اسرائیل نے غزہ شہر (شمالی غزہ) میں زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے جس کے لیے ہزاروں فوجی ریزروسٹ کو طلب کیا گیا ہے۔ تاہم متعدد ریزروسٹ نے تاخیر سے رپورٹ کیا یا ذاتی وجوہات کی بنیاد پر استثنیٰ مانگا ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ اسرائیل کی تاریخ میں ریزرو فورسز کا سب سے بڑا بلاوہ ہے جس میں تقریباً 60 ہزار اہلکاروں کو طلب کیا گیا جن میں سے 40 سے 50 ہزار منگل کے روز بلائے گئے۔

یہ بھی پڑھیے: بیلجیم نے فلسطین کو تسلیم کرنے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا

بہت سے ریزروسٹ اسکول سیشن کے آغاز جیسے ذاتی مسائل کے باعث ڈیوٹی پر نہ پہنچ سکے جبکہ سینکڑوں نے ڈیوٹی سے انکار کرتے ہوئے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ شہر کو غیر قانونی طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔

وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ویڈیو بیان میں کہا کہ ہم ایک مضبوط اور برحق جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم ایک لمحے کے لیے بھی 7 اکتوبر کو بھول نہیں سکتے جب ہمارے خلاف خواتین کی بے حرمتی ہوئی، بچوں کو جلایا گیا اور درجنوں افراد کو اغوا کر کے غزہ کی سرنگوں میں لے جایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے اثرات حزب اللہ، حماس اور یمن کے حوثیوں تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن جو جنگ غزہ سے شروع ہوئی ہے اسے غزہ ہی میں ختم ہونا چاہیے۔

ریزروسٹ کے سست ردعمل کی وجہ سے بعض یونٹوں میں اہلکاروں کی تعداد کم ہے تاہم رضاکاروں نے اس خلا کو پُر کرنے میں مدد دی ہے۔

غزہ شہر پر اسرائیلی افواج کی پیش قدمی جاری ہے۔ فضائی اور توپخانے کی شدید بمباری کے بعد منگل کی رات سے اب تک 50 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 20 ہزار شہری غزہ شہر سے نکل چکے ہیں لیکن اب بھی ایک ملین افراد شہر میں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شدت، نیتن یاہو کی کابینہ کا غزہ کو قبضے میں لینے پر غور

دوسری جانب فرانسیسی وزیراعظم ایمانوئل میکرون نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل فلسطینی عہدیداروں پر ویزہ پابندی ختم کرے۔ اجلاس 9 ستمبر کو نیویارک میں شروع ہوگا۔

میکرون اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 22 ستمبر کو ایک کانفرنس کی مشترکہ صدارت کریں گے جس میں دو ریاستی حل پر غور کیا جائے گا۔ فرانسیسی وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینیوں کو ویزا نہ دینا ناقابل قبول ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل جنگ ریزرو فورس غزہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل ریزرو فورس

پڑھیں:

روسی خواتین ماں بننے سے گریزاں، اربوں روبل کے ترغیباتی پروگرام ناکام

روسی حکومت کی جانب سے اربوں روبل کے مالیاتی پروگراموں، خاندانی اقدار کے فروغ کی بھرپور مہم اور والدین بننے کے لیے مختلف ترغیبات کے باوجود، روس میں پیدا ہونے والے بچوں کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ صورتحال اب ایک سنگین آبادیاتی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے روسی حکومت ملک میں آبادی بڑھانے کے لیے متحرک، نئی تجاویز سامنے آگئیں

اس ماہ کے آغاز میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ ’خاندانی نظام کی معاونت‘ اور شرحِ پیدائش میں اضافہ روس کے تمام قومی منصوبوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’باپ بننا اور ماں بننا خوشی ہے، اور خوشی کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔‘

شرحِ پیدائش تاریخی نچلی سطح پر

روس کی شرحِ پیدائش جدید تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ملکی شماریاتی ادارے روسٹاٹ کے مطابق، کل زرخیزی کی شرح  اس وقت 1.41 ہے، یعنی ایک عورت اپنی پوری زندگی میں اوسطاً صرف 1.41 بچے پیدا کر رہی ہے۔
یہ شرح اس سطح سے کہیں نیچے ہے جس پر آبادی کا توازن برقرار رہتا ہے۔

2024 میں روس میں قدرتی آبادی میں کمی یعنی پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کا فرق 5 لاکھ 96 ہزار سے زائد رہی۔
اس سال صرف 12 لاکھ 20 ہزار بچے پیدا ہوئے، جو گزشتہ سال سے 3.4 فیصد کم تھے۔
ماہرین کے مطابق اس سے قبل اتنی کم پیدائش صرف 1999 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔

آبادی میں کمی کے اثرات

پیدائش کی کم شرح سے آبادی میں کمی، عمر رسیدہ آبادی، مزدوروں کی قلت اور پینشن و صحت کے اخراجات میں اضافہ جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے فوجی شوہروں کی عدم موجودگی میں بچوں کی پیدائش کا روسی منصوبہ کیا ہے؟

