سپریم کورٹ: چیک ڈس آنر کے دو مقدمات میں اہم فیصلے
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
سپریم کورٹ نے چیک ڈس آنر کے 2 علیحدہ مقدمات میں ملزمان علی رضا اور شکیل کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
جسٹس ملک شہزاد گھیبہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے علی رضا کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت صرف قانون اور میرٹ پر فیصلہ کرے گی، قرآن پر فیصلے نہیں ہوں گے۔
دوران سماعت فریقین کی باہمی رضا سے قرآن مجید عدالت میں لایا گیا، تاہم ملزم نے بعد میں قرآن کی شرط واپس لے لی۔
مزید پڑھیں: قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
دوسری سماعت میں پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم شکیل کے خلاف پہلے سے 10 مقدمات درج ہیں اور وہ سونے کے کاروبار میں دھوکا دہی میں ملوث ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنے مقدمات کے باوجود پولیس ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی۔ درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ صرف اپیل دائر کرنے سے ضمانت نہیں ملتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس ملک شہزاد گھیبہ چیک ڈس آنر سپریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس ملک شہزاد گھیبہ چیک ڈس آنر سپریم کورٹ سپریم کورٹ
پڑھیں:
ترکیہ: ہوٹل میں آگ لگنے سے 78 ہلاکتیں، ملزمان کو عمر قید کی سزا سنادی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: ترکیہ میں رواں سال کے آغاز پر ایک 12 منزلہ ہوٹل میں لگنے والی خوفناک آگ نے 78 قیمتی جانیں نگل لی تھیں، جن میں 34 معصوم بچے بھی شامل تھے۔
المناک واقعے میں 137 افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے کئی آج بھی جسمانی اور ذہنی صدمات سے گزر رہے ہیں۔ عدالت کی جانب سے اب اس کیس کا فیصلہ جاری کردیا گیا ہے، جس میں عدالت نے ہوٹل کے مالک سمیت 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
ترک عدالت کے فیصلے کے مطابق ہوٹل انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اور ناقص حفاظتی اقدامات اس حادثے کی بنیادی وجہ قرار پائے۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ ہوٹل میں ایمرجنسی انخلا کے راستے نہ تھے، فائر الارم سسٹم ناکارہ تھا اور عملہ بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت سے محروم تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ حادثہ انسانی غفلت، بے حسی اور منافع کے لالچ کا نتیجہ ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہوٹل کے اجازت نامے جاری کرنے والے سرکاری ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں میں ناکام رہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر سرکاری محکمے بروقت معائنہ کرتے اور حفاظتی معیارات پر عمل درآمد کو یقینی بناتے تو اتنی بڑی تباہی روکی جا سکتی تھی۔ عدالت نے انتظامی اہلکاروں کے کردار پر بھی سخت اظہارِ برہمی کیا اور حکومت کو مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے موثر قانون سازی کی سفارش کی۔
واضح رہے کہ صدر رجب طیب اِردوان نے بھی سانحے کے فوراً بعد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ حقائق سامنے لائے جا سکیں۔ واقعے کی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ہوٹل کی عمارت حفاظتی اصولوں کے برعکس تعمیر کی گئی تھی اور اس میں فائر سیفٹی سسٹم محض کاغذی کارروائی تک محدود تھا۔