Express News:
2025-11-02@18:52:34 GMT

ریل کی جادو نگری اور ہیلو البیرونی (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT

میں جب پچھلی بار گھر سے جرنیلی سڑک پر نکلا تھا تو ارداہ کچھ یوں تھا کہ ان تمام ریلوے اسٹیشنوں کی سیاحت ہوگی جہاں اب ریل نہیں رکتی۔ اگر رکتی ہے تو صرف کراسنگ کے لیے۔ ان میں سے کچھ ریلوے اسٹیشن ایسے تھے جنھیں کسی مصلحت کے تحت چھوڑ دیا۔ ایک ریلوے اسٹیشن رتیال بھی تھا۔

میں گھر سے ہی یہ فیصلہ کر کے نکلا تھا کہ رتیال نہیں جانا، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ رتیال بہت وقت کھا جائے گا اور اس دن میرے پاس دیکھنے کو اور بہت کچھ تھا۔ اگر میں اس وقت رتیال دیکھ لیتا تو یقینی طور پر قلعہ سنگنی اور جلال سَر نہ دیکھ پاتا۔ اب یہ دونوں ہی مجھ سے بہت دور تھے تو بہتر یہی سمجھا کہ رتیال کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں اور قلعہ سنگنی اور جلال سَر پر دھیان کرتے ہیں اور میں نے یہی عقل مندی کا کام کیا۔ اب کی بار جب آوارگی کا بلاوا آیا تو فہرست میں سب سے پہلے رتیال ہی کو رکھا۔ میرے ہم سفر کا پورا ارادہ تھا کہ رتیال کو چھوڑ کر باقی چیزوں پر دھیان کرنا چاہیے مگر مجھے یہی مناسب لگا کہ اس پر دوسری چیزوں کو چھوڑنا مناسب ہوگا مگر رتیال کو پہلے نمبر پر ہی رکھنا بہت ضروری تھا۔ اس سفر نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ ناپسندیدہ بات کو برداشت کرنا، دیر تک بائیک چلانا۔ اگرچہ کہ میں نے بائیک پر بہت سفر کیا ہے مگر زیادہ بائیک نہیں چلائی۔

اس سفر میں میری جھجک بھی دور ہوئی اور میں نے اچھی خاصی بائیک بھی چلائی۔ میرے ہم سفر کے مطابق میں نے اس دن 203 کلو میٹر بائیک چلائی اور میرا نہیں خیال کہ اتنی بائیک میں نے کبھی پہلے چلائی ہوگی۔ اس دن مجھے یہ احساس ہوا کہ میں جو کافی وقت سے اپنا ننکانہ صاحب کا دورہ صرف اس وجہ سے نہیں کر رہا کہ مجھے بائیک خود چلانا پڑے گی، اب مجھے پہلی فرصت میں ہی اسے کرنا چاہیے کہ بائیک چلانا میرے لیے اب کوئی اتنا بڑا کام نہیں رہا۔

 بڑی عید سے پہلے تک تو موسم تقریباً اچھا ہی تھا مگر بڑی عید کے آتے ہی نہ جانے سورج کو کیا مستی سوجھی کہ نہ صرف گرم ہو گیا بلکہ بہت گرم ہوگیا۔ میں چوں کہ ایک عرصہ سے خبروں سے دور ہوں، اس لیے موسم کے بارے معلومات نہ مل سکیں۔ سولر ٹکنالوجی کی بدولت اب چوں کہ شب و روز کی ایئرکنڈیشنر میں گزرتے ہیں، اس لیے موسم کے گرم ہونے کا کچھ خاص معلوم نہ ہوسکا۔ اگرچہ کہ ارادہ یہی تھا کہ میں رات گیارہ بجے تک اپنے سفر پر نکل جاؤں مگر نکتے نکلتے بھی تقریباً بارہ بج ہی گئے۔

سیال کوٹ وزیرآباد سڑک اب بہت بہتر ہے، اس لیے پہلے میرا جو سفر ایک گھنٹے میں مکمل ہوتا تھا، اب وہ پینتالیس سے پچاس منٹ میں مکمل ہوگیا حالاں کہ میرے دوست احباب سیال کوٹ سے وزیرآباد جاتے ہوئے پینتیس منٹ سے زیادہ ہرگز نہیں لگاتے۔ اب میں ٹھہرا سست اور آرام سے بائیک چلانے والا آدمی۔ سچی بات ہے کہ مجھے تیزرفتاری سے ڈر لگتا ہے۔ میرے پیچھے رونے والے بہت ہیں بھائی! ویسے بھی مجھے اپنے بچوں سے ٹھیک ٹھاک پیار ہے۔

میں جب انھیں اپنے سینے سے لگاتا ہوں تو میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے۔ میں انھیں بڑا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہ جانے کس کی موت کہاں لکھی ہے مگر مجھے کوئی شوق نہیں کہیں اور مرنے کا، میں تو اپنے ہی بستر پر اپنے بچوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں تاکہ مرتے وقت بھی میری آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے میرے ڈیڈی نے اپنے بستر پر ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی آخری سانسیں لیں۔

