٹ کونسل بھی تذبذب کا شکار
  • سیگریٹ نوشی ٹائپ 2 ذیابیطس کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے، تحقیق
  • کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان
  • کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے: عطا تارڑ
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مسلسل دوسرے روز تیزی کا رحجان ، 100 انڈیکس نے 1 لاکھ 56 ہزارپوائنٹس کی نفسیاتی حدکو عبورکرلیا
  • عالیہ بھٹ نے بیٹی کی پیدائش کے بعد تیزی سے وزن کیسے کم کیا؟
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی ہورہی ہے: ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