معلومات تک رسائی کا حق
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
’’ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ نعرے کی بنیاد پر عوام کے دلوں میں راج کرنے والی پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین اس جستجو میں ہیں کہ منتخب اراکین کے اثاثوں کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کرنے کے قانون میں ترمیم کی جائے۔ قومی اسمبلی کی پارلیمانی امورکی اسٹینڈنگ کمیٹی میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری اور نوید قمر نے یہ تجویز پیش کی کہ الیکشن کمیشن ایکٹ کی دفعہ 138 میں ترمیم کی جائے۔
الیکشن کمیشن ایکٹ کی اس دفعہ کے تحت تمام منتخب اراکین اپنے اور اپنے بچوں کے اثاثہ جات کی تفصیلات ہر سال 31 دسمبر تک الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرنے کی پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن یہ تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر جاری کرتا ہے اور ہر شخص یہ جان سکتا ہے کہ اس نے جس رکن کو منتخب کیا ہے، اس کے مالیاتی حالات کیسے ہیں۔ اگر کوئی رکن مقررہ وقت پر یہ تفصیلات الیکشن کمیشن کو مہیا نہیں کرتا تو الیکشن کمیشن اس رکن کی رکنیت معطل کرتا ہے۔
قومی اسمبلی کی اس اسٹینڈنگ کمیٹی میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے اراکین نے اس تجویزکی مخالفت کی۔ پیپلز پارٹی کے جن دو ارکان اسمبلی نے ترمیم کی تجویز پیش کی ہے ، ان کا موقف یہ ہے کہ جس طرح سول سروس ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی ہے، اس ترمیم سے قبل گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے سرکاری ملازمین اپنے اور اپنے بچوں کے ملک میں اور بیرونِ ملک میں موجود اثاثہ جات ظاہر کرنے کے پابند ہیں مگر نئی ترمیم کے تحت اگر کوئی سرکاری ملازم یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اثاثہ جات ظاہر ہونے سے اس کی جان کو خطرہ ہے تو وہ اپنے شعبے کے سربراہ سے یہ درخواست کرسکتا ہے کہ اس کے اثاثہ جات کو عوام کے سامنے ظاہر نہ کیا جائے لہٰذا اسی طرح کا تحفظ عوامی نمایندوں کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔
سرد جنگ کے دوران امریکا اور اتحادی ممالک نے پاکستان اور دیگر ممالک کو اربوں روپے کی امداد دی تھی۔ اس امداد کی شفافیت اس وقت کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں تھا مگر گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں سرکاری اداروں کی شفافیت ایک اہم موضوع بن گیا تھا۔ کئی ماہرین معاشیات کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ترقی کے اہداف پورے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ غیر شفاف نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی صد ی کے آغاز کے ساتھ عوام کے جاننے کا حق Right to know مسلمہ حقیقت کے طور پر سامنے آیا۔
1988ء میں ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاالحق اور ان کے ساتھیوں کی اموات کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ ان کی حکومت 18 ماہ تک جاری رہی۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان جو پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوئے تھے نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر برطرف کردیا۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت باقاعدہ مہم چلائی گئی۔
اس کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت برسرِ اقتدار آئی ۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں اختیارات کے استعمال پر تنازعے کے نتیجے میں صدر غلام اسحاق نے یہ حکومت بھی توڑ دی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔ ڈاکٹر معین قریشی کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہوئی۔ ڈاکٹر معین قریشی کے 100دن کے دوران کئی ادارہ جاتی فیصلے ہوئے۔
اس حکومت نے ایک جدید نظامِ حکومت کے خدوخال پر کچھ کام کیا مگر پھر بے نظیر بھٹو دوبارہ برسر اقتدار آئیں۔یوں نظامِ حکومت کی شفافیت کا معاملہ پسِ پشت چلا گیا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسی زمانے میں جنرل حمید گل کی ایماء پر عمران خان سیاست میں نمودار ہوئے۔ حمید گل کی کوشش تھی کہ عمران خان اور عبدالستار ایدھی پیپلز پارٹی کی حکومت کی کرپشن کے خلاف ایک تحریک کی قیادت کریں مگر عبدالستار ایدھی اچانک لندن چلے گئے اور اس سازش کو آشکار کردیا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کی شفاف شخصیت کو نوجوانوں کے ذہنوں میں جگہ بنانے کے منصوبہ کا آغاز ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کے صدر فاروق خان لغاری نے کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات پر اپنی پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کردیا۔ آصف زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہنماؤں کو کرپشن کے مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ میاں نواز شریف ایک دفعہ پھر برسر اقتدار آگئے مگر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ میاں نواز شریف حکومت کے خلاف بھی کرپشن کے تحت الزامات لگائے گئے۔ جمہوری اداروں اور عوام کے درمیان حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے جمہوری ممالک میں جاننے کے حق Right to know کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا گیا مگر 1988ء سے 1999ء تک برسرِ اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے جاننے کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے قانون سازی نہیں کی۔