میں وزیرآباد پہنچا تو میرا ہم سفر منہ پھلائے کھڑا تھا۔ اس کا منہ پُھولانا بنتا بھی تھا۔ وہ بہت پہلے گوجرانوالا سے وزیرآباد پہنچ چکا تھا اور میرا انتظار کر رہا تھا۔ میرے دماغ میں نہ جانے کیوں یہ بات تھی کہ وزیرآباد میں اس کے کوئی رشتے دار رہتے ہیں اور وہ وہیں ان کے ہاں آرام کر رہا ہوگا، مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ بے چارا فقط میرے انتظار میں وزیرآباد کی گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ ہم جو وزیرآباد سے نکلے تو آدھی رات گزر چکی تھی۔

خدا کا کرنا کچھ ایسا تھا کہ اس دن میں بالکل بھی سو نہ سکا۔ میری دوپہر کو سونے کی بہت پکی عادت ہے مگر چوں کہ یہ عید کا تیسرا دن تھا تو مہمانوں کی آمد کی وجہ سے میں سو نہ سکا۔ رات ویسے ہی سویا نہیں جانا تھا تو سوچا کہ دینہ پہنچ کر کچھ سستا لیں گے۔ آپ اگر گجرات کی طرف سے جرنیلی سڑک پر سفر کر رہے ہوں تو دینہ پہنچ کر ایک پُل آئے گا۔ اس پل پر چڑھنے کی بجائے اگر آپ بائیں جانب یعنی اپنے ہاتھ رہتے ہوئے ہی سڑک سے نیچے اتر جائیں تو آپ گلزار کے دینہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جائیں گے۔ اس پُل پر چڑھنے سے پہلے پہلے ہی ہم نے سونے کے لیے کچھ جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر سب بے سود رہا۔ سڑک پر ایک ٹرک ہوٹل تھا جس کے باہر چارپائیاں بچھی تھیں۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی یا ایجادات ہوئی ہیں، سب کی سب چارپائی کی مرہون منت ہیں۔ کم از کم مجھے تو یہ چار پائی بہت پسند ہے۔

خاص کر جب میں بائیک کے سفر پر ہوں تو میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی ایسے ہوٹل پر چائے یا کھانے کے لیے بریک لگائی جائے جہاں پر چارپائی میسر ہو یا کم از کم ایک بڑا سا تختہ ہو جہاں آپ کچھ دیر کے لیے کمر بھی سیدھی کرسکیں۔ اگر چارپائی میسر نہ بھی ہو تو میں اپنی استراحت کا کچھ نہ کچھ بندوبست کر ہی لیتا ہوں۔ دینہ پہنچ کر ہمیں سڑک کنارے ایک ٹرک ہوٹل نظر آیا جس کے باہر چارپائیاں بچھی تھیں۔

ہوٹل بند تھا اور ہوٹل کے ملازمین ان چارپائیوں پر سو رہے تھے۔ دو چارپائیاں خالی تھیں۔ میں نے اپنے ہم سفر سے کہا کہ ہمیں یہیں چارپائی پر لیٹ جانا چاہیے مگر اس نے حفاظت کے پیش نظر میرا خیال ترک کر دیا۔ موصوف کا خیال تھا کہ یہاں پر لیٹنا ایک سیکیورٹی رسک ہو سکتا ہے اور کوئی بھی ہمیں لوٹ کر جا سکتا ہے جب کہ میرا کہنا تھا کہ ہم عین جرنیلی سڑک پر ہیں آمد و رفت جاری ہے۔ سڑک ویرات بالکل بھی نہیں، اس لیے یہاں پر کچھ دیر کے لیے کمر سیدھی کرنا مناسب رہے گا مگر میرے خیال کو مسترد کر دیا گیا۔ سامنے ہی ایک پیٹرول پمپ تھا جہاں ایک مسجد تو تھی مگر چوںکہ وہ بھی زیرتعمیر تھی اور سڑک سے کچھ ہٹ کرتھی تو مجھے وہاں پر لیٹنا بھی سیکیوریٹی رسک لگا۔ ہاں کچھ ہی دور ایک اور پیٹرول پمپ تھا جہاں بتیاں روشن تھیں اور مسجد بھی بنی ہوئی تھی، ہم نے وہیں لیٹنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی فجر کی نماز میں کم از کم آدھا گھنٹہ تو تھا۔ خدا کا گھر تو ہمیں مل گیا مگر آرام و سکون میسر نہ آ سکا۔ وضو کر کے ہم جو مسجد میں گئے تھوڑی دیر کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ گارڈ مسجد میں آگیا اور التجا کی کہ ہم لوگ نماز پڑھتے ہی یہاں سے چلے جائیں۔ موصوف فرمانے لگے کہ چوںکہ پیٹرول پمپ میں ہر جگہ کیمرے نصب ہیں اس لیے جلتی ہوئی لائٹ کیمرے کی زد میں آئے گی اور مالکان ہم سے پوچھیں گے کہ یہاں کون مسجد میں لائٹ جلا کے بیٹھا رہا تو ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا، بہتر یہ ہے کہ آپ نماز پڑھ کے یہاں سے چلے جائیں۔

