Express News:
2025-09-17@23:12:58 GMT

کٹھن راستہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

میں تو یہی حقیقت اپنے کانوں سے سنتا آیا ہوں کہ دنیا کی مخلوقات میں سے انسان کا بچہ پالنا سب سے مشکل کام ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ ماں کو ایسی ہمت، صبر اور گُر سکھا دیتا ہے کہ وہ اپنا سکھ چین اپنے بچے پر قربان کرکے اسے بڑا ہونے، بولنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے گُر سکھا کر دم لیتی ہے۔

انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اس کی زندگی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے، لہٰذا اسے شروع سے ہی ایسی تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی زندگی کے مقصد کے حصول کی طرف گامزن ہوتا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کی انسان کی زندگی ایک مقصد کے تحت گزرتی ہے جسے حاصل کرنے کےلیے وہ اپنی ساری زندگی میں کوشاں رہتا ہے اور پھر کوئی اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اور کوئی نہیں ہو پاتا۔ پھر ہر کسی کو اس کی کوشش کے مطابق تھوڑا یا زیادہ صلہ مل جاتا ہے۔

انسان سے ہٹ کر اللہ کی دوسری مخلوقات کی طرف میں جانور اور پرندے وغیرہ شامل ہیں۔ ہم بظاہر ان کو دیکھتے ہیں کہ ان کی زبان سمجھنے والی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے، نہ ہی ان کو تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ ہی لمبی چوڑی تربیت کی۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ان مخلوقات کے بچے سدا اپنے والدین یا بہن بھائیو ں کے ساتھ نہیں رہتے بلکہ جیسے ہی وہ چلنے پھرنے اور اپنی روزی کےلیے شکار کرنا سیکھ جاتے ہیں تو وہ آزاد ہوجاتے ہیں۔

انسان کا بچہ گود سے گور تک اکیلا نہیں ہوتا جب کہ دوسری مخلوقات کے پاس یہ سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں اور اسے اپنی ساری ضروریات اور صحت کےلیے خود ہی ساری تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور یہ سارا کام تو سوچ اور عقل کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا اس کائنات کا رب جو تمام مخلوقات کا خالق و مالک بھی ہے اور روزی رساں بھی، وہی ذات انہیں اس سارے کام کی سمجھ بوجھ بھی عطا کرتی ہے۔

یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ کی ساری مخلوق کے ہاں زندگی گزارنے کا کوئی نہ کوئی نظام ضرور موجود ہے۔ یہ نہ تو احساس سے عاری ہیں، نہ ہی سیکھنے کے فن سے نابلد ہیں اور نہ ہی ہماری بات سمجھنے اور اپنی سمجھانے سے۔ میری اس بات کی تصدق وہ سارے لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں کوئی مویشی، پالتو جانور جیسے بلی، کتا اور پرندے جیسے طوطا اور کبوتر وغیرہ پال رکھے ہیں۔ 

شہد کی مکھیوں کا اپنا ایک نظام ہے اور چیونٹیاں اور دیگر مخلوقات بھی زندگی گزارنے کے کسی نا کسی نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ صرف ہم ناشکرے انسانوں کے علاوہ باقی ہر مخلوق کا اللہ پر بھروسہ اور توکل اس قدر مضبوط ہے کہ اسے اپنی روٹی کی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود وہ اسی ذات کے بھروسے پر صبح اپنے گھونسلوں اور ٹھکانوں سے نکلتی ہے اور اپنے ساتھ اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کا انتظام کرکے واپس لوٹتی ہے۔ انہیں کبھی کچھ ذخیرہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ انہیں اپنے خالق، مالک اور رازق پر اتنا توکل اور بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جس نے دن کا دیا ہے وہ شام کو بھی دے گا۔ یہ صرف ہم انسان ہیں جن کا نہ پیٹ بھرتا ہے اور نہ آنکھ کی بھوک ختم ہوتی ہے۔

اب جب کہ انسان کا بچہ پالنا سب سے مشکل ہے اور پھر وہ اشرف المخلوقات بھی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی تعلیم اور تربیت کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ کیونکہ وہ کوئی شتر بے مہار نہیں کہ جس سمت چل پڑے ٹھیک ہے، بلکہ والدین پر یہ بہت اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی خود بھی سدھار لے اور پہلے دن سے بچے کی ایسی تربیت کرے کہ وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جائے اس کی ذہنی تربیت میں ہر آئے دن نکھار آتا جائے۔

