تعلیمی ادارے اور ان کی ریکنگ
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ عالمی جامعات کی درجہ بندی میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی پہلی تین سو یا تین سو پچاس میں شامل نہ ہوں، لیکن شاید ہر بار کی طرح ہم اس خبر کو محض سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ سمجھ کر اگلے لمحے فراموش کردیں گے۔
ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ تعلیم کا نظام اس حد تک زوال پذیر کیوں ہے؟ ہم کیوں اپنی نوجوان نسل کو ایسا تعلیمی ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہیں جو بین الاقوامی معیار پر پورا اتر سکے؟ کیا یہ وقت نہیں کہ ہم بطور قوم سنجیدگی سے غور کریں کہ ہم اپنے ہی ملک میں ایسی سستی معیاری عوام دوست تعلیم کیوں فراہم نہیں کرسکتے جو ہمیں دنیا کی صفِ اول کی فہرست میں لا کھڑا کرے؟
پاکستان کی جامعات کا عالمی رینکنگ سے باہر رہنا محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ یہ اس گہرے زوال کی علامت ہے جو ہماری تعلیمی پالیسیوں سرمایہ کاری اور اجتماعی ترجیحات کا نتیجہ ہے۔ جب ایک ملک اپنی کل GDP کا معمولی سا حصہ تعلیم پر خرچ کرے جب یونیورسٹیاں محض ڈگری فراہم کرنے والی فیکٹریوں میں بدل جائیں جب تحقیق صرف کاغذی خانہ پُری کے لیے کی جائے جب تعلیم نجی کاروبار بن جائے اور عوام کی پہنچ سے باہر ہو تو پھر عالمی درجہ بندی سے باہر ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ درحقیقت یہ وہ انجام ہے جسے ہم نے خود دعوت دی ہے۔
اگر ہم موازنہ کریں اُن ممالک سے جو آبادی یا معیشت میں ہم جیسے یا ہم سے بھی پیچھے تھے مگر آج اُن کی یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین درسگاہوں میں شمار ہوتی ہیں تو ایک دردناک حقیقت سامنے آتی ہے انھوں نے تعلیم کو بطور سرمایہ کاری دیکھا ہم نے بطور بوجھ۔ ویت نام ایران، ترکی، مصر حتیٰ کہ بنگلہ دیش تک اپنی جامعات کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ وہاں ریاستی سطح پر تعلیمی اصلاحات کی گئیں اساتذہ کی تربیت پر توجہ دی گئی تحقیق کے لیے فنڈ مختص کیے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیم کو ایک سماجی حق سمجھا گیا نہ کہ ایک مہنگی سہولت۔
پاکستان میں تعلیم نجی شعبے کے رحم و کرم پر ہے۔ جامعات کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ دیہی علاقوں کے طلبہ تو جیسے اس نظام سے کاٹ دیے گئے ہیں، وہ طالبعلم جو ذہانت محنت اور خواب رکھتے ہیں ان کے لیے کوئی ایسا ذریعہ نہیں کیونکہ نہ ان کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی پالیسی جو انھیں اوپر آنے دے۔ حکومت کی سطح پر تعلیم کے نام پر ہونے والا سارا شور محض کاغذی وعدوں اور سیاسی نعروں سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ بھی نہیں کہ ہمارے ملک میں قابل اساتذہ محققین یا طلبہ کی کمی ہے۔ درحقیقت یہ وہ ملک ہے جہاں کے نوجوان بیرونِ ملک جا کر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں نہ صرف داخلہ لیتے ہیں بلکہ نمایاں کارکردگی بھی دکھاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ملک میں انھیں وہ ماحول وہ مواقع وہ تحقیق کے وسائل اور وہ تعلیمی آزادی میسر نہیں جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔ جامعات میں جمود، سنسر شپ، سیاسی مداخلت اور بیورو کریٹک کنٹرول نے تعلیمی نظام کو گھٹن زدہ کردیا ہے۔
تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جو صرف امیروں کے لیے مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اسے عوامی حق نہیں بناتے جب تک تعلیمی شعبے کو ایک عوامی فلاحی ادارہ نہیں سمجھتے تب تک ہم محض رینکنگ کی دوڑ میں پچھڑتے رہیں گے۔ ہمیں نجی اداروں کی اجارہ داری سے نکل کر ریاستی سطح پر معیاری مفت یا کم خرچ والی اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ سرکاری جامعات کو بجٹ دینا ہوگا انھیں خود مختاری دینی ہوگی اساتذہ کو تحفظ اور ترقی دینی ہوگی، تحقیق کو ریاستی سرپرستی دینی ہوگی۔
یہ وقت ہے کہ ہم سوال اٹھائیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے لیکن ہماری ایک بھی یونیورسٹی عالمی ریکنگ کے معیار کی یونیورسٹی نہیں۔ ہم دفاع پر اربوں خرچ کر سکتے ہیں مگر تعلیم کے لیے بجٹ نکالنا ناممکن لگتا ہے۔ یہ تضاد نہیں تو اورکیا ہے؟ جب تک ہم بچوں کو سستی معیاری اور نظریاتی آزادی پر مبنی تعلیم نہیں دیں گے ہم نہ فکری طور پر آزاد ہوں گے اور نہ اقتصادی طور پر مضبوط۔