میں نے انہیں باتوں میں لگانے کی بہت کوشش کی۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ ہی دیر میں ایک گاڑی وہاں پر آ کر رکی۔ سب مسافروں کو نماز ادا کرنا تھی۔ کچھ دیر آرام کرنے یعنی کچھ دیر آنکھیں بند کر کے لیٹنے کے لیے اب اتنا ہی وقت تھا کہ وہ لوگ نماز پڑھتے رہیں اور ہم لیٹ جائیں۔ میں نے جلدی سے نماز فجر ادا کی اور آنکھیں موند کے لیٹ گیا۔ دوسری گاڑی والوں کو وضو کرتے اور نماز ادا کرتے ہوئے کم از کم 20 سے 25 منٹ تو لگ ہی گئے۔ 20 25 منٹ ہی میرے لیے آنکھیں بند کر کے لیٹنے کے لیے بہت تھے۔ بس اتنی سی نیند پوری کی اور پھر ہم دینہ ریلوے اسٹیشن کی جانب چل پڑے۔

میرے ہم سفر کا خیال تھا کہ ہمیں شہر کی جانب سے دینہ ریلوے اسٹیشن میں داخل ہونا چاہیے مگر میں جس طرف سے دینہ ریلوے اسٹیشن میں داخل ہونا چاہ رہا تھا وہ اسٹیشن کی پچھلی طرف تھی۔ اپنے پہلے کے ٹور میں، میں دینہ ریلوے اسٹیشن دیکھ چکا تھا مگر یہاں ہمیں ایک بار پھر دینہ ریلوے اسٹیشن کو وزٹ کرنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رتیال ریلوے اسٹیشن کہاں ہے، اس کی کسی کو بھی خبر نہ تھی اور نہ ہی گوگل میپ پر اس کی لوکیشن موجود تھی۔

میں ایک بار پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پوٹھوہار کے ریلوے اسٹیشنوں کا المیہ یہ ہے کہ ریلوے اسٹیشن کہیں اور ہے اور ان کے نام کا قصبہ کہیں اور۔ ڈومیلی قصبہ بہت دور ہے جب کہ ڈومیلی کا ریلوے اسٹیشن کہیں اور ہے۔ ڈومیلی تو چلیں پھر بھی سمجھ آتا ہے۔ اپ بکڑالہ ریلوے اسٹیشن کی مثال سامنے رکھیں۔ بکڑالا ریلوے اسٹیشن جرنیلی سڑک کے ایک طرف ہے اور بکڑالہ کا ریلوے اسٹیشن جرنیلی طرف کے دوسری طرف۔ مجھے شک تھا کہ رتیال کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش نظر ہوگا اور بالکل ایسا ہی تھا۔ رتیال چوںکہ دینہ اور ڈومیلی کے درمیان ہے، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم رتیال ریلوے اسٹیشن کے بارے معلومات دینہ ریلوے اسٹیشن سے لیں گے۔

ہم دینہ ریلوے اسٹیشن کی پچھلی طرف سے اسٹیشن میں داخل ہوئے تو کچھ ہی دیر میں ہمیں ایک ٹرین اپنی جانب آتی ہوئی نظر آئی یعنی کہ ٹرین پنڈی سے آ رہی تھی اور اسے لاہور کی طرف جانا تھا۔ ہم نے جلدی سے اپنا کیمرا باہر نکالا اور اس کی ویڈیو بنانے لگے۔ لال ڈبا یہ ظاہر کرتا تھا کہ یہ خیبر میل ہے۔ خیبر میل کا دینہ ریلوے اسٹیشن پر رکنا نہیں ہوتا اس لیے ہمیں آناً فاناً خیبر میل کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنا پڑا۔ یہ ہماری آج کی سیاحت کی واحد ٹرین تھی۔ امید تو یہی تھی کہ ہم رتیال میں بھی ایک ٹرین دیکھیں گے جس کی ہم نے پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور وہ پاکستان ایکسپریس تھی مگر ہم پاکستان ایکسپریس کو رتیال ریلوے اسٹیشن پر نہ پکڑ سکے۔ اس کی وجہ کیا تھی وہ ہم آگے جا کر دیکھیں گے۔

 خیبر میل دینہ ریلوے اسٹیشن سے پاس ہو رہی تھی تو گمان یہی تھا کہ یہاں کم از کم دو افراد تو ضرور ہوں گے کیوںکہ ہری جھنڈی کے بغیر دینہ ریلوے اسٹیشن سے کوئی بھی ٹرین پاس نہیں ہوسکتی۔ نہ صرف دینہ ریلوے اسٹیشن بلکہ کسی بھی ریلوے اسٹیشن سے بغیر سگنل کیے اور ہری جھنڈی کے کوئی بھی ٹرین نہیں گزر سکتی مگر ریلوے اسٹیشن کے تمام دروازے بند تھے۔ ہم نے دروازوں پر بہت دستک دی مگر اسٹیشن ماسٹر سمیت کسی نے بھی دروازہ نہ کھولا۔ کچھ لوگ دینہ ریلوے اسٹیشن پر صبح کی سیر کے لیے موجود تھے۔ میں نے ایک بزرگ سے رتیال ریلوے اسٹیشن کا راستہ پوچھا۔ انہوں نے جو نشانیاں بتائیں ہم ان نشانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوبارہ جرنیلی سڑک پر پہنچ گئے۔ جرنیلی سڑک پر ہی اپ کو رتیال نام کا ایک نیلا بورڈ نظر آجائے گا۔

