بارشوں کے بعد کراچی کی مصروف ترین شاہراہ کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگی
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
کراچی کی اہم اور مصروف ترین شاہراہوں میں شمار ہونے والی جہانگیر روڈ حالیہ بارشوں کے بعد کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگی ہے۔
گرومندر سے شروع ہو کر تین ہٹی پل تک جانے والی یہ شاہراہ دو اضلاع شرقی کو وسطی سے ملاتی ہے۔ شاہراہ کے اطراف وفاقی سرکاری کالونیاں بھی واقع ہیں، جبکہ دن رات سیکڑوں گاڑیاں اس سڑک سے گزرتی ہیں، جن میں پبلک ٹرانسپورٹ اور ذاتی گاڑیاں شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہری اسے کراچی کی لائف لائن قرار دیتے ہیں۔
شہریوں کے مطابق حالیہ بارشوں نے اس شاہراہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں ٹریکس پر جگہ جگہ گڑھے پڑنے اور سڑک کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے باعث ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چند ماہ قبل ہی اس سڑک کی مرمت کی گئی تھی مگر بارشوں نے تمام کام کو بے اثر کر دیا۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ گڑھوں اور کھڈوں کے باعث گاڑیوں کے انجن اور دیگر پرزہ جات متاثر ہو رہے ہیں، جبکہ شام کے اوقات میں یہاں ٹریفک کا دباؤ بڑھنے سے راستہ عبور کرنے میں 10 سے 15 منٹ لگ جاتے ہیں۔ بار بار گاڑیوں کی مرمت اور مینٹیننس شہریوں کے لیے مالی دباؤ کا باعث بن رہی ہے۔
علاقہ مکینوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر انتظامیہ کے پاس وسائل نہیں تو وہ چندہ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں بڑی سہولتوں کی خواہش نہیں، بس چاہتے ہیں کہ شہر کا بنیادی انفرا اسٹرکچر بہتر بنایا جائے۔
شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جہانگیر روڈ پر نکاسیِ آب کے ساتھ ساتھ صفائی اور مرمتی کام فوری طور پر کروایا جائے تاکہ آمدورفت میں درپیش مشکلات ختم ہو سکیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پڑھیں:
شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