Express News:
2025-09-17@22:29:28 GMT

ٹریفک قوانین اور چالان

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

ملک کے دو بڑے شہرکراچی اور لاہور میں ٹریفک رولز کی خلاف ورزیوں پرموٹر سائیکل سواروں اور دیگر گاڑیوںکے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری ہیں اور سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد شروع کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں رعایت نہیں برتی جا رہی۔دونوں بڑے شہروں میں بعض حلقے اس مہم پرتنقید بھی کرتے ہیں۔

رکشے اور خصوصاً موٹر سائیکلیں چلانے والے لوگ ٹریفک چالانوں کی بھرمار کی وجہ سے خاصے پریشان بھی نظر آتے ہیں۔جتنے چالان اب ہو رہے ہیں ‘ماضی میںاتنے چالان کسی حکومت میں نہیں ہوئے۔لیکن اس کے باوجود بڑے شہروں میںٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ رکشے‘ موٹر سائیکل سوار اورگاڑیوں والے ٹریفک سگنلز کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں کا موقف ہے کہ موٹر سائیکلیں اب ہر شخص کی اشد ضرورت بن چکی ہیں۔

لاہور میں لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کراچی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جب کہ کراچی میں موٹر سائیکل رکھنا مجبوری بن چکی ہے اور ملک بھر میں روزگار نہ ہونے اور پٹرول بے حد مہنگا ہونے کی وجہ بڑے شہروں میں لوگ اپنی موٹرسائیکلوں کو بائیکیا کے طور پر استعمال کرکے بھی روزگار کما رہے ہیں اور جو لوگ رکشوں کے منہ مانگے کرائے ادا کرنے کی مالی پوزیشن نہیں رکھتے وہ ان موٹرسائیکل سواری کو اپنے لیے ارزاں سمجھتے ہیں اور بائیکیا والوں کے ساتھ رقم طے کر کے اپنے سفر کو با رعایت سمجھتے ہیں۔یوں یہ ایک سہولت ہے۔

ملک کا کوئی ایک ایسا شہر نہیں جہاں ٹیکسیوں اور رکشوں میں میٹر لگے ہوں،کیونکہ کوئی حکومت اپنے صوبوں میں چلنے والی ٹیکسیوںاور رکشوں میں میٹر لگوانا اپنی ذمے داری سمجھتی ہی نہیں، نہ موجودہ حکمرانوں اور ٹریفک افسروں کو یاد ہے کہ عشروں پہلے پاکستان میں رکشوں اور ٹیکسیوں میں میٹر لگے ہوتے تھے اور میٹروں کے مطابق کرایہ ادا کر کے بغیرکسی جھگڑے کے عزت سے سفر کر لیا کرتے تھے۔

میٹروں کی کہانی ختم ہو چکی، رکشے ٹیکسی والے منہ مانگا کرایہ وصول کرنے میں آزاد ہیں ، یہ ٹریفک پولیس اور حکومت کا مسئلہ رہا نہیں اور لوگ لُٹ رہے ہیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد بڑے شہروں میں موٹرسائیکل کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کے سفرکا ذریعہ ہیں۔ لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے کے بجائے ،عوام کو نجی ٹرانسپورٹ کے سپرد کر دیا گیا۔

ایسا مشورہ ٹریفک افسروں نے ہی دیا ہوگا، جنھوں نے پنجاب میں ٹریفک پولیس کی جگہ ٹریفک وارڈنوں کا تقررکرایا جن میں اکثر کے پاس رحم و انسانی ہمدردی تو ہے ہی نہیں بلکہ وہ صرف قانون قانون کی رٹ لگانے کے لیے اور حکومت کی کمائی بڑھانے کے لیے مامور ہیں اور انھیں ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل رکھنے والوں تک کا احساس نہیں۔ موٹرسائیکلیں بھی اب سستی نہیں، لاکھوں تک پہنچ گئی ہیں اور چین کی مہربانی سے قسطوں پر مل جاتی ہیں اور لوگوں کو سفری سہولت ملی ہوئی ہے۔

 سندھ و پنجاب کی حکومتوں نے ٹریفک سسٹم کی بہتری کی آڑ میں غریب موٹر سائیکل والے ہی نظر آئے اورکسی کو کوئی رعایت نہ دینے اور معمولی خلاف ورزی پر بھی ہر حال میں جرمانے کرنے کی ڈیوٹی دی گئی جس سے حکومت کی بے انتہا آمدنی بڑھی جب کہ بڑی اور مہنگی گاڑیوں کو کہیں روکا نہیں جاتا۔ اب کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں ‘لیکن اس کے باوجود بڑی گاڑیوں والے نہ مقررہ اسپیڈ کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی لائن اور لین کا خیال کرتے ہیں لیکن ٹریفک پولیس والے انھیں روکتے نہیں ہیں جب کہ رکشے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کو روکا جاتا ہے۔

