بارشیں اور سیلاب؛ غفلت کب تک؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
رواں برس بھی گزشتہ برسوں کی طرح معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں جن کی وجہ سے بونیر، سوات، باجوڑ، بٹگرام سمیت مختلف علاقوں میں سیلاب اُمڈ آیا اور 320 سے زیادہ افراد کی جانیں لے گیا۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں 279 مرد، 15 خواتین اور 13 بچے شامل ہیں۔ بونیر میں سیلاب بادل پھٹنے کی وجہ سے آیا اور پورے کا پورا گاؤں ہی بہا کر لے گیا۔
ان علاقوں کی تباہی کی خبریں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں دیکھی گئیں، صحافت کے عالمی اداروں نے ان واقعات کو شہ سرخیوں کا حصہ بنایا۔ ملک بھر میں غم کا سماں ہے۔ ہر پاکستانی سیلاب زدگان کے دکھ درد میں شریک ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی متاثرہ اضلاع کی بحالی کےلیے مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے کے طور پر بونیر کے لیے 15 کروڑ، باجوڑ، مانسہرہ اور بٹگرام کے لیے 10، 10 کروڑ روپے جب کہ سوات کےلیے 5 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ قدم قابل ستائش ہے مگر یہ پیسے سیلاب زدگان تک پہنچنے میں کافی وقت لگے گا۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کے گھر بہہ چکے ہیں، انہیں راشن، رہن سہن، مالی و طبی مدد کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ فلاحی اداروں کے وسائل محدود ہیں، لہٰذا وہ ایک حد سے زیادہ مدد نہیں کرسکتے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنائے۔
سائنسی اعتبار سے سیلاب آنے کی وجہ گلوبل وارننگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر کے پھٹنے یا پگھلنے سے سیلاب آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شدید اور غیر رسمی بارشیں بھی سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔
حالیہ سیلابی ریلے بھی زیادہ بارشوں کا نتیجہ ہیں اور جو نقصانات ہوئے ہیں،یہ ہماری نااہلی ہے۔ میں بونیر کے نقصانات کو مکمل طور پر نااہلی قرار نہیں دے سکتا، کیوں کہ اب تک میری نظر سے کوئی ایسی چیز نہیں گزری جس میں بادل کے پھٹنے سے پیشگی بچاؤ کے بارے میں رہنمائی ملتی ہو۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اگر کسی چھوٹے پہاڑی علاقے (1 سے 10 کلومیٹر تک) میں ایک گھنٹہ میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ہو تو وہاں بادل پھٹ کر اپنا سارا بوجھ ایک ہی وقت میں گرا دیتے ہیں جو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ سیلاب اپنے ساتھ پتھر اور درخت سمیت سامنے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے۔ مردان کے علاقے کاٹلنگ میں بننے والے سسٹم نے جب بونیر کا رخ کیا تو وہاں بالکل یہی ہوا اور پورا بشنوئی گاؤں بہہ گیا۔
بونیر میں بادل پھٹنے سے ہونے والی اس تباہی سے شاید بچنا ممکن نہ تھا مگر جن علاقوں میں بادل نہیں پھٹے اور تباہی ہوئی، وہاں تمام تر نقصانات کی ذمے داری حکومت اور دریا کے قریب ہوٹل اور مکانات بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت تو ہر ایک پہلو سے مجرم ٹھہرتی ہے۔
بارشیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں، وہاں بھی سیلا ب آتے ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں اپنی بساط کے مطابق پورے انتظامات کرتی ہیں۔ چین اور انڈیا سمیت بڑے ممالک میں درجنوں ڈیم بنے ہوئے ہیں جہاں وہ پانی ذخیرہ کرکے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بارشیں نہ ہوں تو پانی نایاب ہو جاتا ہے اور جب ہوں تو سیلاب اُمڈ آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات کا فقدان ہے۔
پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کےلیے 1991 میں بنائے جانے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف 2 بڑے ذرائع ہیں جن میں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم شامل ہیں۔ ان دونوں ڈیموں میں صرف 30 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔
ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.
پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن ابھی تک بیچارے پاکستانی ایسی کسی بھی پروجیکٹ کے ثمرات سے محروم ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کو لے لیں، یہ منصوبہ 1980 سے زیر غور ہے اور ابھی 2020 میں اس پر کام تیز کرنے کا اعلان کرکے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر 2028 میں مکمل ہوگی۔ اسے پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم قرار دیا جارہا ہے۔ اللہ کرے یہ ڈیم بروقت مکمل ہو۔ بہرحال، حکومت کو اس سے آگے کا بھی سوچنا چاہیے کیوں کہ اب ملک مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر دیامر بھاشا ڈیم سمیت مزید ڈیم بنانے چاہئیں۔ حکومت کو درخت کاٹنے، دریا کے پانی کے قریب ہوٹل اور مکانات بنانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کےلیے حکومت کو سب سے پہلے اس طرح کے کاموں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی کرنا ہوگی۔ ارباب اختیار فیصلہ کرلیں کہ کام کرنا ہے یا پھر لوگوں کو ڈبونا ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں سے زیادہ کے مطابق جاتا ہے کی وجہ
پڑھیں:
لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
لاہور، پنجاب کے وزیرِ ٹرانسپورٹ بلال اکبر نے اعلان کیا ہے کہ کینال روڈ پرالیکٹرک ٹرام منصوبہ آئندہ سال فروری میں شروع نہیں کیا جا سکے گا۔وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبر کے مطابق منصوبے کے لیے مختص 130 ارب روپے کا فنڈ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کو مؤخرکرنے کے باوجود محکمہ ٹرانسپورٹ نے تین نئی تجاویز تیار کی ہیں، جو دسمبر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ ٹرام منصوبے کے ساتھ لاہور کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو ازسرِنوترتیب دیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں جدید اور پائیدارسفری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
2009 میں لاہور کے لیے چار میٹرولائنز کی ضرورت تھی، تاہم تازہ ترین اسٹڈی کے مطابق اب شہر میں کم از کم چھ میٹرو لائنز درکار ہیں۔چند روزمیں گوجرانوالہ اورفیصل آباد میٹرو منصوبوں کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب منعقد کی جائے گی، جس کے بعد کینال روڈ ٹرام منصوبے پر بھی کام شروع کیا جائے گا، ورلڈ بینک کے تعاون سے 25 کروڑ ڈالرز کی لاگت سے لاہور میں 400 نئی الیکٹرک بسیں شامل کی جا رہی ہیں۔حکومت کی کوشش ہے کہ آنے والے برسوں میں لاہور میں ایک سے دو نئی میٹرو لائنز کا اضافہ کر کے شہریوں کے سفر کو مزید آسان اور ماحول دوست بنایا جائے۔