آج کے پرفتن، تیز اور غلط درست معلومات کے نرغے میں آئے ہوئے معاشرے میں بچے کو صحیح راستہ دکھانا اور پھر اس پر چلانا جان جوکھم کا کام ہے کیونکہ آج سے تقریباً تیس چالیس سال پہلے اور آج کے زمانے میں زمین و آسمان جیسا فرق ہے۔ اس دور میں پیدا ہونے والے بچے کتنے دن تو آنکھ ہی مشکل سے کھولتے تھے اور پھر اپنے اردگرد ماں باپ یا اپنے بہن بھائی کو دیکھتے تھے اور نجانے کتنے دنوں بعد انہیں پہچاننے میں کامیاب ہوتے تھے۔ 
ان کے کانوں میں مساجد کے لاؤڈاسپیکرز سے اذان کی آواز آتی تھی۔ نہ تو اس وقت موبائل جیسی وبائی بیماری نے سر اٹھایا تھا اور ٹی وی سرکار نے بھی ابھی ہر گھر میں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا اور ٹیلی فون تو اس وقت ایک کلاس سمبل تھا۔ اس وقت بچے، لڑکے اور جوان اپنے سے بڑوں کا لحاظ کرتے تھے۔ اسکول کے استاد کو معاشرے میں ادب اور عزت کا وہ رتبہ حاصل تھا جو آج کل کے اساتذہ کے خواب سے بھی کوسوں دور ہے۔ ڈاکٹر، حکیم اور کمپوڈر کو بھی مافوق الفطرت مخلوق سمجھا جاتا تھا، ہمسائے ایک دوسرے کی خبر گیری رکھتے تھے، دکھ سکھ میں ساتھ دیتے تھے۔ لوگ جلدی اٹھتے اور رات کو جلدی سوتے تھے۔ ان کے پاس ایک دوسرے کے ہاں جانے، وہاں رہنے اور لمبی گپ شپ کا وقت ہوتا تھا اور وہ ایک دوسرے کی خوشی میں خوش اور دکھ میں دکھی ہوتے تھے۔

آج کے بچے جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو ایک رنگ برنگ گلوبل ولیج ان کا استقبال کرتا ہے۔ وہ اس ہنگامہ خیز اور بظاہر ترقی یافتہ دنیا میں قدم رکھتے ہی سب کو ایسا دیکھتے ہیں جیسے ہم سب کو برسوں سے جانتے ہوں۔ اس کی ماڈرن ماں نے دودھ کا فیڈر پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے جو اس کے منہ سے لگا کر خود انٹرنیٹ کی دنیا سے بچہ پالنے کی ترکیبیں دیکھنا شروع کردیتی ہے یا پھر اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے حوالے سے خبروں اور تبصروں سے باخبر ہونے کے لیے اپنے بچے سے بے خبر ہوجاتی ہے۔

ہمارے ملک میں انٹرنیٹ جیسی وبائی بیماری اور موبائل جیسی بلا کو وارد ہوئے تقریباً 25 سال کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس کا مطلب ان بیماریوں سے متاثر ہونے والے انسانوں کی عمریں اب ایک دن سے لے کر 25 سال تک کی ہیں۔ پہلے دور میں یہ ناممکن تھا کہ چھوٹا بچہ اپنی ماں کے بغیر ایک پل بھی رہ جائے اور ماں کے لیے صرف وہی وقت تھوڑا آرام کا ہوتا جب وہ اپنے بچے کو لوری سنا کر سلا دیتی تھی۔ جب کہ اب نہ ماں کو بچے کی پرواہ ہے اور نہ ہی بچے کو ماں سے وہ انسیت رہی کہ وہ اس کی کمی محسوس کرے۔ کیوں کو ماں کو جب بھی کہیں جانا ہو یا اسے بچے کی ڈسٹربنس نہ چاہیے ہو تو وہ موبائل کی بیٹری فل کرکے بچے کی پسند کا کارٹون لگا کر اس کے حوالے کردیتی ہے۔ پھر جب تک بیٹری ختم نہ ہو بچے کی ماں جو مرضی کام کرے، جہاں سے مرضی ہو آئے اسے بچے کی طرف سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔ پھر جب بچہ ماں کے دودھ اور اس کی لوریوں اور تھپکیوں کے بغیر بڑا ہوگا تو وہ انسیت، ادب اور احترام کہاں سے سیکھے گا؟