جب پیپلز پارٹی کے رہنما ملک معراج خالد عبوری وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو معروف قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے کچھ عرصے کے لیے وزیر قانون کے فرائض انجام دیے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے جاننے کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیارکیا تھا۔ عبوری حکومت کے آخری دن یہ مسودہ ایک آرڈیننس کی صورت میں نافذ ہوا مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے آرڈیننس کو ایکٹ کی شکل نہیں دی ۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں بے نظیر بھٹو ملک سے باہر چلی گئیں اور میاں نواز شریف نے بھی جلا وطنی اختیار کی۔
اس دور میں دونوں رہنماؤں نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ عوام کے جاننے کے حق کو آئینی شکل دی جائے، بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت میں یہ شق شامل تھی کہ عوام کے جاننے کے حق کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے بعد منتخب اراکین اور سول سروس کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کے بارے میں جامع قانون سازی ہوئی۔
18ویں ترمیم میں آرٹیکل 19-A کے تحت عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت وفاق اور صوبوں میں انفارمیشن کمیشن قائم ہوئے۔ منتخب نمایندے تو عوام کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے اثاثہ جات ظاہرکرتے ہوئے کیوں پریشانی ہوتی ہے؟ وہ اپنے اثاثے ظاہر کر کے تو عوام کے دل جیت سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے ساری تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔ انھوں نے برطانیہ کے منتخب نمایندوں کی شفاف نظامِ حکومت کی سیاست کی مثالوں کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا۔ گزشتہ ماہ برطانیہ کی اینٹی کرپشن کی وزیر Tulips Siddiqui نے کرپشن کے الزامات لگنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا مگر اس ملک کا یہ المیہ ہے کہ منتخب نمایندے زیادہ سے زیادہ نظامِ حکومت کو شفاف بنانے اور اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرنے کے بجائے اپنے ذاتی تحفظ کے لیے قانون سازی چاہتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرپشن کے الزامات اثاثہ جات ظاہر میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے پیپلز پارٹی کی جاننے کے حق کو عوام کے جاننے الیکشن کمیشن منتخب اراکین کے اثاثہ جات بے نظیر بھٹو ن کی حکومت مسلم لیگ ن کے سامنے ترمیم کی کرنے کے کی شفاف کے لیے کے تحت
پڑھیں:
آزاد کشمیر میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد تعطل کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد کشمیر میں وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد مسلسل تاخیر کا شکار ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آج بھی یہ تحریک پیش نہیں کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اب تک اس بات پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی کہ تحریک عدم اعتماد کس روز پیش کی جائے۔ فارورڈ بلاک سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے بعض اراکین بھی صورتحال پر پریشان ہیں اور انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ پارٹی میں شمولیت شاید جلد بازی میں کی گئی۔ پارٹی ارکان کی جانب سے قیادت سے یہ بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ حلقوں میں ووٹرز اور کارکنوں کو کیا جواب دیا جائے۔
ادھر پیپلز پارٹی کے کئی ارکان کشمیر ہاؤس میں موجود ہیں اور حتمی فیصلے کے منتظر ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے آخری فیصلہ بلاول بھٹو زرداری ہی کریں گے اور آئندہ تین سے چار دن تک تحریک پیش کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے وزیراعظم انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اتفاق تو کر لیا ہے تاہم مسلم لیگ ن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ حکومت سازی میں پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں دے گی۔ اگر پیپلز پارٹی کے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے تو حکومت بنانا اسی کا حق ہے، جبکہ ن لیگ نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