مخصوص اہداف نہیں، گراؤنڈ میں 200 فیصد محنت کریں گے، افغان کپتان راشد خان کا بیان
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کے کوئی مخصوص اہداف نہیں ہیں۔ یہ بیان انہوں نے جمعرات کو شارجہ میں سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے آغاز سے قبل دیا۔
راشد خان نے کہا کہ ہمارے کوئی مخصوص اہداف نہیں ہیں اور ہم اپنے کھلاڑیوں پر غیر ضروری دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے۔ ہمارا اصل ہدف وہی کرکٹ کھیلنا ہے جو ہم گزشتہ برسوں سے کھیلتے آئے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم گراؤنڈ میں 200 فیصد محنت کریں۔
یہ بھی پڑھیے: کرکٹ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، بابر اعظم کی افغان ٹیم کو جیت پر مبارکباد
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ حالیہ مہینوں میں ٹیم نے ٹی 20 انٹرنیشنل نہیں کھیلا لیکن کھلاڑی دنیا بھر کی لیگز میں شرکت کے باعث بہترین فارم میں ہیں۔
افغانستان سہ فریقی ایونٹ کے افتتاحی میچ میں جمعہ کو پاکستان کے خلاف میدان میں اترے گا جبکہ متحدہ عرب امارات اس ایونٹ کی تیسری ٹیم ہے۔ یہ سیریز آئندہ ماہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ایشیا کپ کی تیاریوں کے لیے کھیلی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حارث رؤف سہ فریقی سیریز سے باہر، کیا چیمپیئنز ٹرافی کھیل پائیں گے؟
افغانستان نے گزشتہ سال امریکا اور کیریبین میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تھی اور 2025 میں پاکستان میں کھیلے گئے او ڈی آئی چیمپئنز ٹرافی میں آخری چار ٹیموں میں جگہ بنانے سے بالکل محروم رہ گیا تھا۔ اس سے قبل 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی افغانستان نے انگلینڈ، پاکستان اور سری لنکا کے خلاف یادگار فتوحات حاصل کی تھیں۔
واضح رہے کہ افغانستان نے 2023 میں شارجہ ہی میں پاکستان کو 3 میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں 2-1 سے شکست دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان کرکٹ ٹیم راشد خان سہ فریقی سیریز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان کرکٹ ٹیم
پڑھیں:
طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے سلامتی کونسل کو ملکی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ملک اور عالمی برادری کے مابین تعاون کی راہ نکال لی جائے گی جس سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال قبل جب وہ افغانستان پہنچیں تو وہاں عبوری حکام میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے۔
ایک حلقہ افغان عوام کی ضروریات کو ترجیح دینے کا حامی تھا تو دوسرا خالص اسلامی نظام کے قیام پر زور دیتا تھا جس نے عوام پر بہت سے پابندیاں نافذ کی ہیں۔(جاری ہے)
Tweet URLطالبان حکام کی جانب سے لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نے ایک پوری نسل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس سے ملک کو طویل المدتی طور پر بہت بھاری نقصان ہو سکتا ہے جبکہ ان پابندیوں سے افغان معاشرے میں شدید بے چینی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔
'یو این ویمن' کے مطابق افغان عوام کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالف ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے افغان معیشت کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
مثبت اشاریےانہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد قدرے مثبت پیش رفت کی نشاندہی بھی کی جس میں مسلح تنازع اور وسیع پیمانے پر تشدد میں نمایاں کمی بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصوں میں سلامتی کی صورتحال قدرے مستحکم ہو گئی ہے۔
2023 کے اوائل میں پوست کی کاشت پر عائد کی جانے والی پابندی بڑی حد تک برقرار ہے جس کے فوائد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کو بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
عام معافی کے حکم پر مجموعی عملدرآمد حوصلہ افزا ہے۔ ملک میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) اور عبوری حکام کے درمیان تعمیری روابط بھی موجود ہیں جن کے نتیجے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ٹیموں کو ملک کی تمام 34 جیلوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔
بحرانوں کا طوفاناوتونبائیووا نے کہا کہ مردوخواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں پر عائد کی جانے والی بڑھتی ہوئی پابندیوں اور ان پر عملدرآمد سے عوام میں عبوری حکام کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔
ملک کو رواں سال انسانی امداد میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کا سامنا ہے اور اگلے سال اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کٹوتیاں جزوی طور پر افغانستان کی خواتین مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
ملکی معیشت اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی کے نتیجے میں اس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کو خشک سالی اور دیگر موسمیاتی حوادث کا سامنا بھی ہے جس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ آئندہ برسوں میں 60 لاکھ آبادی پر مشتمل دارالحکومت کابل دنیا کا ایسا پہلا بڑا شہر بن سکتا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔
مسائل کے حل کی امیدرواں ماہ کے اختتام پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والی روزا اوتنبائیوا نے کہا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں خواتین ملازمین کی رسائی کو روکنے جیسے اقدامات سے اقوام متحدہ کی امدادی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ سلامتی کونسل طالبان حکام سے خواتین کے روزگار پر پابندی کے خاتمے کی اپیل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا جامع نقطۂ نظر واحد کثیرالجہتی فریم ورک مہیا کرتا ہے جو عالمی برادری اور عبوری حکام کے درمیان رابطے کا ذریعہ اور ایک ایسا سیاسی راستہ ہے جس کے ذریعے ان پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جو افغانستان کی عالمی نظام میں دوبارہ شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