جیسے جیسے وہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے انٹرنیٹ کی دنیا سے اس کی ڈیمانڈز بڑھتی جاتی ہیں اور اس کو وہاں دیکھنے کے لیے وہ سب کچھ بھی دستیاب ہوتا ہے جو اس کےلیے اس عمر میں زہر قاتل ہے۔ لیکن نہ اس کی ماں کو احساس ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کو۔ کیونکہ آج کے والدین کی اکثریت اپنی اولاد کے ہاتھوں ان کی خواہشات کی تکمیل کےلیے بلیک میلنگ کی حد تک مجبور ہے۔ کیونکہ بچپن سے لے کر آج تک انہوں نے جو ان کو کھل کھیلنے کے مواقع دیے اب وہ حد سے زیادہ لاڈ پیار ان کی ضد اور خود سری میں بدل چکا ہے جس کے مقابلے میں نہ انہیں اپنے والدین کی پرواہ ہے، نہ بڑوں کی اور نہ ہی اساتذہ کرام کی۔

میں خود کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں کہ اب والدین اپنی اولاد سے اور اساتذہ اپنے طلبا سے اپنی عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ اس میں ’’مار نہیں پیار‘‘ کے فلسفے نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج کل امتحانات میں بچوں کے مارکس 99 فیصد تک بھی آرہے ہیں لیکن ان میں نہ لیاقت ہے، نہ دوسروں کی بات سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی دلیل سے بات کرنے کی عادت ہے۔ وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا کے باسی ہیں اور ہر ہر معاملے میں، چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا اخلاقی بس اپنی دھونس دھاندلی کو درست سمجھنے اور دوسروں کی رائے کو غداری اور نااہلی سے تعبیر کرنے کی روش پر قائم و دائم ہیں۔

مندرجہ بالا خامیوں کے علاوہ پچھلے تقریباً تیس سال کے عرصہ میں بالخصوص ہمارے حکومتی اداروں میں کرپشن کا زہر اس طرح پھیل چکا ہے کہ وہاں کوئی بھی کام پیسوں یا سفارش کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ جب ملازمین متذکرہ بالا خصوصیات کی چھتری تلے پل کر جوان ہوں گے، شروع سے ہی ماں باپ کی طرف سے سچی تربیت نہ ہوئی ہو، جس سیٹ پر کوئی کام کررہا ہو وہ وہاں تک پیسے یا سفارش کی بنیاد پر پہنچا ہو، تعلیم ساری نقل مافیا کے تحت ہوئی ہو ، معلومات تک رسائی اس کو نہ ہو اور لوگوں کے حالات و واقعات معلوم ہونے کے باوجود اس کو ان پر ذرا ترس نہ آتا ہو تو اس معاشرے کی بے حسی کا اور کتنا ماتم کیا جاسکتا ہے؟

اب آپ خود بتایئے کہ برائیوں، کرپشن، جھوٹ پر مبنی کہانیوں اور سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر پھیلی ہماری اخلاقی اقدار کی پامالی میں گھرے معاشرے میں جو بچہ پیدا ہوگا اس کی ایسی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا کہ وہ ملک و معاشرے کا ایک پرامن اور قابل فخر شہری بنے، کیا پل صراط سے گزرنے سے کم ہے؟ 

آج ہم جو کاٹ رہے ہیں وہ وہی ہے جو پچھلے پچیس تیس سے ہم بو رہے ہیں اور اگر اب بھی وہی بوئیں گے تو یقیناً مستقبل میں وہی کاٹتے رہیں گے۔ کیوں کہ جس طرح ہم امرود کے بیج بوکر سیب کا درخت نہیں اگا سکتے، ویسے ہی اپنے بچوں کی پہلے دن سے صحیح اور درست تربیت کیے بغیر معاشرے کو کرپشن اور اخلاقی و سماجی برائیوں سے پاک ایک پرامن معاشرہ کبھی بھی نہیں بنا سکتے اور یہ اتنا آسان نہیں بلکہ ایک پل صراط ہے جسے پار کرنا ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ پل صراط پار کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے اور نہ ہی ہے کہ وہ اور پھر کے ساتھ کے بغیر ہیں اور کرنے کی ہوتا ہے نہیں ہو بچے کی ماں کو اور اس کی طرف

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • پائیکرافٹ کو ہٹانے کے سوا راستہ نہیں، پی سی بی کا سخت مؤقف کیساتھ آئی سی سی کو دوبارہ خط، آج فیصلہ متوقع
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • پائیکرافٹ کو ہٹانے کے سوا راستہ نہیں، پی سی بی کا سخت مؤقف کیساتھ آئی سی سی کو دوبارہ خط، آج فیصلہ متوقع
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • اینڈی پائی کرافٹ معاملہ، پی سی بی مؤقف پر قائم، درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • یہ وہ لاہور نہیں