Express News:
2025-11-03@12:39:29 GMT

کٹھن راستہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

میں تو یہی حقیقت اپنے کانوں سے سنتا آیا ہوں کہ دنیا کی مخلوقات میں سے انسان کا بچہ پالنا سب سے مشکل کام ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ ماں کو ایسی ہمت، صبر اور گُر سکھا دیتا ہے کہ وہ اپنا سکھ چین اپنے بچے پر قربان کرکے اسے بڑا ہونے، بولنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے گُر سکھا کر دم لیتی ہے۔

انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اس کی زندگی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے، لہٰذا اسے شروع سے ہی ایسی تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی زندگی کے مقصد کے حصول کی طرف گامزن ہوتا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کی انسان کی زندگی ایک مقصد کے تحت گزرتی ہے جسے حاصل کرنے کےلیے وہ اپنی ساری زندگی میں کوشاں رہتا ہے اور پھر کوئی اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اور کوئی نہیں ہو پاتا۔ پھر ہر کسی کو اس کی کوشش کے مطابق تھوڑا یا زیادہ صلہ مل جاتا ہے۔

انسان سے ہٹ کر اللہ کی دوسری مخلوقات کی طرف میں جانور اور پرندے وغیرہ شامل ہیں۔ ہم بظاہر ان کو دیکھتے ہیں کہ ان کی زبان سمجھنے والی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے، نہ ہی ان کو تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ ہی لمبی چوڑی تربیت کی۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ان مخلوقات کے بچے سدا اپنے والدین یا بہن بھائیو ں کے ساتھ نہیں رہتے بلکہ جیسے ہی وہ چلنے پھرنے اور اپنی روزی کےلیے شکار کرنا سیکھ جاتے ہیں تو وہ آزاد ہوجاتے ہیں۔

انسان کا بچہ گود سے گور تک اکیلا نہیں ہوتا جب کہ دوسری مخلوقات کے پاس یہ سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں اور اسے اپنی ساری ضروریات اور صحت کےلیے خود ہی ساری تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور یہ سارا کام تو سوچ اور عقل کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا اس کائنات کا رب جو تمام مخلوقات کا خالق و مالک بھی ہے اور روزی رساں بھی، وہی ذات انہیں اس سارے کام کی سمجھ بوجھ بھی عطا کرتی ہے۔

یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ کی ساری مخلوق کے ہاں زندگی گزارنے کا کوئی نہ کوئی نظام ضرور موجود ہے۔ یہ نہ تو احساس سے عاری ہیں، نہ ہی سیکھنے کے فن سے نابلد ہیں اور نہ ہی ہماری بات سمجھنے اور اپنی سمجھانے سے۔ میری اس بات کی تصدق وہ سارے لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں کوئی مویشی، پالتو جانور جیسے بلی، کتا اور پرندے جیسے طوطا اور کبوتر وغیرہ پال رکھے ہیں۔ 

شہد کی مکھیوں کا اپنا ایک نظام ہے اور چیونٹیاں اور دیگر مخلوقات بھی زندگی گزارنے کے کسی نا کسی نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ صرف ہم ناشکرے انسانوں کے علاوہ باقی ہر مخلوق کا اللہ پر بھروسہ اور توکل اس قدر مضبوط ہے کہ اسے اپنی روٹی کی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود وہ اسی ذات کے بھروسے پر صبح اپنے گھونسلوں اور ٹھکانوں سے نکلتی ہے اور اپنے ساتھ اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کا انتظام کرکے واپس لوٹتی ہے۔ انہیں کبھی کچھ ذخیرہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ انہیں اپنے خالق، مالک اور رازق پر اتنا توکل اور بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جس نے دن کا دیا ہے وہ شام کو بھی دے گا۔ یہ صرف ہم انسان ہیں جن کا نہ پیٹ بھرتا ہے اور نہ آنکھ کی بھوک ختم ہوتی ہے۔

اب جب کہ انسان کا بچہ پالنا سب سے مشکل ہے اور پھر وہ اشرف المخلوقات بھی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی تعلیم اور تربیت کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ کیونکہ وہ کوئی شتر بے مہار نہیں کہ جس سمت چل پڑے ٹھیک ہے، بلکہ والدین پر یہ بہت اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی خود بھی سدھار لے اور پہلے دن سے بچے کی ایسی تربیت کرے کہ وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جائے اس کی ذہنی تربیت میں ہر آئے دن نکھار آتا جائے۔

