کوئٹہ سریاب روڈ پر خودکش دھماکا، جاں بحق افراد کی تعداد 17 ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
کوئٹہ:
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر شاہوانی اسٹیڈیم کے باہر خودکش حملے میں جاں بحق افراد کی تعداد 17 ہوگئی جب کہ 40 افراد زخمی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ دھماکا منگل کو اس وقت ہوا تھا جب بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شریک تھے۔
دھماکے کے وقت 14 افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور متعدد تھے آج اسپتال میں دوران علاج کئی زخمی دم توڑ گئے جس کے بعد شہید افراد کی تعداد 17 ہوگئی۔
جلسے کے اختتام کے بعد جب لوگ اسٹیڈیم سے سردار اختر مینگل اور محمود خان کے قافلے کے ساتھ سریاب روڈ کی جانب روانہ ہوئے تو اسی دوران ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک موٹر سائیکل کو قافلے کے قریب اڑادیا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔
دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور علاقے میں افراتفری پھیل گئی۔ پولیس ذرائع کے مطابق، دھماکے کا ہدف واضح طور پر سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی تھے، جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے مگر متعدد کارکنوں اور عام شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ دھماکے کے فوراً بعد ایمبولینسز اور ریسکیو ٹیمیں بروقت جائے وقوع پر نہ پہنچ سکیں، جس کی وجہ سے زخمیوں کو فوری طبی امداد نہ مل سکی یہ تاخیر شہدا کی تعداد میں اضافے کا سبب بنی۔
مقامی لوگوں نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت قریبی اسپتالوں تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن اسپتالوں میں خاطر خواہ طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
دھماکے نے کوئٹہ میں سیکیورٹی انتظامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں، مقامی لوگوں اور سیاسی رہنماوٴں نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حساس علاقوں میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات دھماکے کی بنیادی وجہ ہیں۔
ایک مقامی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایکسپریس نیوز کو بتایا کہ شاہوانی اسٹیڈیم جیسے مصروف مقام پر سیکیورٹی کے اہلکاروں کی تعداد ناکافی تھی اور دہشت گردی کی کسی بھی متوقع کارروائی کا کوئی الرٹ جاری نہیں تھا۔
سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں نے دھماکے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد کی ہے۔ بی این پی کے ایک رہنما نے کہا کہ حکومت کی ناکامی نے بلوچستان کے عوام کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی فوری اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔
دوسری جانب وزیر اعلی بلوچستان میرسرفراز بگٹی نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ انہوں نے زخمیوں کے لیے بہتر طبی امداد کے انتظامات کا وعدہ کیا لیکن ہسپتال ذرائع کے مطابق سول ہسپتال اور دیگر طبی مراکز میں نہ تو مناسب عملہ موجود ہے اور نہ ہی ضروری ادویات۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ زخمیوں کو فوری طور پر بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
ماضی میں بھی کوئٹہ بالخصوص سریاب روڈ دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ 2015 میں سریاب روڈ پر ایک بس دھماکے میں 11 افراد شہید ہوئے تھے، جبکہ 2016 میں بلوچستان یونیورسٹی کے قریب ایک اور دھماکے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے۔
حالیہ برسوں میں بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں جیسا کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر مذہبی شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جنہوں نے سیاسی رہنماوٴں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔
سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی بلوچستان کی سیاسی و سماجی تحریکوں کے اہم رہنما ہیں۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی برسی کے موقع پر یہ تقریب بلوچستان کے عوام کے لیے ایک اہم سیاسی اجتماع تھا، جس میں بلوچ اور پشتون حقوق اور صوبائی خودمختاری کے مسائل پر بات کی تھی تاہم اس دھماکے نے ایک بار پھر صوبے کی نازک سیکیورٹی صورتحال کو اجاگر کر دیا ہے۔
پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تاحال کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے پیچھے علیحدگی پسند گروہ یا مذہبی عسکریت پسند ہو سکتے ہیں۔
دھماکے کے بعد سے کوئٹہ میں خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے۔
شہریوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیکیورٹی انتظامات کو بہتر کیا جائے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سردار اختر مینگل اور سریاب روڈ دھماکے کی کی تعداد کے لیے
پڑھیں:
ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے دھماکوں میں ماں بیٹی سمیت 3 افراد جاں بحق
بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دو الگ الگ بارودی سرنگ کے دھماکوں میں تین افراد جاں بحق جبکہ 4 شدید زخمی ہوئے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سوئی میں ہونے والے بارودی سرنگ کے دھماکوں کی آواز سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
پہلا دھماکا صبح سویرے 7 بجے کے قریب لنجو کے نزدیک سغاری گاؤں میں ہوا جہاں ایک خاتون حیات چاکرانی اپنی 8 سالہ بیٹی اور ایک مقامی شخص غلام نبی گھر سے باہر نکلتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکا اتنا شدید تھا کہ لاشیں شناخت کے قابل نہ رہیں جبکہ دوسرا دھماکا یارو پٹ کے سرحدی علاقے میں پیش آیا، جہاں دو مرد، ایک خاتون اور ان کا 10 سالہ بیٹا زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر لیویز اہلکاروں نے ڈیرہ بگٹی کے سول ہسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے دو زخمیوں کی حالت تشویشناک قرار دی ہے۔
مقامی لوگوں نے ایکسپریس نیوز کوبتایا ہے کہ دھماکوں کی جگہ پر کوئی عسکری سرگرمی نہیں تھی اور یہ بارودی سرنگیں ممکنہ طور پر کسانوں یا عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے بچھائی گئی تھیں۔
ایک رہائشی نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں بارودی سرنگیں اب روزمرہ کا خطرہ بن چکی ہیں اور ہم اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔
لیویز اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے دستوں نے دھماکوں کے مقامات کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
حکام نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ دھماکوں کی نوعیت جانچنے کے لیے ماہرین کی ٹیم طلب کر لی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے، جبکہ اب تک کسی گروہ نے دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