موسمیاتی تبدیلی اب محض سائنسی اصطلاح یا تحقیقاتی مقالوں کا موضوع نہیں رہی، یہ ناقابلِ انکار سچ بن چکا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین کئی دہائیاں پہلے اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے کہ اگر انسان نے اپنے طرزِ زندگی، وسائل کے استعمال اور زمین کے ساتھ برتاؤ کو تبدیل نہ کیا تو موسموں کا توازن بگڑ جائے گا، برفانی تودے پگھل جائیں گے، بارشوں کا نظام غیر متوقع ہو جائے گا اور زمین پر زندگی کے آثار شدید خطرات سے دوچار ہوں گے۔
یہ تمام پیش گوئیاں اب حقیقت بن چکی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک نے اپنی پالیسیاں تبدیلیاں کیں، فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین سخت کیے گئے اور درختوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سخت سزائیں نافذ کی گئیں۔ لیکن ہمارے ہاں حسبِ روایت سیمینارز اور تقریبات میں تقاریر تو ہوئیں، رپورٹس بھی تیار کی گئیں لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہ آئے۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کبھی سیلاب کی تباہ کاریاں، کبھی خشک سالی ، کبھی گرمی کی شدت اور کبھی زمینی کٹاؤ ، ہم ہر سال نئی آفتوں کا سامنا کرتے ہیں اور ہر بار بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔
یورپی ممالک میں درختوں اور سبزے کی کثرت نے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہاں درخت کاٹنے کے لیے ایک طویل اور سخت قانونی عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور حکومتی نمایندے مکمل تسلی کے بعد ہی اجازت دیتے ہیں۔
اپنے پاکستان کا منظرنامہ بہت ہی بھیانک ہے۔ حالیہ سیلاب کے پانی میں درختوں کے بڑے بڑے تنے ہر طرف بہتے دکھائی دیے۔ یہ وہ درخت تھے جو جنگلوںسے کاٹ کر رکھے گئے تھے تاکہ فروخت کیے جا سکیں۔ حکومت کبھی کبھار لکڑی کی نقل و حرکت پر پابندی تو عائد کر دیتی ہے لیکن یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ درخت کاٹے ہی کیوں جائیں؟ درختوں کی اہمیت محض سایہ یا لکڑی تک محدود نہیں۔ یہ درجہ حرارت کو متوازن اور بارش کے پانی کے ریلوں کو روکنے کے لیے فطری بند کا کردار ادا کرتے ہیں اور پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے پتھروں کو اپنے مضبوط تنوں سے تھام لیتے ہیں۔
یوں یہ قدرتی فلٹر سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں حالیہ تباہی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ سیلابی پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والے پتھر اپنی راہ میں رکاوٹ نہ پانے کے باعث بستیاں اجاڑتے گئے۔یقیناً قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا لیکن عقل، منصوبہ بندی اور تدبر کے ذریعے ان کے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب کا حال دیکھ لیجیے۔
بڑے شہروں کے اطراف میں کبھی سرسبز کھیت لہلہاتے تھے جو نہ صرف غذائی اجناس فراہم کرتے بلکہ فضا کو شفاف بھی رکھتے۔ آج ان کھیتوں کی جگہ کنکریٹ کے جنگل نے لے لی ہے۔ رہائشی کالونیاں اس بے دردی سے تعمیر کی گئیں کہ بارش کا پانی جو کبھی زمین میں جذب ہو جاتا تھا، اب سیلابی ریلوں کی شکل میں شہروں کا رخ کرتا ہے۔ چند افراد تو اس کھیل میں کھربوں پتی بن گئے مگر شہروں سے کھیتوں سے آنے والی سوندھی مٹی کی خوشبو اور تازہ ہوا چھن گئی۔
