تعلیمی ادارے اور ان کی ریکنگ
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ عالمی جامعات کی درجہ بندی میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی پہلی تین سو یا تین سو پچاس میں شامل نہ ہوں، لیکن شاید ہر بار کی طرح ہم اس خبر کو محض سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ سمجھ کر اگلے لمحے فراموش کردیں گے۔
ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ تعلیم کا نظام اس حد تک زوال پذیر کیوں ہے؟ ہم کیوں اپنی نوجوان نسل کو ایسا تعلیمی ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہیں جو بین الاقوامی معیار پر پورا اتر سکے؟ کیا یہ وقت نہیں کہ ہم بطور قوم سنجیدگی سے غور کریں کہ ہم اپنے ہی ملک میں ایسی سستی معیاری عوام دوست تعلیم کیوں فراہم نہیں کرسکتے جو ہمیں دنیا کی صفِ اول کی فہرست میں لا کھڑا کرے؟
پاکستان کی جامعات کا عالمی رینکنگ سے باہر رہنا محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ یہ اس گہرے زوال کی علامت ہے جو ہماری تعلیمی پالیسیوں سرمایہ کاری اور اجتماعی ترجیحات کا نتیجہ ہے۔ جب ایک ملک اپنی کل GDP کا معمولی سا حصہ تعلیم پر خرچ کرے جب یونیورسٹیاں محض ڈگری فراہم کرنے والی فیکٹریوں میں بدل جائیں جب تحقیق صرف کاغذی خانہ پُری کے لیے کی جائے جب تعلیم نجی کاروبار بن جائے اور عوام کی پہنچ سے باہر ہو تو پھر عالمی درجہ بندی سے باہر ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ درحقیقت یہ وہ انجام ہے جسے ہم نے خود دعوت دی ہے۔
اگر ہم موازنہ کریں اُن ممالک سے جو آبادی یا معیشت میں ہم جیسے یا ہم سے بھی پیچھے تھے مگر آج اُن کی یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین درسگاہوں میں شمار ہوتی ہیں تو ایک دردناک حقیقت سامنے آتی ہے انھوں نے تعلیم کو بطور سرمایہ کاری دیکھا ہم نے بطور بوجھ۔ ویت نام ایران، ترکی، مصر حتیٰ کہ بنگلہ دیش تک اپنی جامعات کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ وہاں ریاستی سطح پر تعلیمی اصلاحات کی گئیں اساتذہ کی تربیت پر توجہ دی گئی تحقیق کے لیے فنڈ مختص کیے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیم کو ایک سماجی حق سمجھا گیا نہ کہ ایک مہنگی سہولت۔
پاکستان میں تعلیم نجی شعبے کے رحم و کرم پر ہے۔ جامعات کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ دیہی علاقوں کے طلبہ تو جیسے اس نظام سے کاٹ دیے گئے ہیں، وہ طالبعلم جو ذہانت محنت اور خواب رکھتے ہیں ان کے لیے کوئی ایسا ذریعہ نہیں کیونکہ نہ ان کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی پالیسی جو انھیں اوپر آنے دے۔ حکومت کی سطح پر تعلیم کے نام پر ہونے والا سارا شور محض کاغذی وعدوں اور سیاسی نعروں سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ بھی نہیں کہ ہمارے ملک میں قابل اساتذہ محققین یا طلبہ کی کمی ہے۔ درحقیقت یہ وہ ملک ہے جہاں کے نوجوان بیرونِ ملک جا کر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں نہ صرف داخلہ لیتے ہیں بلکہ نمایاں کارکردگی بھی دکھاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ملک میں انھیں وہ ماحول وہ مواقع وہ تحقیق کے وسائل اور وہ تعلیمی آزادی میسر نہیں جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔ جامعات میں جمود، سنسر شپ، سیاسی مداخلت اور بیورو کریٹک کنٹرول نے تعلیمی نظام کو گھٹن زدہ کردیا ہے۔
تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جو صرف امیروں کے لیے مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اسے عوامی حق نہیں بناتے جب تک تعلیمی شعبے کو ایک عوامی فلاحی ادارہ نہیں سمجھتے تب تک ہم محض رینکنگ کی دوڑ میں پچھڑتے رہیں گے۔ ہمیں نجی اداروں کی اجارہ داری سے نکل کر ریاستی سطح پر معیاری مفت یا کم خرچ والی اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ سرکاری جامعات کو بجٹ دینا ہوگا انھیں خود مختاری دینی ہوگی اساتذہ کو تحفظ اور ترقی دینی ہوگی، تحقیق کو ریاستی سرپرستی دینی ہوگی۔
یہ وقت ہے کہ ہم سوال اٹھائیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے لیکن ہماری ایک بھی یونیورسٹی عالمی ریکنگ کے معیار کی یونیورسٹی نہیں۔ ہم دفاع پر اربوں خرچ کر سکتے ہیں مگر تعلیم کے لیے بجٹ نکالنا ناممکن لگتا ہے۔ یہ تضاد نہیں تو اورکیا ہے؟ جب تک ہم بچوں کو سستی معیاری اور نظریاتی آزادی پر مبنی تعلیم نہیں دیں گے ہم نہ فکری طور پر آزاد ہوں گے اور نہ اقتصادی طور پر مضبوط۔