یہ وقت ہے کہ ہم تعلیمی پالیسی کی طرف توجہ دیں اور باقاعدہ اس بات پہ غورکریں کہ کس طرح ہماری یونیورسٹیاں عالمی ریکنگ میں آسکتی ہیں۔ ہمیں ایک ایسی تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے جو علم تحقیق تنقید اور عوامی شعور کے فروغ کے لیے کام کرے۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام درکار ہے جو سوال اٹھانے والے نوجوان پیدا کرے جو اپنے سماج کو بدلنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔
کیا ہم تیار ہیں اس تبدیلی کے لیے؟ اگر ہاں تو ہمیں ابھی سے جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر اگلے سال بھی یہی خبر شایع ہوگی دنیا کی 500، 1000 یا 2000 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں اور ہم بس ایک ٹوئٹ کر کے آگے بڑھ جائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ہمارے بچے ذہین اور محنتی ہیں اور جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں تو بہترین نتائج حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کی چند یونیورسٹیاں انتہائی اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کر رہی ہیں جیسے IBA, LUMS, KHAN AGA اور GIK UNIVERSITY وغیرہ پاکستانی بچے ان تعلیمی اداروں اور دیگر یونیورسٹیوں سے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے جا رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کو کس طرح دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کی ریکنگ میں شامل کرسکتے ہیں، اس کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ ہمارے بچے اپنے ملک میں رہتے ہوئے کیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور وہ بھی ورلڈ ریکنگ یونیورسٹی سے جو ملک میں ہو اور جہاں ڈالر پونڈ یا یورو میں فیس نہ دینا پڑے۔ یہ سب کچھ ایک دن میں ممکن نہیں، اس کے لیے مثبت سوچ، نیک نیتی، پلاننگ اور وسائل کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے اور تعلیمی بجٹ دونوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اگر ہمیں بحیثیت ملک آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اس طرف فوری توجہ دینی ہوگی۔ کیوں ہمارا نوجوان اپنے ملک میں معیاری اور سستی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا کیوں وہ ویزہ کے لیے خوار ہو اور مہنگی تعلیم کے لیے اس کے والدین قرضے لینے پر مجبور ہوں یا دن رات اس فکر میں گھلتے رہیں کہ اگلے سمسٹر کی فیس کیسے دی جائے۔
جب ہمارے ملک میں عالمی معیار کی یونیورسٹیاں جو کسی بھی طرح باہر کی یونیورسٹیوں سے کم نہ ہوں ہوں گی تو پھر بچوں کے لیے یہ سہولت ہوگی کہ وہ اپنے ملک میں تعلیم حاصل کریں اور جو پھر بھی باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو اور با آسانی وہ فیس دے سکتا ہو تو وہ ضرور ایسا کرے۔ اگر ہمارے ملک میں بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے ہوں گے تو بچوں اور ان کے والدین کو یہ دکھ نہیں ہوگا کہ وہ صرف اس لیے ایک اچھے تعلیمی ادارے نہ جاسکے کیوں کہ فیس نہیں تھی یا ویزہ نہیں ملا ہمیں بچوں اور ان کے والدین کی آنکھوں میں بسے خوابوں کو امید دینی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی یونیورسٹی اپنے ملک میں پاکستان کی تعلیم حاصل دینی ہوگی تعلیمی ا تعلیم کے سے باہر دنیا کی ہیں اور ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
سرویکل ویکسین سے کسی بچی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں: وزیر تعلیم
وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے کہا ہے کہ سرویکل کینسر سے بچا ئوکی ویکسین 100 فیصد محفوظ اور مستند ہے،یہ ویکسین پولیو ویکسین کی طرح موثر اور آزمودہ ہے اور اس کے استعمال سے کسی بچی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے والدین پر زور دیا کہ وہ ایچ پی وی ویکسین پر اعتماد کریں اور اپنی بچیوں کو لازمی طور پر یہ ویکسین لگوائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی فیملی کی بچیوں کو بھی یہ ویکسین لگوائی ہے۔رانا سکندر حیات نے واضح کیا کہ سرویکل کینسر ویکسین سے متعلق تمام افواہیں بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ویکسین کے بارے میں منفی پروپیگنڈے سے بچا جائے کیونکہ سرویکل کینسر ایک بڑھتا ہوا سماجی چیلنج ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کینسر ایک لاعلاج مرض ہے اور اس کے پھیلا ئوکو روکنے کے لیے ابھی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