آج کے پرفتن، تیز اور غلط درست معلومات کے نرغے میں آئے ہوئے معاشرے میں بچے کو صحیح راستہ دکھانا اور پھر اس پر چلانا جان جوکھم کا کام ہے کیونکہ آج سے تقریباً تیس چالیس سال پہلے اور آج کے زمانے میں زمین و آسمان جیسا فرق ہے۔ اس دور میں پیدا ہونے والے بچے کتنے دن تو آنکھ ہی مشکل سے کھولتے تھے اور پھر اپنے اردگرد ماں باپ یا اپنے بہن بھائی کو دیکھتے تھے اور نجانے کتنے دنوں بعد انہیں پہچاننے میں کامیاب ہوتے تھے۔ 
ان کے کانوں میں مساجد کے لاؤڈاسپیکرز سے اذان کی آواز آتی تھی۔ نہ تو اس وقت موبائل جیسی وبائی بیماری نے سر اٹھایا تھا اور ٹی وی سرکار نے بھی ابھی ہر گھر میں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا اور ٹیلی فون تو اس وقت ایک کلاس سمبل تھا۔ اس وقت بچے، لڑکے اور جوان اپنے سے بڑوں کا لحاظ کرتے تھے۔ اسکول کے استاد کو معاشرے میں ادب اور عزت کا وہ رتبہ حاصل تھا جو آج کل کے اساتذہ کے خواب سے بھی کوسوں دور ہے۔ ڈاکٹر، حکیم اور کمپوڈر کو بھی مافوق الفطرت مخلوق سمجھا جاتا تھا، ہمسائے ایک دوسرے کی خبر گیری رکھتے تھے، دکھ سکھ میں ساتھ دیتے تھے۔ لوگ جلدی اٹھتے اور رات کو جلدی سوتے تھے۔ ان کے پاس ایک دوسرے کے ہاں جانے، وہاں رہنے اور لمبی گپ شپ کا وقت ہوتا تھا اور وہ ایک دوسرے کی خوشی میں خوش اور دکھ میں دکھی ہوتے تھے۔

آج کے بچے جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو ایک رنگ برنگ گلوبل ولیج ان کا استقبال کرتا ہے۔ وہ اس ہنگامہ خیز اور بظاہر ترقی یافتہ دنیا میں قدم رکھتے ہی سب کو ایسا دیکھتے ہیں جیسے ہم سب کو برسوں سے جانتے ہوں۔ اس کی ماڈرن ماں نے دودھ کا فیڈر پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے جو اس کے منہ سے لگا کر خود انٹرنیٹ کی دنیا سے بچہ پالنے کی ترکیبیں دیکھنا شروع کردیتی ہے یا پھر اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے حوالے سے خبروں اور تبصروں سے باخبر ہونے کے لیے اپنے بچے سے بے خبر ہوجاتی ہے۔

ہمارے ملک میں انٹرنیٹ جیسی وبائی بیماری اور موبائل جیسی بلا کو وارد ہوئے تقریباً 25 سال کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس کا مطلب ان بیماریوں سے متاثر ہونے والے انسانوں کی عمریں اب ایک دن سے لے کر 25 سال تک کی ہیں۔ پہلے دور میں یہ ناممکن تھا کہ چھوٹا بچہ اپنی ماں کے بغیر ایک پل بھی رہ جائے اور ماں کے لیے صرف وہی وقت تھوڑا آرام کا ہوتا جب وہ اپنے بچے کو لوری سنا کر سلا دیتی تھی۔ جب کہ اب نہ ماں کو بچے کی پرواہ ہے اور نہ ہی بچے کو ماں سے وہ انسیت رہی کہ وہ اس کی کمی محسوس کرے۔ کیوں کو ماں کو جب بھی کہیں جانا ہو یا اسے بچے کی ڈسٹربنس نہ چاہیے ہو تو وہ موبائل کی بیٹری فل کرکے بچے کی پسند کا کارٹون لگا کر اس کے حوالے کردیتی ہے۔ پھر جب تک بیٹری ختم نہ ہو بچے کی ماں جو مرضی کام کرے، جہاں سے مرضی ہو آئے اسے بچے کی طرف سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔ پھر جب بچہ ماں کے دودھ اور اس کی لوریوں اور تھپکیوں کے بغیر بڑا ہوگا تو وہ انسیت، ادب اور احترام کہاں سے سیکھے گا؟