وہیں سے آپ رتیال گاؤں کی طرف مڑ سکتے ہیں۔ سڑک تھوڑی سی پکی ضرور ہے مگر آگے جا کے نہ صرف یہ کچی ہے بلکہ راستہ نیم صحرائی سے کچھ زیادہ ہی صحرائی ہے۔ راستہ تو پھر بھی ٹھیک ہے مگر اردگرد موجود جھاڑیاں بلکہ کانٹے دار جھاڑیاں آپ کا ریلوے اسٹیشن تک پہنچنا ناممکن بنا دیتی ہیں۔ گاڑی سے اگر آپ نے رتیال ریلوے اسٹیشن جانا ہو تو آپ کو ایک اچھا خاصا فاصلہ بالکل پیدل طے کرنا پڑے گا۔ موٹر سائیکل پر جانے پر سہولت یہ ہے کہ آپ رتیال ریلوے اسٹیشن تک جا سکتے ہیں۔ رتیال ریلوے اسٹیشن جانے کے لیے سب سے بہتر موسم تو اکتوبر سے لے کر فروری تک ہی ہے۔

سخت گرمی کے موسم میں وہاں جانا نامناسب ہے۔ برسات کے موسم میں تو بالکل بھی نہیں۔ ایک تو یہ کہ نیم صحرائی رائی علاقے میں جب بارش سے کیچڑ بن جاتا ہے تو آپ کی بائیک بار بار سلپ ہوگی۔ دوم یہ کہ اس علاقے میں حشرات الارض بہت زیادہ ہے خاص کر کے سانپ۔ آپ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگا لیجیے کہ رتیال ریل اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر کے آفس کے باہر واضح طور پر ایک بورڈ لگا ہے کہ سانپ کاٹنے کی صورت میں فوری طور پر اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں رابطہ کریں۔

معلوم نہیں کہ آپ نے رتیال کا نام پہلے کبھی سنا ہے یا نہیں سنا۔ اگر نہیں سنا تو جان لیں کہ رتیال گلزار کے محبوب شہر دینہ اور میرے محبوب ڈومیلی کے بالکل درمیان میں ہے۔ رتیال ریلوے اسٹیشن جسے سانپوں والا ریلوے اسٹیشن بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے تو انگریزوں نے ریلوے لائن بچھانے کا آغاز کلکتہ سے کیا تھا مگر 13 مئی 1861 وہ تاریخی دن تھا جب ریل گاڑی کوٹری جنکشن سے کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے درمیان پہلی بار چلی۔

کراچی بندر گاہ انگریزوں کے لیے بہت اہم تھی کیوں کہ دلی سے سمندر تک جانے کے لیے سب سے نزدیک کراچی بندرگاہ ہی پڑتی تھی۔ 1876 میں پشاور سے خیر آباد اور راول پنڈی سے اٹک خورد تک ریل گاڑی چلا دی گئی تھی مگر یہ دونوں پٹریاں 1883 میں اس وقت جا کر ملیں جب اٹک کے مقام پر دریائے سندھ پر اٹک پُل تعمیر کیا گیا۔ اٹک شہر کے نام کی دو مشہور وجہ تسمیہ ہے۔ ایک تو یہ کہ یہاں اس مقام پر دریائے سندھ اٹک اٹک کر چلتا تھا، اس لیے اسے اٹک کہا گیا۔ دوسری یہ کہ دلی سے افواج جب چلتی تھیں تو اس مقام پر آکر اٹک جاتی تھیں، اس لیے اسے اٹک کہا گیا۔

مجھے دوسری وجہ تسمیہ زیادہ مناسب لگتی ہے۔ آپ جسے مرضی بہتر سمجھیں۔ کراچی سے پشاور تک 1687 کلو میٹر لمبی ریلوے لائن جب مکمل ہوئی تو اس میں 173 ریلوے اسٹیشن تھے جن میں سے بہت سے تیکنیکی وجوہات کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ اوسطاً چھ سے آٹھ کلو میٹر کے بعد ایک ریلوے اسٹیشن بنایا گیا تھا۔ ریل گاڑی جب ایک اسٹیشن کراس کرتی تو پیچھے والے ریلوے اسٹیشن پر اطلاع دے دی جاتی تھی۔ پھر ہی پیچھے والی گاڑی آگے روانہ ہوتی۔ تقسیم کے بعد سے ہماری طرف تین ریلوے کے محکمے تھے۔

ایک نارتھ ویسٹ پاکستان ریلوے، دوسرا ایسٹ ویسٹ پاکستان ریلوے اور تیسرا ویسٹ پاکستان ریلوے۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد صرف ایک ہی نظام بنادیا گیا جسے پاکستان ریلوے کا نام دیا گیا۔ پاکستان میں ریلوے اسٹیشن کی لمبائی یا اونچائی کو عام طور پر کیماڑی بندر گاہ سے ناپا جاتا ہے۔ اگر ہم رتیال ریلوے اسٹیشن کے لیے بھی کیماڑی بندر کا کو بطور ریفرنس استعمال کریں تو کیماڑی بندرگاہ سے اس کا فاصلہ 1409 کلومیٹر جب کہ راولپنڈی سے یہ 95 کلومیٹر دور ہے۔

