وفاقی حکومت نے لاپتا افراد کے اہل خانہ کو قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جس کا مقصد جبری گمشدگیوں کے کیسز میں متاثرہ خاندانوں کو درپیش قانونی مسائل کا حل نکالنا ہے۔
حکام کے مطابق یہ کمیٹی اُن خاندانوں کو قانونی سہولت فراہم کرے گی جن کے مقدمات فیملی لا کے معاملات کے تحت کمیشن آف انکوائری آن ان اینفورسڈ ڈس اپیئرنسز (COIED) میں زیرِ سماعت ہیں۔ یہ کمیشن 2011 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ لاپتا افراد کا سراغ لگایا جا سکے اور اُن افراد یا اداروں کی نشاندہی کی جا سکے جو ان گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں۔
2025 کی پہلی ششماہی کے دوران کمیشن کو 125 نئے کیسز موصول ہوئے، جبکہ مجموعی طور پر جون 2025 تک موصول ہونے والے کیسز کی تعداد 10,592 تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے 1,914 کیسز کو نمٹا دیا گیا، جب کہ 6,768 افراد کو ٹریس کیا جا چکا ہے۔
شناختی دستاویزات جیسے مسائل پر بھی مدد ممکن
پریس ریلیز میں کہا گیاکہ اگر لاپتا افراد کے اہل خانہ کو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ یا ب فارم کے حصول میں مسائل درپیش ہیں، تو وہ اپنی شکایات تحریری طور پر خصوصی کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں۔
متاثرہ افراد اسلام آباد میں COIED کی اسسٹنٹ رجسٹرار سعدیہ راشد سے کسی بھی ورکنگ ڈے پر ڈائریکٹوریٹ جنرل سول ڈیفنس کی عمارت میں ملاقات کر کے اپنے مسائل جمع کرا سکتے ہیں۔
عدالتی اور حکومتی چیلنجز
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں عدالتوں کو ریاست اور قانون ساز اداروں کی طرف سے مکمل تعاون نہ ملنے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وزیر قانون نے اس موقع پر یاد دلایا کہ گزشتہ برس حکومت نے لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے 50 لاکھ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت انہیں نہ صرف مالی امداد بلکہ قانونی معاونت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

حب میں قائم فیکٹری مقامی افراد کو روزگار فراہم کرے‘ سلیم خان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی ( پ ر) حب میں نجی سیمنٹ فیکٹری بھاری منافع کما نے کے باوجود مقامی افرادکو آبادی کے تناسب سے روزگاردیتی ہے نہ ہی کوئی اور فلاحی کام کرتی ہے جبکہ فیکٹری کے زیرانظام چلنے والے اسکول میں بچوں کوبھی بھی کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ ساکران کی سماجی شخصیت سلیم خان نے یہاں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ نجی فیکٹری کے حب میں قائم پلانٹ ماہانہ اربوں روپے کامنافع کماتے ہیں مگر فیکٹری کی انتظامیہ قریبی آبادی کوکسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کرتی۔ گوٹھ محمد رمضان مری میں فیکٹری کے زیرانتظام چلنے والے اسکول کے ساتھ تعاون بھی ختم کردیا ہے۔ انہو ں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ، صوبائی وزیر زراعت میر علی حسن زہری اور ضلعی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر حب نثار احمد لانگو سے خصوصی اپیل کی ہے کہ فیکٹری کومقامی آبادی کو روزگار دینے اور اسکول کو دوبارہ فعال کرنے پر مجبور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرہماری دادرسی نہ کی گئی تو ہم لوگ بچوں سمیت فیکٹری انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کریں گے۔ سلیم خان نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی میں کام کرنے والے اکثر مقامی ورکرز کو نام نہاد ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہیں‘ ان تمام ورکرز کو کمپنی انتظامیہ لیبر قوانین کے مطابق کسی قسم کی بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ فیکٹری انتظامیہ سو سوشل ویلفیئر اور ای او بی آئی کے مد بھی ہیر پھیر کرکے گورنمنٹ کو کروڑوں روپے کا چونا لگا رہی ہے جبکہ لیبر، ای او بی آئی سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کا فیکٹری میں کام کرنے والے ورکرز کے ساتھ ہونے والے ناانصافی پر مکمل چپ سادھ رہنا اور مکمل خاموشی اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حب میں قائم فیکٹری مقامی افراد کو روزگار فراہم کرے‘ سلیم خان
  • حکومت جامعہ پنجاب میں طلبہ پر تشدد کا فوری نوٹس لے‘ حسن بلال ہاشمی
  • 5 ویں جماعت کے لاپتا طالبعلم پر چرس کا مقدمہ قائم
  • سکھر چیمبر آف کامرس میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسر اجلاس
  • نبی کریمﷺ کی تعلیمات پرعمل کرکے امن قائم کیاجاسکتا ہے،مولاناعتیق
  • وزیراعظم نے جاپان کے ساتھ صنعتی تعاون بڑھانے کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر دی
  • وزیرِ اعظم کیلئے سعودی عرب کا خصوصی پروٹوکول، سعودی فضائی حدود میں پہنچنے پر تاریخی استقبال
  • این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
  • دبئی میں ملازمت کے متلاشی افراد کے لیے خصوصی ویزا کا اجرا، کفیل کی ضرورت نہیں ہوگی
  • کانگو میں دو خوفناک کشتی حادثات میں 193 ہلاکتیں، درجنوں لاپتہ