جیسے جیسے وہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے انٹرنیٹ کی دنیا سے اس کی ڈیمانڈز بڑھتی جاتی ہیں اور اس کو وہاں دیکھنے کے لیے وہ سب کچھ بھی دستیاب ہوتا ہے جو اس کےلیے اس عمر میں زہر قاتل ہے۔ لیکن نہ اس کی ماں کو احساس ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کو۔ کیونکہ آج کے والدین کی اکثریت اپنی اولاد کے ہاتھوں ان کی خواہشات کی تکمیل کےلیے بلیک میلنگ کی حد تک مجبور ہے۔ کیونکہ بچپن سے لے کر آج تک انہوں نے جو ان کو کھل کھیلنے کے مواقع دیے اب وہ حد سے زیادہ لاڈ پیار ان کی ضد اور خود سری میں بدل چکا ہے جس کے مقابلے میں نہ انہیں اپنے والدین کی پرواہ ہے، نہ بڑوں کی اور نہ ہی اساتذہ کرام کی۔

میں خود کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں کہ اب والدین اپنی اولاد سے اور اساتذہ اپنے طلبا سے اپنی عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ اس میں ’’مار نہیں پیار‘‘ کے فلسفے نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج کل امتحانات میں بچوں کے مارکس 99 فیصد تک بھی آرہے ہیں لیکن ان میں نہ لیاقت ہے، نہ دوسروں کی بات سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی دلیل سے بات کرنے کی عادت ہے۔ وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا کے باسی ہیں اور ہر ہر معاملے میں، چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا اخلاقی بس اپنی دھونس دھاندلی کو درست سمجھنے اور دوسروں کی رائے کو غداری اور نااہلی سے تعبیر کرنے کی روش پر قائم و دائم ہیں۔

مندرجہ بالا خامیوں کے علاوہ پچھلے تقریباً تیس سال کے عرصہ میں بالخصوص ہمارے حکومتی اداروں میں کرپشن کا زہر اس طرح پھیل چکا ہے کہ وہاں کوئی بھی کام پیسوں یا سفارش کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ جب ملازمین متذکرہ بالا خصوصیات کی چھتری تلے پل کر جوان ہوں گے، شروع سے ہی ماں باپ کی طرف سے سچی تربیت نہ ہوئی ہو، جس سیٹ پر کوئی کام کررہا ہو وہ وہاں تک پیسے یا سفارش کی بنیاد پر پہنچا ہو، تعلیم ساری نقل مافیا کے تحت ہوئی ہو ، معلومات تک رسائی اس کو نہ ہو اور لوگوں کے حالات و واقعات معلوم ہونے کے باوجود اس کو ان پر ذرا ترس نہ آتا ہو تو اس معاشرے کی بے حسی کا اور کتنا ماتم کیا جاسکتا ہے؟

اب آپ خود بتایئے کہ برائیوں، کرپشن، جھوٹ پر مبنی کہانیوں اور سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر پھیلی ہماری اخلاقی اقدار کی پامالی میں گھرے معاشرے میں جو بچہ پیدا ہوگا اس کی ایسی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا کہ وہ ملک و معاشرے کا ایک پرامن اور قابل فخر شہری بنے، کیا پل صراط سے گزرنے سے کم ہے؟ 

آج ہم جو کاٹ رہے ہیں وہ وہی ہے جو پچھلے پچیس تیس سے ہم بو رہے ہیں اور اگر اب بھی وہی بوئیں گے تو یقیناً مستقبل میں وہی کاٹتے رہیں گے۔ کیوں کہ جس طرح ہم امرود کے بیج بوکر سیب کا درخت نہیں اگا سکتے، ویسے ہی اپنے بچوں کی پہلے دن سے صحیح اور درست تربیت کیے بغیر معاشرے کو کرپشن اور اخلاقی و سماجی برائیوں سے پاک ایک پرامن معاشرہ کبھی بھی نہیں بنا سکتے اور یہ اتنا آسان نہیں بلکہ ایک پل صراط ہے جسے پار کرنا ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ پل صراط پار کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے اور نہ ہی ہے کہ وہ اور پھر کے ساتھ کے بغیر ہیں اور کرنے کی ہوتا ہے نہیں ہو بچے کی ماں کو اور اس کی طرف

پڑھیں:

آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی

پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔

حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔

انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔

عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • میری دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • گووندا کا مراٹھی اداکارہ سے مبینہ معاشقہ، اہلیہ سنیتا آہوجا کا ردعمل سامنے آگیا
  • عمران خان کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس کی منظوری سے مریم نواز نے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا ہے: عظمیٰ بخاری
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس سے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا: عظمیٰ بخاری