یوں عوام میں ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے اور انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔آپ کسی سے بھی پوچھ لیں وہ یہی بتائے گا کہ ٹریفک پولیس صرف موٹر سائیکل سواروں ‘چنگ چی رکشے والوں اور لوڈر ویگنوں کو روکتے ہیں اور بغیر پوچھے چالان کی پرچی انھیں تھما دیتے ہیں۔ل

اکھوں روپے سے لگائے جانے والے یہ کیمرے کروڑوں روپے اب پنجاب حکومت کو جرمانوں کی صورت میں کما کر دے رہے ہیں جن کا اصل ٹارگٹ صرف غریب طبقے ہیں۔ ان کیمروں کو ٹوٹی پھوٹی بائیکس نہیں، ان کی خستہ نمبر پلیٹیں اور چلانے والے کا سر ضرور نظر آ جاتا ہے جو فوراً چالان رپورٹ جاری کر دیتے ہیں۔ سندھ و پنجاب میں لاتعداد پرانی بائیکس بغیر نام چل رہی ہیں کیونکہ دونوں جگہ ایکسائز و ٹیکسیشن والے آسانی سے نام ٹرانسفر نہیں کرتے اور جس کے نام بائیک ہو، اس پر جرمانہ بڑھتا جاتا ہے اور چلانے والے کو علم ہی نہیں ہوتا۔ کراچی میں بائیک والے ٹریفک پولیس کا خصوصی ہدف اورکمائی کا بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بڑے شہروں میں ٹریفک پولیس موٹر سائیکل رہے ہیں ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

بینک اسلامی اور ایم جی موٹر زکے درمیان کار فنانسنگ کامعاہدہ

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)بینک اسلامی نے ایم جی موٹرز پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پردستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت صارفین کو انڈسٹری کے سب سے کم شرح پر شریعہ کمپلائنٹ آٹو فنانسنگ فراہم کی جائے گی۔ صرف 4.99فیصد (1.49فیصد کے مساوی ایک سالہ شرح)سے شروع ہونے والی رینٹل شرح کے ساتھ بینک اسلامی کی ایم جی فنانسنگ آفر آٹو صارفین کیلئے سہولت اور کفایت کاایک نیا معیار ہے۔

3ملین روپے یا اس سے زائد کی فنانسنگ پر یہ خصوصی مہم صارفین کواسی دن میں پراسیسنگ اور فوری منظوری کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ 2سال کیلئے 9.99فیصد اور 3سال کیلئے 11.75فیصد کی شرح کے ساتھ صارفین فلیکسیبل مدت کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس آفر کے تحت مکمل شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے شریعہ کمپلائنٹ کے مطابق بینک اسلامی کے پینل انشورنس پارٹنر کے ذریعے پرکشش کوریج پلانزبھی فراہم کیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

یہ آفر ایم جی ایچ ایس اور ایم جی ایچ ایس پلگ ان ہائبرڈ الیکٹریکل وہیکل (PHEV)سمیت منتخب ایم جی ماڈلز پر دستیاب ہے۔ جو جدید ڈیزائن، جدید ٹیکنالوجی اور ماحول دوست موبلٹی کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ایم جی موٹرز پاکستان کے جنرل منیجر مارکیٹنگ ڈویژن سید آصف احمد نے کہاکہ بینک اسلامی کے ساتھ یہ شراکت داری پاکستان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کیلئے پریمیم موبیلٹی کو قابلِ رسائی بنانے کے ہمارے وژن کو مزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ صارفین اب ایم جی کی جدید ٹیکنالوجی اور ماحول دوست گاڑیوں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ شریعہ کے مطابق انڈسٹری کی سب سے کم فنانسنگ شرح کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ آفر جدت آسان سہولت اور صارفین دوستی کا بہترین امتزاج ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بینک اسلامی اور ایم جی موٹر زکے درمیان کار فنانسنگ کامعاہدہ
  • کراچی میں ٹریفک پولیس کی آگاہی مہم، یکم اکتوبر سے ای چالان کیے جائینگے
  • کراچی میں ٹریفک پولیس کی آگاہی مہم، یکم اکتوبر سے ای چالان کیے جائیں گے
  • غفلت اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیورز ہوجہائیں خبردار
  • سیلاب سے  ایم 5 موٹروے 5 مقامات پر متاثر ،ٹریفک بند
  • پاکستان سمیت 16 ممالک کا غزہ جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کی سلامتی پر تشویش کا اظہار
  • پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
  • کراچی، نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار شخص جاں بحق
  • مالی تنازع پر عدالت آنے والے بھائیوں پر فائرنگ، 1 جاں بحق
  • قوانین میں کہیں بھی ہاتھ ملانے کی شرط درج نہیں،بھارتی کرکٹ بورڈ