Express News:
2025-09-18@00:22:28 GMT

عوام کی کیوں نہیں سنی جاتی؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT

ایس ایس جی سی نے اوگرا سے پھر گیس کی قیمتوں میں اضافہ مانگ لیا اور لاہور میں منعقدہ اجلاس میں اوگرا نے کہا کہ گیس ٹیرف بڑھانا مجبوری ہے۔ فیصلہ کمپنیوں اور صارفین دونوں کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ کمپنیوں نے یہ اضافہ ٹرانسپورٹیشن کی مد میں مانگا ہے جو اوگرا سے 291 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مانگا گیا ہے جب کہ سی این جی اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر انڈسٹریل صارفین نے اس کی شدید مخالفت کی مگر اوگرا نے پہلے ہی واضح کر دیا کہ اضافہ مجبوری ہے۔

 اوگرا نے ہمیشہ گیس کمپنیوں کے مطالبے ہی کی حمایت کی اور کمپنیوں سے نہیں کہا کہ وہ اپنے اخراجات میں کچھ کمی کر لیں اور پہلے سے ہی مہنگی گیس کے بوجھ تلے دبے ہوئے صارفین پر مزید بوجھ نہ ڈالیں۔

اوگرا ہو یا نیپرا ان اداروں نے بجلی و گیس کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ مانگنے والے سرکاری اداروں ہی کی حمایت کی اور صارفین کے مفاد کو سامنے رکھنے کی، صرف بات کی، کبھی صارفین کے مفاد کو سامنے رکھا ہی نہیں جاتا، اگرکبھی صارفین کا مفاد ان کے مدنظر ہو تو وہ عوام کی مجبوری بھی سامنے رکھ کر اضافے پر اضافہ مانگنے پر انکار کر سکتے ہیں۔ سوئی گیس کی قیمت میں اضافہ ضرور ہوگا تو صارفین کا مفاد کہاں چلا جاتا ہے صرف عوام کو دلاسا دے کر اضافہ کمپنیوں کو ہی دیا جانا ہوتا ہے۔

دوران سماعت تمام صارفین گیس نے اضافے کی شدید مخالفت کی اور سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ کا کہنا تھا گیس کمپنیاں اپنے اخراجات کم کریں مگر وہ ایسا کرنے کی بجائے ہمیشہ سارا بوجھ صارفین پر ڈالتی رہی ہیں۔

پہلے 271 روپے اضافہ مانگا تھا اور اب 20 روپے ٹرانسپورٹیشن چارجز شامل کر کے قیمت مزید بڑھائی جا رہی ہے جس سے گیس مزید مہنگی ہوگی، جس کا اثر برا پڑے گا جب کہ ملک میں گیس وافر مقدار میں موجود ہے مگر صارفین کو گیس نہیں مل رہی جس کی وجہ سے گھریلو، کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور لوگ ایل پی جی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایل پی جی گیس مہنگی ہونے سے لوگوں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں ۔اب اگر سوئی گیس بھی مہنگی ہو جائے گی تو لوگوں کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔اجلاس میں متاثر ہونے والے اداروں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ گیس کی قیمت بڑھانے کی بجائے کم کی جائے۔

اوگرا، نیپرا و دیگر آئے دن نرخ بڑھانے والے سرکاری اداروں کے یہ ڈرامے اور عوام دشمنی سالوں سے جاری ہے۔ یہ ادارے دکھاوے کی سماعتیں کرتے ہیں جہاں کبھی عوام کی نہیں سنی جاتی اور فیصلہ ہمیشہ صارفین کے خلاف ہی آتا ہے اور نیشنل ہائی ویز اتھارٹی جیسے سرکاری ادارے تو یہ تکلف بھی نہیں کرتے اور من مانے طور پر ٹول و دیگر ٹیکس بڑھا دیتے ہیں۔ جس طرح وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

عالمی سطح پر نرخ کم ہونے پر عوام کو ریلیف دینے پر کوئی وزیر خزانہ یقین ہی نہیں رکھتا اور لیوی بڑھا کر حکومت کو فائدہ پہنچانا ان کا حکومتی فرض ہے، کسی وزیر خزانہ نے کبھی عوام کی نہیں سنی بلکہ عوام پر بوجھ وزرائے خزانہ ہی بڑھواتے آئے ہیں۔ جن میں اکثر غیر منتخب لوگ ہی رہے ہیں جنھیں عوام کا کبھی احساس نہیں رہا۔ انھیں عوام کی بجائے آئی ایم ایف اور حکمرانوں کا مفاد ہی عزیز رہا ہے یہ بھی کبھی عوام کی نہیں سنتے صرف اپنی من مانیوں کے عادی رہے ہیں۔

سیاسی حکومتیں کہنے کو عوام کی ہوتی ہیں جو عوام ہی کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں مگر بجٹ میں کبھی عوام کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ موجودہ حکومت نے 3 سالوں میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ بجلی، گیس کی قیمت بڑھانے میں دیرنہیں کی جاتی کمی کے وقت بھی کمی نہیں کی جاتی کہ آئی ایم ایف ناراض ہو جائے گا اور قرض نہیں ملے گا۔

