’’لڑکیوں کی تعلیم اور سکولوں میں خواتین اساتذہ کا کردار‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس میں اساتذہ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

نادیہ رانا

(ہیڈ مسٹرس گورنمنٹ گرلز ایلیمنٹری سکول گجومتہ لاہور)

میں ہورائزن کی شکرگزار ہوں جن کی ٹریننگ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں ہمیں آرٹیفشل انٹیلی جنس اور ڈیجیٹل میڈیا کے نئے ٹولز کا استعمال سکھایا گیا جو ہمارے لیے سود مند ثابت ہوگا۔13 برس پہلے میری ’انڈکشن ٹریننگ‘ ہوئی تھی، اس کے بعد یہ پہلی ٹریننگ ہے جو سول سوسائٹی کی طرف سے کرائی گئی ، سرکاری سطح پر ہماری دوبارہ ٹریننگ نہیں ہوئی۔ ٹیچرز ٹریننگ انتہائی اہم ہے۔

لاہور میں ڈی ای او ڈاکٹر نازیہ کرامت نے پرائمری اور ایلیمنٹری سکولز کی تمام ٹیچرز کی ایک ماہ کی ٹریننگ کروائی جس میں انہیں فونکس، ریڈنگ سکلز وغیرہ سکھائی گئیں،اس سے اساتذہ اور طلبہ دونوں کو فائدہ ہوگا۔ دنیا جتنی تیزی سے بدل رہی ہے، اس میں ضروری ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کیلئے سالانہ بنیادوں پرریفرشر کورسزکروائے جائیں۔ تعلیمی نظام میں خواتین اساتذہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہمارے سکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعداد 60 فیصد ہے۔

لڑکوں کے سکولوں میں بھی فی میل اساتذہ پڑھا رہی ہیں ، بعض بوائز سکولز کی سربراہان بھی خواتین ہیں۔ ہماری فی میل ٹیچرز لڑکے، لڑکیوں، دونوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی ہیں لہٰذا انہیں پالیسی سازی اور نصاب ترتیب دینے میں شامل کرنا ہوگا۔ پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد 7 لاکھ جبکہ لڑکوں کی تعداد 6 لاکھ ہے۔سکولوں کا جائزہ لیں تو لڑکوں کے ہائی سکول 350 اور لڑکیوں کے 303 ہیں۔ ہائر لیول پر سکولوں کی تعداد اس سے بھی کم ہے۔ لڑکیوں کو حصول تعلیم کیلئے دور جانا پڑتا ہے، انہیں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے، اس وجہ سے لڑکیاں ڈراپ ہو جاتی ہیں۔

میڑک کے بعد کالج کی سطح پر بھی بے شمار لڑکیاں ڈراپ ہوتی ہیں۔ ہماری لڑکیوں میں پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ بورڈ کی پہلی دس پوزیشنز میں 80 فیصد پوزیشنز لڑکیوں کی ہیں۔ ہمیں اپنی بچیوں کو اعتماد دینا ہے اور ان کے دل سے خوف نکالنا ہے، یہ کسی سے کم نہیں ہیں، انہیںا ٓگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ اساتذہ کو ہر آئی کیو لیول کے بچے کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، انہیں بچوں کی ضروریات اور مسائل کا علم ہے لہٰذا ان سے لازمی مشاورت کی جائے۔

ہمارا معاشی استحکام نئی نسل سے جڑا ہے، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت والدین کو بچیوں کو سکول میں داخل کرانے پر وظیفہ ملتا ہے۔ یہ پرائمری تک تو مل رہا ہے لیکن چھٹی سے دسویں جماعت کیلئے یہ وظیفہ سرکاری سکولوں کے بجائے نجی سکولوں کو منتقل ہو گیا ہے،اسے سرکاری سکولوں میں داخلے سے مشروط کر کے دائرہ کار پورے پنجاب میں پھیلانا چاہیے۔

اقبال حیدر بٹ

(سی ای او یوتھ ٹیوب )

 تعلیمی نظام میں اساتذہ خصوصاََ خواتین ٹیچرزکا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہمارے شعبہ تعلیم میں خواتین اساتذہ اور طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔ میٹرک کے بورڈ امتحانات میں لڑکیاں ٹاپ تو کر رہی ہیں لیکن ان کو مسائل بھی درپیش ہیں۔ سکولوں میں پرائمری اور مڈل کی سطح پر لڑکیاں ڈراپ ہوتی ہیں، والدین سکول سے ہٹا لیتے ہیں جس کی مختلف وجوہات ہیں۔