 رتیال ریلوے اسٹیشن کا جغرافیہ عجیب و غریب ہے۔ اج جس مقام پر رتیال ریلوے اسٹیشن ہے پہلے یہاں ایک مکمل پہاڑی تھی۔ ریلوے انجن خواہ وہ لاہور کی طرف سے آ رہا ہوتا یا راولپنڈی کی جانب سے اسے اچھی خاصی چڑھائی چڑھنا پڑتی تھی چونکہ اس زمانے میں صرف بھاپ سے چلنے والے انجن ہی میسر تھے اس لیے انجن کے لیے یہ ایک مشکل مرحہ تھا۔ انگریزوں نے بعد میں یہ فیصلہ کیا کہ اس مکمل پہاڑی کو بھی کاٹ دیا جائے۔

اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ رتیال ریلوے اسٹیشن کی عمارت اونچی ہے جب کہ پلیٹ فارم وہیں نیچے ہے۔ 4 دسمبر 2021 کو رتیال ریلوے اسٹیشن کو مسافروں کے لئے بند کر دیا گیا تھا مگر یہاں کراسنگ جاری رہی مگر دو سال بعد 2 دسمبر 2023 کو کراسنگ کا یہ سلسلہ میں ختم کردیا گیا۔ سگنلز اکھاڑ دیے گئے اور لوپ لائن کو بھی ختم کردیا گیا۔ اب ریل گاڑی کے لئے یہاں سے گزرتے وقت سیٹی بجانا بالکل بھی ضروری نہیں۔ اگر آپ جرنیلی سڑک پر لاہور سے پنڈی کی جانب سفر کریں تو آپ کے ہاتھ ہی رتیال کا نیلا بورڈ آئے گا بس وہیں مڑ جائیں۔ سڑک سیدھا آپ کو رتیال قصبہ میں لے جائے گی۔

رتیال قصبہ سے چار پانچ کلو میٹر آگے رتیال کا ترک شدہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ رتیال ریلوے اسٹیشن کی عمارت تک پہنچنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کانٹے دار جھاڑیاں، تقریباً نیم صحرائی ماحول اور سحر زدہ ایک بڑا سا درخت۔ آپ موٹر سائیکل کے ذریعے بہ آسانی رتیال ریلوے اسٹیشن پر پہنچ سکتے ہیں۔ مگر بارش کے دنوں میں یہاں صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں حشرات الارض خاص کر سانپوں کی بہتات ہے۔

یہاں ایک خاص بورڈ بھی آویزاں تھا کہ ’’ سانپ کاٹنے کی صورت میں فوری طور پر اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں رابطہ کریں۔‘‘ ساون بھادوں کے دنوں میں یہاں جانا کسی بھی صورت خطرے سے خالی نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ درمیانے موسم میں یہاں جائیں۔ راستے میں ہی آپ کو پتھروں سے بنا کو ایک خوب صورت پُل بھی ملے گا جو اپنے آپ میں ایک خاص خوب صورتی رکھتا ہے۔ صرف رتیال ہی نہیں بلکہ یہاں سے آگے بہت سے ریلوے اسٹیشن ایسے ہی جنھیں ضرور دیکھا جانا چاہیے جیسا کہ ڈومیلی، بکڑالا، ترکی وغیرہ۔ اب کی بار موسم اچھا ہو تو ان شاء اللّہ ڈومیلی تا ترکی پٹری کے ساتھ ساتھ ایک ٹریک ضرور کروں گا۔

رتیال ریلوے اسٹیشن سے آنکھیں اچھی طرح ٹھنڈی کرلینے کے بعد ہم بہت دیر تک پاکستان ایکسپریس کا انتظار کرتے رہے۔ پاکستان ایکسپریس کو تقریبا سات بجے رتیال پہنچ جانا چاہیے تھا مگر بہت انتظار کے باوجود بھی پاکستان ایکسپریس رتیال ریلوے اسٹیشن پر نہ پہنچی۔ بعد میں یاد آیا کہ مجھے ایپ کے ذریعے پاکستان ایکسپریس کی لوکیشن معلوم کرنا چاہیے مگر پاکستان ایکسپریس کی لوکیشن ایپ پر بھی ظاہر نہیں ہورہی تھی۔

میں نے ریلوے ہیڈ آفس میں فون کرکے وہاں سے پاکستان ایکسپریس کے بارے میں معلومات لینا چاہیں مگر کسی نے بھی فوج نہیں اٹھایا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس دن پاکستان ایکسپریس چلی ہی نہیں تھی۔ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے اسے منسوخ کردیا گیا تھا۔ میرا رتیال ریلوے اسٹیشن پر پاکستان ایکسپریس کو بہت قریب سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا خواب، خواب ہی رہا۔ سچ بات ہے کہ آپ جس چیز کا بھی خواب دیکھی، ضروری نہیں کہ وہ خواب پورا بھی ہو۔ کچھ چیزیں ادھوری ہی رہ جاتی ہیں اور ان کی خوب صورتی شاید ادھورا رہنے میں ہی ہے۔

