کوئٹہ:

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر شاہوانی اسٹیڈیم کے باہر خودکش حملے میں جاں بحق افراد کی تعداد 17 ہوگئی جب کہ 40 افراد زخمی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ دھماکا منگل کو اس وقت ہوا تھا جب بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شریک تھے۔

دھماکے کے وقت 14 افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور متعدد تھے آج اسپتال میں دوران علاج کئی زخمی دم توڑ گئے جس کے بعد شہید افراد کی تعداد 17 ہوگئی۔

جلسے کے اختتام کے بعد جب لوگ اسٹیڈیم سے سردار اختر مینگل اور محمود خان کے قافلے کے ساتھ سریاب روڈ کی جانب روانہ ہوئے تو اسی دوران ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک موٹر سائیکل کو قافلے کے قریب اڑادیا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔

دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور علاقے میں افراتفری پھیل گئی۔ پولیس ذرائع کے مطابق، دھماکے کا ہدف واضح طور پر سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی تھے، جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے مگر متعدد کارکنوں اور عام شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ دھماکے کے فوراً بعد ایمبولینسز اور ریسکیو ٹیمیں بروقت جائے وقوع پر نہ پہنچ سکیں، جس کی وجہ سے زخمیوں کو فوری طبی امداد نہ مل سکی یہ تاخیر شہدا کی تعداد میں اضافے کا سبب بنی۔

مقامی لوگوں نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت قریبی اسپتالوں تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن اسپتالوں میں خاطر خواہ طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

دھماکے نے کوئٹہ میں سیکیورٹی انتظامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں، مقامی لوگوں اور سیاسی رہنماوٴں نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حساس علاقوں میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات دھماکے کی بنیادی وجہ ہیں۔

ایک مقامی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایکسپریس نیوز کو بتایا کہ شاہوانی اسٹیڈیم جیسے مصروف مقام پر سیکیورٹی کے اہلکاروں کی تعداد ناکافی تھی اور دہشت گردی کی کسی بھی متوقع کارروائی کا کوئی الرٹ جاری نہیں تھا۔

سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں نے دھماکے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد کی ہے۔ بی این پی کے ایک رہنما نے کہا کہ حکومت کی ناکامی نے بلوچستان کے عوام کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی فوری اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔

دوسری جانب وزیر اعلی بلوچستان میرسرفراز بگٹی نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ انہوں نے زخمیوں کے لیے بہتر طبی امداد کے انتظامات کا وعدہ کیا لیکن ہسپتال ذرائع کے مطابق سول ہسپتال اور دیگر طبی مراکز میں نہ تو مناسب عملہ موجود ہے اور نہ ہی ضروری ادویات۔

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ زخمیوں کو فوری طور پر بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

ماضی میں بھی کوئٹہ بالخصوص سریاب روڈ دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ 2015 میں سریاب روڈ پر ایک بس دھماکے میں 11 افراد شہید ہوئے تھے، جبکہ 2016 میں بلوچستان یونیورسٹی کے قریب ایک اور دھماکے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے۔

حالیہ برسوں میں بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں جیسا کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر مذہبی شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جنہوں نے سیاسی رہنماوٴں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔

سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی بلوچستان کی سیاسی و سماجی تحریکوں کے اہم رہنما ہیں۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی برسی کے موقع پر یہ تقریب بلوچستان کے عوام کے لیے ایک اہم سیاسی اجتماع تھا، جس میں بلوچ اور پشتون حقوق اور صوبائی خودمختاری کے مسائل پر بات کی تھی تاہم اس دھماکے نے ایک بار پھر صوبے کی نازک سیکیورٹی صورتحال کو اجاگر کر دیا ہے۔

پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تاحال کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے پیچھے علیحدگی پسند گروہ یا مذہبی عسکریت پسند ہو سکتے ہیں۔

دھماکے کے بعد سے کوئٹہ میں خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے۔

شہریوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیکیورٹی انتظامات کو بہتر کیا جائے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سردار اختر مینگل اور سریاب روڈ دھماکے کی کی تعداد کے لیے

پڑھیں:

پشاور کے سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکے سے ایک اہلکار شہید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور: یونیورسٹی روڈ پر واقع کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے تھانے میں زوردار دھماکے کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور دو دیگر زخمی ہوگئے۔ واقعہ کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری طور پر جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے لیا۔

دھماکا سی ٹی ڈی تھانے کے اسلحہ خانے میں ہوا، جہاں پرانے دھماکا خیز مواد کے اچانک پھٹنے سے زوردار دھماکا ہوا۔ سی سی پی او پشاور کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دھماکا کسی بیرونی حملے کا نتیجہ نہیں بلکہ اندر موجود پرانے بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا۔ دھماکے کے بعد آگ نے اسلحہ خانے میں موجود دیگر گولہ بارود کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے باعث مزید دھماکے ہوئے اور عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔

پولیس حکام کے مطابق تھانے میں موجود تمام ملزمان کو فوری طور پر سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز منتقل کردیا گیا ہے، جبکہ تھانے اور اردگرد کے علاقے کو مکمل طور پر سیل کرکے کلیئرنس آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ بم ڈسپوزل یونٹ، فائر بریگیڈ اور ریسکیو کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ابتدائی طور پر واقعہ کو دہشت گردی کا نتیجہ قرار نہیں دیا گیا۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • میکسیکو کی سپرمارکیٹ میں دھماکا، 23 افراد ہلاک
  • سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، اہلکار جاں بحق ،2 زخمی
  • پشاور: سی ٹی ڈی تھانے میں شارٹ سرکٹ سے دھماکا، ایک اہلکار شہید، 2 زخمی
  • پشاور کے سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکے سے ایک اہلکار شہید
  • پشاور سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، پاک افغان مذاکرات کے دوران دہشتگردی کا نیا واقعہ
  • کیوبا، جمیکا اور ہیٹی میں طوفان ملیسا سے ہلاکتوں کی تعداد 60 ہوگئی
  • کوئٹہ ،کچرے کے ڈھیر میں بیٹھے ہوئے افراد کھلے عام نشہ کرنے میں مصروف ہیں
  • سمندری طوفان نے کیوبا، جمیکا اور ہیٹی میں تباہی مچا دی؛ ہلاکتوں کی تعداد 60 ہوگئی
  • فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا
  • کوئٹہ میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر موبائل انٹرنیٹ سروس 24 گھنٹے کے لیے معطل