یہ وقت ہے کہ ہم تعلیمی پالیسی کی طرف توجہ دیں اور باقاعدہ اس بات پہ غورکریں کہ کس طرح ہماری یونیورسٹیاں عالمی ریکنگ میں آسکتی ہیں۔ ہمیں ایک ایسی تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے جو علم تحقیق تنقید اور عوامی شعور کے فروغ کے لیے کام کرے۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام درکار ہے جو سوال اٹھانے والے نوجوان پیدا کرے جو اپنے سماج کو بدلنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔
کیا ہم تیار ہیں اس تبدیلی کے لیے؟ اگر ہاں تو ہمیں ابھی سے جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر اگلے سال بھی یہی خبر شایع ہوگی دنیا کی 500، 1000 یا 2000 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں اور ہم بس ایک ٹوئٹ کر کے آگے بڑھ جائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ہمارے بچے ذہین اور محنتی ہیں اور جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں تو بہترین نتائج حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کی چند یونیورسٹیاں انتہائی اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کر رہی ہیں جیسے IBA, LUMS, KHAN AGA اور GIK UNIVERSITY وغیرہ پاکستانی بچے ان تعلیمی اداروں اور دیگر یونیورسٹیوں سے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے جا رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کو کس طرح دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کی ریکنگ میں شامل کرسکتے ہیں، اس کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ ہمارے بچے اپنے ملک میں رہتے ہوئے کیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور وہ بھی ورلڈ ریکنگ یونیورسٹی سے جو ملک میں ہو اور جہاں ڈالر پونڈ یا یورو میں فیس نہ دینا پڑے۔ یہ سب کچھ ایک دن میں ممکن نہیں، اس کے لیے مثبت سوچ، نیک نیتی، پلاننگ اور وسائل کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے اور تعلیمی بجٹ دونوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اگر ہمیں بحیثیت ملک آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اس طرف فوری توجہ دینی ہوگی۔ کیوں ہمارا نوجوان اپنے ملک میں معیاری اور سستی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا کیوں وہ ویزہ کے لیے خوار ہو اور مہنگی تعلیم کے لیے اس کے والدین قرضے لینے پر مجبور ہوں یا دن رات اس فکر میں گھلتے رہیں کہ اگلے سمسٹر کی فیس کیسے دی جائے۔
جب ہمارے ملک میں عالمی معیار کی یونیورسٹیاں جو کسی بھی طرح باہر کی یونیورسٹیوں سے کم نہ ہوں ہوں گی تو پھر بچوں کے لیے یہ سہولت ہوگی کہ وہ اپنے ملک میں تعلیم حاصل کریں اور جو پھر بھی باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو اور با آسانی وہ فیس دے سکتا ہو تو وہ ضرور ایسا کرے۔ اگر ہمارے ملک میں بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے ہوں گے تو بچوں اور ان کے والدین کو یہ دکھ نہیں ہوگا کہ وہ صرف اس لیے ایک اچھے تعلیمی ادارے نہ جاسکے کیوں کہ فیس نہیں تھی یا ویزہ نہیں ملا ہمیں بچوں اور ان کے والدین کی آنکھوں میں بسے خوابوں کو امید دینی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی یونیورسٹی اپنے ملک میں پاکستان کی تعلیم حاصل دینی ہوگی تعلیمی ا تعلیم کے سے باہر دنیا کی ہیں اور ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)
پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔
پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔
انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔
اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔
آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔
71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔
دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔
خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔
سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔
Tagsپاکستان