حماس کا غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے ثالثوں کی تجاویز پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
غزہ/لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اگست ۔2025 )فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے علاقائی ثالثوں کی تازہ ترین تجویز سے اتفاق کیا ہے مصر اور قطر کی جانب سے یہ تجویز امریکی سفیر سٹیو وٹکوف کی جانب سے جون میں پیش کیے گئے فریم ورک پر مبنی ہے.
(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق معاہدے کے نتیجے میں حماس 50 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تقریباً نصف کو دو گروہوں میں آزاد کرائے گی جن میں سے 20 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اسی کے ساتھ ساتھ مستقل جنگ بندی پر بھی بات چیت ہوگی تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا جیسا کہ وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دفتر سے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل صرف اسی صورت میں معاہدے کو قبول کرے گا جب تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے گا.
حماس کی جانب سے ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد جاری کی گئی ایک ویڈیو میں نیتن یاہو نے براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم انہوں نے تاثردیا کہ حماس شدید دباﺅ میں ہے دریں اثنا اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال ازمیرنے کہا ہے کہ یہ 22 ماہ سے جاری جنگ میں ایک اہم موڑ ہے اور اس میں غزہ شہر میں حماس کے خلاف حملوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے. غزہ میں عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے فضائی اور توپ خانے کے حملوں کی مدد سے جنوبی سبرا کے علاقے میں اچانک پیش قدمی کی اور سکولوں اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک کلینک کا محاصرہ کر لیا جس میں سینکڑوں بے گھر افراد کو پناہ دی جا رہی ہے. توقع ہے کہ رواں ہفتے کے اواخر میں اسرائیلی کابینہ غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے فوج کے منصوبے کی منظوری دے گی جہاں اسرائیلی حملوں میں شدت نے پہلے ہی ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ 50کے قریب شدیدزخمی فلسطینی بچوں کے ایک گروپ کو آنے والے ہفتوں میں علاج کے لیے غزہ سے برطانیہ منتقل کیا جائے گا. ان بچوں کو برطانوی دفتر خارجہ، ہوم آفس اور محکمہ صحت کے تعاون سے چلائے جانے والے حکومتی آپریشن کے حصے کے طور پر علاج کے لیے برطانیہ لے جایاجائے گا عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس فیصلے کا حق حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹروں کو دیا ہے کہ وہ جن بچوں کو علاج کے لیے برطانیہ بھیجنے کا انتخاب کریں گے ادارہ ان کے اس فیصلے کی توثیق کرے گا خیال رہے کہ برطانیہ کے کچھ ارکان پارلیمنٹ نے حکومت کو خط لکھ کر غزہ سے بیمار اور زخمی بچوں کو بغیر کسی تاخیر کے برطانیہ لانے پر زور دیا تھا. خط میں 96 ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے متنبہ کیا تھا کہ غزہ میں صحت کا نظام تباہی کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں بیمار اور زخمی بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور ایسے میں انخلا میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے پروجیکٹ پیور ہوپ (پی پی ایچ) نامی تنظیم کے ایک اقدام کے ذریعے غزہ کے کچھ بچوں کو پہلے ہی علاج کے لیے نجی طور پر برطانیہ لے جا چکا ہے لیکن حکومت نے اب تک تنازع کے دوران اپنی سکیم کے ذریعے کسی کو بھی باہر نہیں نکالا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معیاری کلینیکل پروٹوکول کے مطابق مریض کا علاج کرنے والے ڈاکٹر یا طبی ماہر کی جانب سے مریض کی زندگی بچانے، خصوصی توجہ اور دیکھ بھال کی اشد ضرورت والے مریضوں کو ترجیح دی جائے گی اسی کے بعد غزہ میں وزارت صحت کی ریفرل کمیٹی کیس کا جائزہ کے گی اور مریض کے غزہ سے انخلا کا فیصلہ کرے گی اور انھیں بھیجنے کی منظوری دے گی. اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 50 ہزار سے زائد بچے ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جنگ کے آغاز سے ہی برطانیہ نے فنڈز فراہم کیے ہیں تاکہ غزہ کے زخمی باشندوں کا علاقے کے ہسپتالوں میں علاج کیا جا سکے اور وہ اردن کے ساتھ مل کر علاقے میں امداد پہنچانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علاج کے لیے کی جانب سے بچوں کو
پڑھیں:
سیاسی قیادت کا یرغمالیوں پر کنٹرول نہ رہا، جنگ جاری رہے گی، حماس عسکری ونگ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ :۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر حماس کی سیاسی قیادت نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کچھ شقوں پر ترمیم کا مطالبہ کیا ہے، تاہم عسکری قیادت کا جنگ جاری رکھنے پر اصرار ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق حماس کے ایک سینئر سیاسی رہنما نے ہمارے نمائندے سے گفتگو میں بتایا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کر دیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیل کے مفادات کو ضرور پورا کرتا ہے لیکن فلسطینی عوام کے مفادات کو نظر انداز کرتا ہے۔ حماس کی سیاسی قیادت کو امن منصوبے کے تحت غزہ میں بین الاقوامی افواج کی تعیناتی اور غیر مسلح ہونے کی شقوں پر بھی شدید تحفظات ہیں۔
حماس رہنما نے کہا کہ امریکی منصوبے میں کئی مبہم نکات ہیں جن میں اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ امن منصوبہ دراصل ٹرمپ کے سیاسی فائدے کے لیے بنایا گیا۔ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل کسی نہ کسی بہانے کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔
دوسری جانب تاحال غزہ میں مقیم حماس کے اعلیٰ ترین ملٹری کمانڈر عزالدین الحداد ٹرمپ کی تجویز کو قبول کرنے کے بجائے جنگ جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم حماس کی سیاسی قیادت کو حال ہی میں اندرونی مذاکرات سے دور کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کا یرغمالیوں پر براہ راست کنٹرول نہیں رہا ہے۔
ادھر سعودی اخبار اشرق الاوسط نے رپورٹ کیا کہ عزالدین الحداد نے اپنا پیغام بیرون ملک مقیم حماس کی سیاسی قیادت تک پہنچا دیا ہے۔
دوسری جانب مذاکرات میں شامل اسرائیلی حکام توقع کرتے ہیں کہ حماس کا ردعمل روایتی “ہاں” اور “لیکن” کی شرط کے ساتھ ہوگا، یعنی نہ مکمل اقرار اور نہ مکمل انکار۔ دیکھنا یہ ہے کہ قطر میں مقیم حماس کی سیاسی قیادت کی امن منصوبے کی شقوں میں ترمیم کے لیے مذاکرات کے عندیہ اور غزہ میں مقیم عسکری کمانڈر کے جنگ جاری رکھنے کے عزم میں کون، کس پر حاوی ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیلی فورسز سے دوبدو لڑتے ہوئے شہید ہونے والے رہنما یحییٰ السنوار کے بعد اب سپہ سالار عزالدین الحداد ہیں جو تاحال غزہ میں ہی مقیم ہیں۔