پطرس بخاری نے جب امریکا سے اپنے دوست صوفی تبسم کو خط میں پوچھا کہ ’کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے؟‘تو شاید وہ یہ سوچ بھی نہ سکے ہوں گے کہ آنے والے برسوں میں ہم راوی کے بیچوں بیچ محلات تعمیر کر لیں گے اور شاید پھرراوی مغلوں کی شان میں یہ گستاخی برداشت نہ کر سکا اور اپنی بے رحم موجوں سے ان محلات کو تہس نہس کر دیا۔ گویا ہم نے اپنی تاریخ اور فطرت دونوں کے ساتھ بے وفائی کی اور آج اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ملک بھر میں موجودہ سیلاب کے بعد یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے کہ ہمیں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیم تعمیر کرنا ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر بار یہ معاملہ سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جب بھی کسی حکمران نے دریاؤں پر بند باندھنے کی بات کی، مخالفت کا طوفان کھڑا ہو گیا اور منصوبہ کاغذوں میں دب کر رہ گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ملک کی تباہی دیکھ سکتے ہیں، کسانوں کی بربادی برداشت کر سکتے ہیں، شہروں کو ڈوبتا ہوا دیکھ سکتے ہیں لیکن اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے تیار نہیں۔پاکستان میں اب تک جتنے بڑے ڈیم بنے، وہ فوجی ادوار میں ممکن ہوئے۔
کاش کہ آج کے حکمران بھی اسی جرات کا مظاہرہ کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے پانی محفوظ کرنے کا اہتمام کر جائیں ۔ سیاستدان اپنی سیاست چمکاتے رہیں گے لیکن اگر ہم نے ریاست کو بچانا ہے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ریاست کی بقاء سیاست سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر ہم نے آج بھی ڈیم نہ بنائے، درخت نہ بچائے اور زمین کو بے دریغ بیچتے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ تاریخ ہمیں ایک ایسی قوم کے طور پر یاد کرے گی جو اپنی زمین اور اپنے موسموں کی دشمن خود بنی اور پھر اپنی ہی کوتاہیوں کے بوجھ تلے دب گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
کراچی:امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ کراچی میں قبضے کی سیاست جاری ہے، 17 سال میں پیپلز پارٹی نے کراچی کیلئے کچھ نہیں کیا، 400 بسیں لاکر بے وقوف بنایا جارہا ہے، سڑکیں ٹھیک نہیں اور بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں۔
ٹاؤن میونسپل کارپوریشن نارتھ ناظم آباد کے تحت بارہ دری پارک بلاک اے میں ترقیاتی منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ لاہور میں چالان 200 روپے اور کراچی میں 5 ہزار روپے ہے، کراچی میں قبضے کی سیاست جاری ہے، گاؤں اور دیہات پر قبضے کے بعد شہروں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو کڑی تنقید کر نشانہ بناتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنے ٹاؤنز میں اختیارات سے بڑھ کر کام کررہی ہے، سیوریج اور کچرے کا کام بھی ٹاؤن کررہا ہے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے پاس گھر سے کچرا اٹھا کر لینڈ فیلڈ سائیٹ تک پہنچانے کا پورا میکنزم موجود ہے، گھر سے جو کچرا اٹھایا جاتا ہے اس کے پیسے لوگ خود ادا کرتے ہیں، کچرا اٹھانے کا اختیار بھی سندھ حکومت کے پاس ہے، ابھی تک پیپلزپارٹی نے ٹاؤن کو اختیارات منتقل نہیں کئے۔
انہوں نے کہا کہ سٹی وارڈنز کو استعمال کرکے کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، ٹاؤنز کو کام کرنے سے روکا جارہا ہے، کراچی کے بڑے منصوبے 12 سے 15 سال تاخیر کا شکار ہیں، پیپلزپارٹی نے دھاندلی کرکے اپنا مئیر بنایا، بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی سیٹیوں میں من پسند حلقہ بندیوں کی وجہ سے اضافہ ہوا، بلدیاتی انتخابات جیت کرلوگ کہتے تھے اختیارات ملیں گے نہیں تو کام کیسے کریں گے، نارتھ ناظم آباد کے ٹاؤن چیئرمین کومبارک باد پیش کرتا ہوں مشکل وقت میں بہترین منصوبہ بندی کی۔