ملک میں وافر مقدار میں گیس موجود ہے اور بجلی بھی مگر سیاسی حکومتوں نے بجلی کمپنیوں کو جس طرح نوازا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ سیاسی حکومتیں عوام کو نہیں بلکہ ارکان اسمبلی و سینیٹ، ججز، بیوروکریٹس ہی کو نوازتی آئی ہیں کیونکہ ان سے حکمرانوں نے فائدے لینے ہوتے ہیں جب کہ انھیں عوام کے پاس پانچ سال بعد جانا ہوتا ہے اور عوام انھیں ووٹ نہ بھی دیں یہ جیت ہی جاتے ہیں اور اقتدار میں آ جاتے ہیں۔

ماضی میں گیس کمپنیوں سے عوام کو شکایات کم اور بجلی کی زیادہ ہوتی تھیں مگر گیس کمپنیاں عوام کو لوٹنے، من مانیوں میں سب سے آگے ہیں جنھوں نے تحریک انصاف حکومت میں کروڑوں کے اضافی بل عوام سے جبراً وصول کیے تھے جو وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود واپس نہیں کیے گئے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گیس کی قیمت کبھی عوام عوام کی عوام کو ہے اور

پڑھیں:

دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی

ممبئی(شوبز ڈیسک) بھارتی ٹی وی کی مشہور اداکارہ دیشا وکانی نےمعروف ڈرامہ ”تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ“ میں دیا بین کا یادگار کردار نبھایا تھا لیکن وہ پچھلے سات سال سے شو سے غائب ہیں۔ان کے چہرے کے شرارتی تاثرات، منفرد لہجہ، دلچسپ گیربا ڈانس اور زبردست کامیڈی ٹائمنگ نے انہیں لاکھوں مداحوں کے دلوں میں بسا دیا۔

مداح کئی سالوں سے دیا بین کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب ان کے بھائی اور شو میں بھی ان کے بھائی کا کردار نبھانے والے اداکار مایور وکانی (سندر لال) نے خاموشی توڑ دی ہے اور بتایا ہے کہ دیشا اب اس ڈرامے میں واپس نہیں آئیں گی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مایور وکانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ،’میں دیشا سے دو سال بڑا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ اس نے کتنی محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ اسی لیے لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں۔ اب وہ اپنی فیملی کو وقت دے رہی ہیں اور اسی کردار کو پوری لگن سے نبھا رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے والد ہمیشہ سکھاتے تھے کہ زندگی میں بھی ہم اداکار ہی ہیں اور جو بھی کردار ملے، اسے دیانتداری سے نبھانا چاہیے۔ دیشا اب حقیقی زندگی میں ماں کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اسے بھی اسی لگن اور محنت سے نبھا رہی ہیں جس طرح وہ اداکاری کرتی تھیں۔‘

مایور نے مزید بتایا کہ ان کے والد ہی نے دیشا کو بچپن سے اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ’میں نے دیشا کی پہلی اسٹیج پرفارمنس دیکھی تھی جب وہ صرف پانچ سال کی تھیں اور بچوں کے شِبِر میں 90 سالہ خاتون کا کردار نبھا کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ تب ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اندر کچھ خاص ہے۔‘

مایور کا کہنا تھا کہ دیشا نے دیا بین کا کردار ایسے نبھایا کہ وہ گھر گھر کی پہچان بن گئیں اور ان کے والد کے لیے یہ کسی خواب کی تکمیل جیسا لمحہ تھا۔ لیکن اب دیشا سمجھتی ہیں کہ ماں کا کردار ان کی زندگی کا سب سے قیمتی کردار ہے۔

دیشا وکانی 2018 میں زچگی کی چھٹی پر گئی تھیں اور اس کے بعد واپس نہیں آئیں۔ شو کے پروڈیوسر اسِت مودی نے بھی مان لیا ہے کہ اب ان کے لیے شو میں واپس آنا مشکل ہے کیونکہ شادی کے بعد خواتین کی زندگی بدل جاتی ہے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ شوٹنگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیشا واپس نہ آئیں تو انہیں کسی اور اداکارہ کو دیا بین کے کردار کے لیے لینا پڑے گا۔

اگرچہ دیشا وکانی کی غیر موجودگی مداحوں کو محسوس ہوتی ہے، لیکن تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ اب بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔

یہ شو 17 سال سے نشر ہو رہا ہے اور اب تک 4500 سے زائد اقساط مکمل کر چکا ہے۔

اب کہانی صرف ایک کردار پر نہیں بلکہ گوکلدھم سوسائٹی کے تمام رہائشیوں کی زندگیوں اور مسائل کے گرد بھی گھومتی ہے جو ڈرامہ کو نیا رنگ اور تازگی بخش رہا ہے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • حکومت کی اوگرا اور کمپنیوں کو گیس کنکشنز کی پروسیسنگ فوری شروع کرنے کی ہدایت
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • نواز شریفن کی ایک مرتبہ پھر لاہور سے لندن روانگی
  • نواز شریف غیر ملکی ایئرلائن کے ذریعے لاہور سے لندن روانہ