اگرچہ یہ اثرات ابھی مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوئے، لیکن ماہرین کے مطابق روس ایک طویل مدتی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی زرخیزی کی شرح میں کمی دیکھی جا رہی ہے
یورپی یونین میں یہ شرح 1.38 اور امریکا میں 1.59 ہے۔

روس کے مختلف علاقوں میں صورتحال مختلف

روس کے تمام خطوں میں شرحِ پیدائش یکساں نہیں۔
بعض علاقوں میں مذہبی و ثقافتی روایات کے باعث شرح زیادہ ہے۔
مثلاً:

چیچنیا: 2.7

توا: 2.3

یامل نینیتس: 1.9

الٹائی: 1.8

انگوشیتیا: 1.8

یہ شرح ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔

اس کے برعکس لینن گراڈ ریجن (0.89)، موردوویا (0.99) اور سیواستوپول (1.0) میں زرخیزی کی شرح سب سے کم ہے۔

ماہرین کے مطابق بعض علاقوں، خاص طور پر وسطی اور شمال مغربی روس، میں عورتیں بچے پیدا کرنے کے حوالے سے زیادہ محتاط ہیں، جس کی وجوہات میں معاشی دباؤ، رہائشی مسائل، اور جنگی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔

حکومت کے مالیاتی اقدامات

روس نے گزشتہ چند برسوں میں شرحِ پیدائش بڑھانے کے لیے کئی مالیاتی پروگرام متعارف کروائے ہیں۔
اہم اقدامات میں شامل ہیں:

میٹرنٹی کیپیٹل پروگرام: پہلے یا دوسرے بچے کی پیدائش پر 6.9 سے 9.1 لاکھ روبل (8,700 سے 11,500 ڈالر) تک کی رقم۔

گھروں اور گاڑیوں کے لیے رعایتی قرضے۔

زیادہ بچوں والے خاندانوں کو ٹیکس میں چھوٹ۔

حاملہ خواتین کو ماہانہ وظائف۔

روایتی اقدار کی تشہیر

مالی ترغیبات کے ساتھ ساتھ روسی حکومت نے ’روایتی خاندانی اقدار‘ کے فروغ کے لیے ایک شدید مہم بھی شروع کی ہے۔
حکومت مغرب کی ’بے راہ روی‘ کے مقابلے میں ’اخلاقی خاندانی نظام‘ کو روسی شناخت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

اسی مہم کے تحت چائلڈ فری نظریات کو فروغ دینے پر بھاری جرمانوں کا قانون منظور کیا گیا ہے۔
27 روسی علاقوں میں ایسے قوانین نافذ ہو چکے ہیں جن کے تحت کسی عورت کو اسقاط حمل پر آمادہ کرنا یا اس سے متعلق معلومات فراہم کرنا بھی قابلِ سزا جرم ہے۔

ماہرین کا مؤقف: ’روایتی مہم مؤثر نہیں‘

ماہر سلاوت ابیلکالیف کے مطابق، روایتی اقدار کی مہم کا کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا، ’یہ اقدامات بظاہر تو سرگرمی دکھانے کے لیے ہیں، لیکن عملی طور پر مؤثر نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شرحِ اسقاط حمل پہلے ہی کم ہو رہی تھی اور حکومت کے اقدامات سے اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

دوسرے ماہر الیگسی راکشا نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد زیادہ تر ’پیدائش کے وقت کو تبدیل کرنا‘ ہے یعنی خاندان پہلے سے طے شدہ منصوبے سے پہلے بچے پیدا کر لیتے ہیں، لیکن بچوں کی کل تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا۔

جنگ اور پابندیوں کے اثرات

ماہرین کے مطابق یوکرین جنگ، مغربی پابندیوں، اور معاشی غیر یقینی صورتحال نے روسی عوام میں طویل مدتی منصوبہ بندی کو متاثر کیا ہے۔

راکشا کے مطابق، جنگ نے براہِ راست شرحِ پیدائش پر زیادہ اثر نہیں ڈالا بلکہ اموات میں اضافہ کیا ہے۔
دوسری جانب فوجی خدمات کے بدلے ملنے والی بڑی رقوم نے بعض خاندانوں کو بچوں کی پیدائش کی طرف راغب بھی کیا ہے۔

لیکن ابیلکالیف کا کہنا ہے کہ جنگ، پابندیاں اور بجٹ کی کمی بالآخر صحت کے نظام کو کمزور اور سماجی دباؤ کو بڑھا دیں گی، جس سے درمیانی مدت میں اموات کی شرح میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خاندانی اقدار مہم روس شرح پیدائش میں کمی ولادی میر پیوٹن

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • شمالی وزیرستان: پاک افغان سرحد کے قریب سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 2 خوارج ہلاک، 5 زخمی
  • شمالی وزیرستان:سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 2 خوارج ہلاک، 5 زخمی
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • بھارت کی پاکستان کیخلاف ایک اور کارروائی بے نقاب، جاسوسی کرنیوالا ملاح گرفتار‘ فورسز کی وردیاں بھی برآمد
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی نے بھارتی منصوبہ ناکام بنا دیا، وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی پریس کانفرنس
  • وزارت خارجہ اور سفارتی مشننز  میں بڑے پیمانے پر تعیناتیاں
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • روسی خواتین ماں بننے سے گریزاں، اربوں روبل کے ترغیباتی پروگرام ناکام