چین کا دنیا کا بلند ترین اور سب سے طویل پہاڑی پُل ’’ہواجیانگ گرینڈ کینین برج‘‘ تیار
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
بیجنگ: چین نے دنیا کے بلند ترین اور سب سے طویل پہاڑی پُل ’’ہواجیانگ گرینڈ کینین برج‘‘ (Huajiang Grand Canyon Bridge) پر کامیاب لوڈ ٹیسٹ مکمل کر لیا۔
یہ پُل صوبہ گوئی چو (Guizhou) میں بنایا گیا ہے اور اسے انجینئرنگ کا بڑا کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔
لوڈ ٹیسٹ
96 ٹرک ایک ساتھ پُل پر کھڑے اور رواں کیے گئے۔
ٹرکوں کا مجموعی وزن 3,300 ٹن تھا۔
ٹیسٹ پانچ دن تک جاری رہا۔
ماہرین نے اسے مکمل کامیاب قرار دیا۔
اہم خصوصیات
لمبائی2,890 میٹر
دریا سے بلندی: 625 میٹر
دنیا کا بلند ترین پُل
پہاڑی علاقے میں سب سے طویل پُل
متوقع اثرات
پُل کو ستمبر کے آخر میں عام ٹریفک کے لیے کھول دیا جائے گا۔
مقامی ٹریفک کو بڑی سہولت ملے گی۔
یہ پُل بین الاقوامی سطح پر سیاحتی مقام بھی بنے گا۔
خطے کی معیشت اور سیاحت دونوں کو فائدہ ہوگا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظہبی کے تاریخی جزیرے سر بنی یاس پر ماہرینِ آثار قدیمہ نے ایک غیر معمولی دریافت کی ہے جس نے اس خطے کی قدیم تاریخ کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔
حالیہ کھدائی کے دوران تقریباً 1400 سال پرانی ایک مسیحی صلیب برآمد ہوئی ہے جسے ماہرین ساتویں یا آٹھویں صدی کا قرار دے رہے ہیں۔ اس دریافت نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ان علاقوں میں صدیوں پہلے مسیحی کمیونٹیز نہ صرف موجود تھیں بلکہ انہوں نے عبادت، خانقاہی زندگی اور مذہبی رسومات کو باقاعدگی سے اپنایا ہوا تھا۔
یہ کھدائی جنوری میں شروع کی گئی تھی اور تقریباً 3 دہائیوں بعد اس جزیرے پر آثار قدیمہ کی پہلی بڑی مہم ہے۔ صلیب پلاسٹر پر بنی ہوئی ہے اور اس کا سائز تقریباً 27 سینٹی میٹر لمبا، 17 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 سینٹی میٹر موٹا ہے۔
اسے ایک ایسے مقام پر دریافت کیا گیا ہے جو ایک صحن نما مکانات کے قریب ہے، جنہیں خانقاہ یا دیر کے شمالی حصے میں بزرگ راہب اور تنہائی پسند عبادت گزار استعمال کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صلیب کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے میں ابتدائی مسیحی برادریاں خاص طور پر مشرقی مسیحیت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیاں آباد تھیں۔ وہ یہاں عبادت اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تھلگ خانقاہی طرزِ زندگی گزارتے تھے۔ اس دریافت کو خلیجی خطے کی مذہبی و ثقافتی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جا رہا ہے۔
آثار قدیمہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں خطے کی قدیم تہذیب اور مختلف مذاہب کے درمیان روابط کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
متحدہ عرب امارات اپنی تاریخی و ثقافتی وراثت کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے ہی کئی اقدامات کر چکا ہے اور سر بنی یاس پر یہ نئی کھوج اس سمت میں ایک اور سنگ میل سمجھی جا رہی ہے۔