کہیں سکول قریب نہیں تو کہیں کوئی اور معاملات ہیں۔ اب وقت بدل رہا ہے جس میں سب کی تعلیم لازمی ہے۔ ہماری توجہ سرکاری سکولوں کی خواتین اساتذہ کی بہتری اور لڑکیوں کی تعلیم پر ہے۔ ہم نے ہیڈ ٹیچرز کا انتخاب کیا ہے تاکہ انہیںجدید تربیت فراہم کی جاسکے ، ان کے اور محکمہ کے درمیان خلاء کو دور کیا جاسکے۔

یہ ہیڈ ٹیچرز اپنے اپنے سکول میں ٹیچرز کو تربیت دیں گی جس سے نہ صرف سکول کی حالت بہتر ہوگی بلکہ لڑکیوں کو بہتر تعلیم بھی فراہم کی جاسکے گی۔ اس مقصد کیلئے ہم نے خواتین ہیڈ ٹیچرز کا نیٹ ورک قائم کیا ہے ہمیں یقین ہے اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

اصولی طور پر نظام تعلیم کو استاد کے گرد گھومنا چاہیے کیونکہ اس کا کردار بنیادی اور لازمی ہے لیکن یہاں پالیسی سازی میں اساتذہ کو شامل نہیں کیا جاتا۔ ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ اساتذہ کی شمولیت کے بغیر نظام تعلیم میں اصلاحات ممکن نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سکولوں میں تو خواتین اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے لیکن اعلیٰ سطح پر خواتین ٹیچرزکی نمائندگی کم ہے، انہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا۔ تعلیمی نصاب بناتے وقت اساتذہ سے مشاورت نہیں کی جاتی، انہیں شامل کرنے سے نصاب میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کا جائزہ لیں تو اس میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیا دہ ہے مگر نصاب میں ان کیلئے جگہ نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں خاتون کو گھریلو کام کرتے دکھایا جاتا ہے جبکہ پائلٹ، انجینئر و غیرہ پر تصویر مرد کی ہوتی ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو تمام تر مسائل اور امتیازی رویوں کے باجود آج خواتین ہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں لہٰذا ہمیں انہیں تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں، اپنے خواب پورے کر سکیں۔

اس کے لیے سب سے اہم اساتذہ ہیں ، خاص طور پر فی میل ٹیچرز ہیں جو تعلیم اور تربیت دونوں کو بہتر انداز میںا ٓگے بڑھا سکتی ہیں، لڑکیوں کو حوصلہ دے سکتی ہیں ۔دیہات کی لڑکیوں میں بھی بہت پوٹینشل موجود ہے، انہیں سپورٹ کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک اساتذہ طلبہ کے محافظ ہیں، ان کے ہاتھ میں ہمارے بچوں کا مستقبل ہے لہٰذا ہمیں انہیں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پالیسی بنانا حکومت کا استحقاق ہے لیکن اس میں سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے۔

ہمارے ہاں آج بھی جنگ عظیم دوئم کی پالیسیاں چل رہی ہیں، ہم اس معاملے میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں لہٰذا بڑے پیمانے پر اصلاحات لانا ہوں گی۔ تعلیم کے حوالے سے حکومت کے اقدامات میں عوام اور اساتذہ کا کردار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے کچھ اقدامات بھی کیے ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں تعلیم کی صورتحال دیگر صوبوں سے بہتر ہے۔ یہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکول مینجمنٹ کونسلز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس میںاساتذہ اور عوام بھی شامل ہیں۔  میرے نزدیک یہ عمل عوام اور سرکار کے درمیان عدم اعتماد کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

حسین سجاد ہاشمی

(نمائندہ سول سوسائٹی)

ہم نے جدید تربیت کیلئے خواتین ٹیچرز کا انتخاب کیا ہے جس سے یقینا کمیونٹی اونر شپ میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے رواں برس سکول مینجمنٹ کونسل کی پالیسی بنائی گئی ہے جس کے تحت پنجاب کے ہر سرکاری سکول میں 10 رکنی کونسل تشکیل دی جائے گی جو سکول کی بہتری کیلئے 25 لاکھ روپے تک خرچ کر سکے گی۔