 رتیال ریلوے اسٹیشن پر نہ پاکستان ایکسپریس نے آنا تھا نہ وہ آئی، دن تیزی سے چڑھ رہا تھا، گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔ ہمیں مجبوراً واپس دوبارہ جرنیلی سڑک پر آنا پڑا۔ ناشتے کا وقت تھا تو ناشتہ کرنے میں ہی عافیت تھی۔ میں نے ایک سادے سے ٹرک ہوٹل کے سامنے بریک لگایا جہاں ایک چھوٹی سی انڈے چنے کی پلیٹ 350 روپے کی تھی بھوج کی شدت تھی سوچا اگر 350 روپے وصول کر رہے ہیں تو یہ کوئی اچھی شے ہی بنا کر دے رہے ہوں گے مگر ہوٹل کے معیار نے سخت مایوس کیا۔ تین چار نوالوں سے زیادہ کھایا نہ گیا۔ چائے بھی کچھ مناسب نہیں تھی۔ میں نے ناشتے کو وہیں چھوڑا۔ کچھ دیر کے لیے آنکھیں موند لیں اور پھر اپنا سفر دوبارہ جرنیلی سڑک پر شروع کردیا۔ جی پی ایس پر نندنہ قلعے کا راستہ دیکھا تو وہ جہلم سے ہی کہیں مڑ رہا تھا۔ اپ کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر میرا نقشہ کچھ الٹا پلٹا سا بنا ہوا تھا۔ ہمیں رتیال ریلوے اسٹیشن کی سیاحت کے بعد نندنہ جانا تھا اور ان دونوں کے درمیان کم از کم ساڑھے تین گھنٹے کا فاصلہ تھا۔

ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ہم صرف اور صرف خوشاب، پنڈ دادن خان اور ملک وال کو ہی ذہن میں رکھتے مگر مجھے رتیال ریلوے اسٹیشن دیکھنے کا جنون سوار تھا۔ میرے علم میں تھا کہ اگر میں نے رتیال ریلوے اسٹیشن سے بات شروع کی تو پیچھے سے ایک دو چیزوں کو چھوڑنا پڑے گا اور وہ چیزیں کچھ چھوٹ بھی گئیں مگر کم از کم رتیال ریلوے اسٹیشن دیکھ لیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک شے جو پچھلے دورے میں چھوٹ گئی تھی وہ مکمل ہو گئی۔ جہلم شہر سے نکلتے ہی سڑک انتہائی نامناسب ہے۔ نہ جانے یہ کب بننا شروع ہوئی تھی اور ابھی تک مسلسل بن ہی رہی ہے۔

تقریباً چھ سے سات ماہ پہلے بھی اس سڑک کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں اور تب بھی یہی سننے میں آیا تھا کہ سڑک زیرتعمیر ہے جو ابھی تک زیر تعمیر ہی ہے بلکہ اب آپ یوں سمجھ لیجیے کہ سڑک پر کوئی مرمت یا تعمیراتی کام نہیں ہو رہا۔ ٹھیکے دار کام ادھورا چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ سڑک وسیع و عریض بن رہی ہے مگر اب اس پر کام نہیں ہو رہا۔ نہ جانے اس سڑک پر کام دوبارہ سے کب سے شروع ہوگا۔ خدا کرے کام جلدی شروع ہو۔ یہ سڑک جلد ہی بن جائے۔ سڑک جب مکمل ہوگی تو پنڈ دادن خان اور خوشاب ان سب لوگوں کو سکون ملے گا۔ ان سب کا رابطہ جرنیلی سڑک سے بحال ہو جائے گا کیونکہ یہ سڑک حقیقت میں بہت چوڑی بن رہی ہے۔ پوٹھوہار کی درمیانے درجے کی بلند پہاڑیاں ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

ایک طرف عجیب و غریب قسم کی ریتلی اور مٹی کے پہاڑیاں تھیں جب کہ دوسری جانب ہمارے ساتھ ساتھ کچھ فاصلے پر دریائے جہلم بھی چل رہا تھا۔ دریائے جہلم جو سری نگر کی ایک چھوٹی سی جھیل سے پھوٹتا ہے اور پھر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بہتا ہوا منگلا سے پاکستانی کشمیر میں داخل ہوتا ہے اور پھر اس پورے خطے کو سیراب کرتا ہوا یہ دریائے چناب سے جا ملتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اس علاقے کی ہی زراعت کو بہتر کرنے کے لیے ایک پختہ نہر کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا۔ نہر کی تعمیر بہت حد تک مکمل بھی ہوچکی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سڑک کے ساتھ ساتھ اب نہر کا تعمیراتی کام بھی رک چکا ہے۔

