گزشتہ چند برس میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں اقتصادی شعبوں میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، چاہے وہ توانائی ہو، کان کنی، ٹیکنالوجی یا سرمایہ کاری۔ تاہم آج فضائی سفر کا شعبہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے سب سے اہم اور مستقبل ساز راستوں میں سے ایک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ خاص طور پر جبکہ بڑی سعودی کمپنیوں کو خطے میں توسیع کے مواقع کی تلاش ہیں اور پاکستان اپنی فضائی انفراسٹرکچر کو جدید بنانے اور اپنے ہوائی اڈوں کو خطے کے اہم ٹرانسپورٹ اور سروس سینٹرز میں بدلنے کی خواہش رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: سعودی ایئرلائن ’فلائی اے ڈیل‘ کی اسلام آباد کے لیے پروازوں کا آغاز

سعودی ایئرلائنز پاکستان کی مارکیٹ میں اپنی موجودگی بڑھانے پر کام کر رہی ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان مسافروں کی کثیر تعداد سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ سعودی عرب میں 2.

5 ملین سے زائد پاکستانی مقیم ہیں، جو انسانی اور اقتصادی تعلقات کا ایک مضبوط پل ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان سعودی ایئرلائنز کے لیے بڑی مارکیٹس میں سے ایک ہے۔

السعودیہ (Saudia): ہفتہ وار متعدد پروازیں اسلام آباد، کراچی، لاہور اور ملتان سمیت اہم پاکستانی شہروں کے لیے چلائی جاتی ہیں، تاکہ پاکستانی ورکروں، حجاج اور عمرہ کرنے والوں کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔

طیران ناس (flynas): کم لاگت کے ساتھ نئے راستے کھولنے پر فوکس، جس سے مسافروں کو سفر کے مختلف آپشن میسر ہوئے۔

طیران أدیل (flyadeal): پاکستان کی مارکیٹ میں حال ہی میں داخل ہونے والی سعودی کمپنی، جس نے 2023 میں جدہ سے کراچی اور لاہور کی پہلی براہِ راست پروازیں شروع کیں، اور مسافروں کو کم قیمت اور جدید خدمات فراہم کیں۔

مزید پڑھیں: نجی ایئر لائن کا سعودی عرب سے پاکستان کے لیے براہِ راست پروازیں شروع کرنے کا اعلان

پروازوں کے علاوہ سعودی کمپنیاں ہوائی اڈوں اور زمینی خدمات میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہی ہیں، خاص طور پر جبکہ حکومت پاکستان اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈوں کی ترقی کے منصوبے رکھتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق سعودی کمپنیاں دلچسپی رکھتی ہیں، ایئرپورٹ لاؤنجز کے انتظام و انصرام میں، فضائی مال برداری اور لاجسٹکس میں، فضائی شعبے کے عملے کی تربیت اور فنی مہارت میں۔

حج اور عمرہ وہ سب سے بڑا عنصر ہیں جو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فضائی سفر کو بڑھاتے ہیں، کیونکہ ہر سال لاکھوں پاکستانی مناسک کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں۔ سعودی ایئرلائنز نے خصوصی پیکجز اور مقابلہ جاتی قیمتوں کے ذریعے حجاج اور عمرہ کرنے والوں کے سفر کو آسان بنایا ہے۔

اسی طرح پاکستانی سیاحت میں دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے، اور سعودی کمپنیاں پاکستانی سیاحتی مقامات جیسے سوات، اسکردو، ناران اور کاغان کو سیاحتی ایجنسیوں کے ساتھ شراکت کے ذریعے فروغ دے سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: فضائی حدود کی بندش: بھارت کو اب تک کتنے ملین ڈالر کا نقصان ہوچکا؟

فضائی شعبے میں تعاون سعودی وژن 2030 کے ساتھ مربوط ہے، جو مملکت کو عالمی نقل و حمل اور لاجسٹک خدمات کا مرکز بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اور پاکستان وژن 2025 کے ساتھ بھی، جو انفراسٹرکچر کی ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیتا ہے۔

امکان ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فضائی شعبے میں براہِ راست پروازوں اور مقامات کی تعداد میں اضافہ دیکھے گا، نئی سعودی کمپنیاں پاکستان کی فضائی مارکیٹ میں داخل ہوں گی، فضائی مال برداری اور لاجسٹک خدمات میں مشترکہ منصوبے ہوں گے۔

سعودی کمپنیوں کا پاکستان کے فضائی شعبے کے ساتھ تعاون صرف اقتصادی سرگرمی نہیں، بلکہ دونوں برادر ممالک کے تاریخی تعلقات کی توسیع ہے۔ جس طرح زمین پر مذہبی، ثقافتی اور اسٹریٹجک تعلقات نے انہیں جوڑا، وہ آج فضا میں بھی نئی شکل اختیار کر رہے ہیں، اور مستقبل کی ایک ہمہ جہت شراکت کا ماڈل قائم کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان سعودی عرب فضائی سفر

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان سعودی کمپنیاں اور پاکستان پاکستان کے اسلام آباد کے درمیان ممالک کے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔

اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔

ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔

قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''

انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔

اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔

انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں ہیلتھ کا بجٹ گیارہ سو 56 بلین روپے ہے، سید مصطفی کمال
  • پاکستانی سفیر کی سعودی شوریٰ کونسل کے سپیکر سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • سعودی عرب سے فنانسنگ سہولت، امارات سے تجارتی معاہدہ؛ پاکستانی روپیہ مستحکم ہونے لگا
  • بھارتی پروپیگنڈے کا نیا حربہ ناکام، اعجاز ملاح کا اعترافی بیان منظر عام پر، عطا تارڑ و طلال چوہدری کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • پاکستانی خلا باز جلد چینی اسپیس اسٹیشن پر جائیں گے
  • پاکستان امن کا خواہاں ہے، ہر حال میں اپنی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا دفاع کرے گا:ترجمان دفتر خارجہ
  • افغان مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ بہت بڑی کامیابی ہے: طلال چودھری
  • پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق، مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • لاکھوں نوجوانوں کو اے آئی کی مفت تربیت کیلئے سعودیہ بھجوائیں گے: وزیراعظم