اس کونسل میں اساتذہ، والدین، نوجوان، مخیر حضرات سمیت علاقے کے مقامی افراد شامل ہوں گے۔اس سے نہ صرف سرکاری سکولوں اور عوام میں خلاء کم ہوگا بلکہ ان سکولوں پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ یہ کمیٹی اپنے فنڈز خود بھی اکٹھا کر سکتی ہے جس کے لیے مختلف سرگرمیاں، ایونٹس وغیرہ کروائے جاسکتے ہیں، این جی اوز سے بھی فنڈنگ لی جاسکتی ہے۔ یہ تمام فنڈز متعلقہ سکول کی بہتری اور طلبہ کو سہولیات کی فراہمی کیلئے استعمال ہوں گے۔ سکولوں میں طلباء و طالبات کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو شہری سکولوں میں لڑکوں کی تعداد 25 فیصد جبکہ لڑکیوں کی تعداد 75 فیصد ہے۔ دیہات کے سکولوں میں لڑکوں کی تعداد 40 فیصد اور لڑکیوں کی تعداد 60 فیصد ہے۔

ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ شہروں کے مقابلے میں دیہات میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک لڑکیوں کی انرولمنٹ میں اضافے کیلئے دیہات کے سکولوں میں سکول مینجمنٹ کونسلز کو فعال کرنا ہوگا۔ لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی بات کریں تو پہلے پانچویں جماعت کے بعد اور پھر آٹھویں جماعت کے بعد لڑکیاں سکول چھوڑ جاتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سکول کا گھر کے نزدیک نہ ہونا ہے، اس پر توجہ دینا ہوگی۔

اساتذہ تعلیمی نظام کے اصل سٹیک ہولڈر ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ان کی صورتحال کیا ہے، وہ کتنے بااختیار ہیں، ان کی حالت کیسی ہے، کیا انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے؟ جب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ سامنے آتا ہے کہ اساتذہ کی کوئی ٹریننگ نہیں کرائی جاتی اور نہ ہی پالیسی سازی اور نصاب بناتے وقت ان سے کوئی مشاورت کی جاتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب قدیم ہے جس میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ اس میں STEM ایجوکیشن کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو زمینی حقائق کا علم ہے۔

انہیں معلوم ہے کہ طلبہ کیا چاہتے ہیں، کیا سوال پوچھتے ہیں، ان کی ضروریات کیا ہیں، کہاں پر خلاء موجود ہے، کس چیز کی کمی ہے لہٰذا ان کی مشاورت سے نہ صرف تعلیمی نصاب بلکہ پورے نظام تعلیم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک جدید دور میں اساتذہ کو سوشل میڈیا کی سکلز سکھانا لازمی ہے، انہیں مہم چلانا سکھانا ہوگی۔ یہ اساتذہ خود اپنے سکولوں کی سوشل میڈیا مہم چلائیں گے جس سے سکولوں کی ساکھ بہتر اور بچوں کی انرولمنٹ میں اضافہ ہوگا۔ میرے نزدیک موجودہ حکومت کی سمت درست ہے، امید ہے کہ تعلیمی نظام بہتر ہوگا۔

مزمل مجید

(نمائندہ سول سوسائٹی )

ہم یوتھ ٹیوب کے پراجیکٹ ہورائزن کے تحت لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ اس میں پہلا کام لڑکیوں کیلئے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا اور انہیں سازگار ماحول فراہم کرنے پر زور دینا ہے۔

ہمارا دوسرا کام اساتذہ کی تربیت ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہیڈ ٹیچرز کا ایک نیٹ ورک تشکیل دیا ہے جنہیں پیکٹا کے اشتراک سے ٹریننگ کروائی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں پیکٹا کے تعاون سے ہیڈ ٹیچرز کی دو دن کی لیڈر شپ ٹریننگ کروائی گئی ہے جس میں انہیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور سوشل میڈیا کا استعمال سکھایا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح سوشل میڈیا مہم چلا سکتے ہیں۔ آج بھی بیشتر اساتذہ کو آے آئی ٹولز تک رسائی نہیں ہے یا انہیں استعمال نہیں کرنے آتے۔ انہیں نہ صرف ان ٹولز کے بارے میں بتایا گیا بلکہ عملی طور پر ٹریننگ بھی کروائی گئی، خصوصی ٹاسک دیے گئے۔

یہ ہیڈ ٹیچرز اپنے اپنے سکولوں میں اساتذہ کو تربیت دیں گی اور ان کی رہنمائی کریں گی۔ اس طرح اساتذہ کو اپ گریڈ کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی نظام میں خواتین اساتذہ کا کلیدی کردار ہے۔ ہم نے ان کیلئے ایک روڈ میپ بنایا ہے جس کے تحت ان کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔

ہمارے اس فی میل ہیڈ ٹیچرز نیٹ ورک کے ضلعی چیپٹرز ہوں گے۔ چیپٹر ہیڈز اپنے اپنے متعلقہ اضلاع میں اساتذہ کی تربیت کریں گی۔ہم نے اساتذہ کی صرف تربیتی ورکشاپس نہیں کراتے بلکہ ان کے ساتھ مکمل فالو اپ بھی رکھتے ہیں اور انہیں جہاں ضرورت ہوں رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سکول مینجمنٹ کونسل کی پالیسی خوش آئند ہے۔ ٹیچرز کو پالیسی سازی میں بھی شامل کرنا چاہیے۔   

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سکول مینجمنٹ کونسل میں خواتین اساتذہ لڑکیوں کی تعلیم لڑکیوں کی تعداد سرکاری سکولوں پالیسی سازی تعلیمی نصاب سرکاری سکول تعلیمی نظام سول سوسائٹی کی ضرورت ہے اساتذہ اور میرے نزدیک سکولوں میں سوشل میڈیا میں اساتذہ سکولوں کی اساتذہ کی میں انہیں اساتذہ کو کرنا ہوگا اساتذہ کا ہے جس میں کا جائزہ کی بہتری ٹیچرز کا کا کردار تعلیم کے ہے لیکن نے اپنے کو بہتر کی بہتر رہی ہیں اور ان کے بعد گیا ہے ہوں گے کے تحت فی میل کیا ہے کام کر

پڑھیں:

تنوشری دتا کو بگ باس کیلئے کتنے کروڑ معاوضے کی آفر ہوئی؟

بھارتی اداکارہ تنوشری دتا نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں پچھلے 11 سال سے مسلسل بگ باس میں آنے کی آفرز مل رہی ہیں مگر وہ ہر بار منع کر دیتی ہیں۔ 

بالی ووڈ کے رومانوی ہیرو عمران ہاشمی کیساتھ فلم ’عاشق بنایا آپ نے‘ سے مشہور ہونے والی اداکارہ و ماڈل تنوشری دتا نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ انہیں کئی مرتبہ بگ باس کیلئے آفر مل چکی ہے جبکہ یہ آفر بےحد بڑے معاوضے پر ملنے پر بھی انہوں نے منع کردیا۔ 

اداکارہ نے انکشاف کیا کہ انہیں بگ باس میں بطور اُمیدوار شامل ہونے کیلئے ایک کروڑ 65 لاکھ بھارتی روپے معاوضے کی آفر ہوئی تھی تاہم انہوں نے اسے اپنی شخصیت کیلئے درست نہ سمجھا اور انکار کیا۔ 

تنوشری کا کہنا تھا کہ وہ اپنی عزت نفس اور پرائیویسی کو دولت سے زیادہ اہم سمجھتی ہیں اس لئے بگ باس اگر چاند کا ٹکڑا بھی لاکر دے دیتے تو اس کا حصہ نہ بنتی۔ 

اداکارہ نے مزید کہا کہ وہ مرد عورت ایک ساتھ رہتے ہیں ایک ہی حال میں سوتے اور دن بھر جھگڑتے ہیں اور میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتی۔ 

 

 

متعلقہ مضامین

  • چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگی، علامہ مقصود ڈومکی
  • مالی نظام کی بہتری کیلئے بلوچستان میں الیکٹرانک سسٹم متعارف
  • سیلاب زدہ علاقوں میں بچیوں کی تعلیم بحال کروانے کیلئے ملالہ مدد کو آگئی
  • نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اقتصادی ترقی کو مستحکم کرنے کے لئے وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • لاہور کے 6 سکولوں کو سکول آف ایمی نینس کا درجہ دینے کا فیصلہ
  • زمین کو بچوں کیلئے محفوظ بنانا ہماری اولین ترجیح ہے: مریم نواز
  • زمین کو بچوں کیلئے محفوظ بنانا اولین ترجیح ہے : مریم نواز شریف
  • تنوشری دتا کو بگ باس کیلئے کتنے کروڑ معاوضے کی آفر ہوئی؟
  • سعودی عرب؛ اسکول جاتے ہوئے گاڑی کو خوفناک حادثہ؛ 4 خواتین اساتذہ ڈرائیور سمیت جاں بحق
  • سعودی عرب میں سکول جاتے ہوئے افسوسناک حادثہ، 4 خواتین اساتذہ اور ڈرائیور جاں بحق