نہ جانے اب نہر پر کام دوبارہ کب شروع ہوگا۔ شاید نہر، سڑک اور نہر پر بننے والے تمام پل ایک ہی وقت میں شروع ہوں۔ غالب گمان یہی ہے ان سب کا کنٹریکٹ ایک ہی کمپنی کے پاس ہو گا۔ سڑک پر مٹی بہت زیادہ ہے اور پھر تپتے ہوئے جون کے دن۔ مجھے موسم کی سختی کا رتی برابر بھی کچھ خاص اندازہ نہیں تھا ورنہ میں یا تو گھر سے ہی نہ نکلتا یا کچھ اختیاطی تدابیر کر کے گھر سے نکلتا۔ میرے ہم سفر کو موسم کی سختی کا اندازہ تھا۔ اس کے پاس ہاتھوں میں پہننے کو گلوز تھے جن کو وہ وقتاً ثوقتا ٹھنڈے پانی سے دھو لیتا تھا اور ساتھ ڈھانپنے کے لیے ایک کپڑا بھی تھا جسے وہ ٹھنڈے پانی سے کچھ دیر دھوتا اور پھر اپنے سر پر ڈال لیتا۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دینہ ریلوے اسٹیشن پاکستان ایکسپریس ریلوے اسٹیشن کی ریلوے اسٹیشن کے ریلوے اسٹیشن سے پاکستان ریلوے اسٹیشن ماسٹر بالکل بھی ساتھ ساتھ چاہیے مگر نے کے لیے ریل گاڑی کہیں اور ہے کہ ا پ کلو میٹر خیبر میل یہ ہے کہ کے لیے ا ا تھا کہ ہے مگر ا کہ یہاں تھا مگر اور پھر رہی تھی گیا تھا یہاں سے میں ایک تھا اور ا نکھیں رہا تھا تھی اور دیا گیا ہیں اور کہ مجھے کی جانب شروع ہو کچھ دیر مکمل ہو نہیں ہو رہی ہے جہاں ا ہے اور سے کچھ تھا تو کے بعد ہی تھی میں ہی ہی تھا اس لیے کی طرف میں یہ گھر سے

پڑھیں:

ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)

پرانے زمانے میں ایک ملک ہواکرتا تھا اس کا نام اپنی پیداوار کے باعث ’’الوستان‘‘ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے ’’الو‘‘ پیدا ہوتے تھے جو الو ہونے کے ساتھ الو کے فرزند بھی ہوتے تھے لیکن انھوں نے اس کا نام ’’یونان‘‘ رکھا تھا ،اس کی سب سے بڑی فصل یا پیداوار یا پراڈکٹ الو ہوا کرتے تھے جو خواہ مخواہ بات بے بات کے فلسفوں کی چیونٹیاں ، بٹیر اورمرغے لڑایا کرتے تھے ، ان الوؤں کے الوپن کااندازہ اس سے لگائیں کہ ان میں سے جو سب سے بڑا تھا سقراط نام کا۔ اس کے سامنے حکومت نے تین شرطیں رکھیں ،نمبر ایک، وطن چھوڑدو، نمبردو اپنے منہ کا زپ بندکرلو۔ نمبرتین۔ زہرکا پیالہ نوش جان کرو۔

اب اگر کوئی پاکستانی دانادانشور ہوتا، تو پہلی شرط مان کر کسی مرغن چرغن ملک میں جا بیٹھتا اورحکومت کے وظیفے پر گل چھرے اڑاتا ، ہمارے حضرت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کی طرح یاالطاف بھائی کی طرح اور یا باباجی ڈیموں والی سرکار کی طرح۔ یا منہ بند کرکے کسی لگژری بنگلے میں محو استراحت ہوجاتا ۔ لیکن الو تھا ، اس لیے زہرکا پیالہ ہی پی گیا۔مستے نمونہ ازخروارے یا ایک چاول سے دیگ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی الو بھی ایسے ہی سن آف اوول ہی ہوں گے ۔

اسی سقراط بقراط کی طرح ایک اورتھا۔’’دمیقراط‘‘ ڈیموکریٹس۔ اس نے خواہ مخواہ ساری عمر لگا کرایک تو ’’ایٹم‘‘ کانظریہ دیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے یعنی اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اوردوسرا ڈیموکریسی اورمعرب ہو کر اس کے نام کی رعایت سے جمہوریت بنا جس لفظ کی ابتداء ہی ڈیم سے ہوتی ہے اس کے ساتھ صرف فول لگایا جا سکتا ہے ۔اس کے دونوں تحفوں کاحشرنشر ہم دیکھ چکے اس نے جس ذرے کو ایٹم یعنی ناقابل تقسیم کہا تھااسے یاروں نے ایسا تقسیم کردیا کہ اس کے پیٹ سے دو بچے نکالے ایسے دو بچے کہ ایک نے ہیروشیما کو گل وگلزار کردیا اوردوسرے نے ناگاساکی کو باغ وبہار کردیا…اوراس کا دوسرا تحفہ ڈیماکریسی۔

زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا

اس تحفے کا بعد میں لوگوں نے خلاصہ یوں کیا کہ عوام پر…عوام کی حکومت ۔ عوام کے ذریعے ان تین باتوں کو ہرطرح سے آگے پیچھے کیجیے ۔مطلب وہی نکلے گا لیکن اس میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے ذریعے۔ میں اصل جزواعظم عوام نہیں بلکہ حکومت ہے اورجب یہ منحوس نام کہیں آجاتا ہے وہاں چارپائی کی سی حالت ہوجاتی ہے اوریہ فقرہ ہے بھی چارپائی کی طرح ، چارپائی میں آپ’’سر‘‘ اورپیر کسی بھی طرف کیجیے ، سینٹر چارپائی کے بیچ میں آئے گا ۔

اس فقرے میں بھی حکومت چاہے کسی طرف سے ہوکسی بھی شکل وصورت میں ہو۔حکومت حکومت ہوتی ہے اورمحکوم محکوم ہوتے ہیں اس نام ہی میں ساری اہلیت ہے ،کیوں کہ حکومت میں جو بھی لوگ آجاتے ہیں وہ ’’ہم‘‘سے ’’میں‘‘ ہوجاتے ہیں اورسارے فساد کی جڑ یہ ’’میں‘‘ ہے جس کاموجد اوربانی مبانی ’’ابلیس‘‘ تھا اورجب سے اس دنیا میں ’’ہم‘‘ کے مقابل ’’میں‘‘ آیاہے تب سے خرابیاں شروع ہوئی ہیں۔

خیر اب یہاں سے ایک اورسلسلہ شروع ہوتا ہے اس الو ئے یونان دمیقراط کے ایٹم کاجوحشر نشر لوگوں نے کیا وہ اپنی جگہ ۔۔اس دوسرے تحفے جمہوریت کاجو تیاپانچہ کردیاگیا ہے وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ، اس کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ خود دمیقراط اگر آجائے تو وہ بھی اسے پہچان نہیں پائے گا بلکہ شاید خود یہ جمہوریت بھی اگر آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائے توحیران ہوکر پوچھے گی، آپ کون؟

اورپھر ماشاء اللہ دورجدید کے یونان پاکستان میں تو اس کو اتنے گھنگھرو اورگہنے پہنائے گئے کہ چیونٹی سے ہاتھی بن گئی ۔

ایک انگریزی کاناول نگار ہے ایچ جی ویلزنام ہے شاید۔ اس نے بڑے عجیب وغریب ناول لکھے ہیں وہ مشہورناول (نادیدہ آدمی) بھی اس کاہے جس پر ہرزبان میں فلمیں بھی بنی ہیں اوربھی بہت ہیں ان میں ، ایک ناول ایسا بھی ہے جس میں ایک ضبطی سائنس دان اورسرجن ایک الگ جزیرے میں جانوروں پر تجربے کررہا ہے، سرجن کے ذریعے وہ ایک جانور کے اعضاء دوسرے میں پیوند کرتا ہے۔ آخر وہ ایک ایسا جانور بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس میں کئی جانوروں کے اعضاء پیوند کیے ہیں ، شیر ، گیدڑ، بھیڑ، بھیڑیا ، ہاتھی ، گھوڑے کتے سب کے اعضاء اس میں فٹ کیے گئے ہیں ، یوں ایک عجیب الخلقت چیز بنا کر وہ بڑا خوش ہوتا ہے لیکن یہ خوشی اسے راس نہیں کیوں کہ جانور اسے پیوند شکم کردیتا ہے ۔

دیکھیے تو پاکستانی جمہوریت بھی اسی جانورجیسی بن گئی ہے ، اس میں قبائلی وحشی سرداروں کے بھی گن ہیں ، مطلق العنانی بادشاہوں کی بھی صفات ہیں ، آمریت کی نشانیاں بھی ہیں، دینی ریاست کی بھی خوبیاں ہیں، لادینیت سے بھی بھرپو رہے ، بیلٹ بھی ہے بلٹ بھی ، ڈاکو لٹیروں کاچال چلن بھی ہے ، گینگسٹروں کے کردار بھی ہیں ، ٹریجیڈی اورساتھ ہی کامیڈی بھی ہے ، اوراب تو بانی کی مہربانی سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ پنساری کی دکان یا جنرل اسٹورہے ، سب کچھ یہاں مل جاتا ہے اگر ڈھونڈئیے تو ، سوائے جمہوریت کے یا عوام کی خوشنودی کے ۔

غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است

درسراپائے وجودت پنرے نسیت کہ نسیت

ترجمہ: سوائے اس کے کہ حافظ تم سے خوشنود نہیں باقی دنیا میں ایسی کوئی صفت نہیں جوتم میں نہ ہو۔

اس جمہوریت کو ویسے تو کئی نام دیے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بہترنام سیلکٹڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوگا کیوں کہ اس میں صرف وہی محدود اشرافیہ حصہ لے سکتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد پر سوارچلی آرہی ہے ۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • جادو ٹونا کرنے کے شبہے میں قتل عمر رسیدہ شخص کا ڈھانچہ برآمد، ملزمان گرفتار
  • ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ سفر کرنیوالے مسافروں کو لاکھوں روپے جرمانہ
  • امریکا : ہیلو وین پر دہشتگردی کا منصوبہ ناکام‘ 4داعشی گرفتار
  • امریکا ہیلو وین پر دہشتگردی کے بڑے واقعے سے بال بال بچ گیا؛ داعش کے 4 افراد گرفتار
  • امریکا ہیلو وین پربڑی دہشتگردی سے بال بال بچ گیا؛ داعش کے 4 افراد گرفتار
  • کراچی: خواجہ اجمیر نگری سے 3 انتہائی مطلوب بھتہ خور گرفتار
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • پاکستانی خلا باز جلد چینی اسپیس اسٹیشن پر جائیں گے
  • 11 ٹرینوں کی اوپن نیلامی، پاکستان ریلوے کا بڑا فیصلہ
  • کالے جادو سے انکار پر شوہر نے کھولتا سالن بیوی کے چہرے پر انڈیل دیا