برطانیہ کے اگلے ممکنہ بادشاہ ولیم اپنی سلو موشن ویڈیوز کیوں جاری کر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
برطانوی تخت کے ممکنہ وارث شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن نے بادشاہ چارلس کی صحت کے پیش نظر مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے ایک نیا اور جرات مندانہ حکمتِ عملی منصوبہ نافذ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: کنگ چارلس کا اپنی بگڑتی صحت کا اعتراف
بادشاہ چارلس سوم کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔ ایسے میں ولی عہد شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ نے شاہی فرائض کو سنبھالنے کی تیاریوں میں تیزی دکھائی ہے۔
ڈیجیٹل حکمت عملی اور میڈیا سے توازنشاہی جوڑے نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے جسے تجزیہ کار ایک نئی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
کینسنگٹن پیلس کے توسط سے جاری کردہ ویڈیوز میں پیشہ ورانہ تدوین، سلو موشن اور جدید انداز کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو ان کی ڈیجیٹل موجودگی کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بادشاہ چارلس کے سابق بٹلر گرانٹ ہیروولڈ نے کہا کہ وہ (ولیم اور کیٹ) بہت زیادہ نمایاں ہیں، خاص طور پر آن لائن اور جو ویڈیوز ہم دیکھتے ہیں ان میں جو سلو موشن اور ایڈیٹنگ ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: شاہ چارلس کی بہو میگھن مارکل نے اپنے سرکاری نام کا انکشاف کر دیا
انہوں نے مزید کہا کہ یقیناً ان کے پاس ایک ٹیم ہے جو ان کا آن لائن مواد سنبھالتی ہے لیکن جو معلومات عوام تک پہنچائی جا رہی ہے وہ ان کی اپنی مرضی اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
میڈیا سے تعلقات میں توازنولی عہد اور ان کی اہلیہ نے روایتی شاہی انداز سے ہٹ کر میڈیا سے دو طرفہ تعلق قائم کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے یعنی نہ صرف وہ میڈیا کو معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ اس کے بدلے میں مثبت کوریج بھی حاصل کر رہے ہیں۔
گرانٹ ہیروولڈ کا کہنا تھا کہ وہ کچھ دیتے ہیں، میڈیا ان کا استعمال کرتا ہے اور وہ میڈیا کا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال، شاہی خاندان اور میڈیا کے درمیان تعلقات کافی بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ حکمتِ عملی اس تناؤ سے مختلف ہے جو شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کے میڈیا سے تعلقات میں نظر آتا رہا ہے۔ ولیم اور کیٹ کی موجودہ اپروچ کو مربوط، متوازن اور باوقار قرار دیا جا رہا ہے۔
شاہی محل سے منسلک ذرائع کے مطابق شہزادہ ولیم نے حالیہ مہینوں میں متعدد سرکاری ذمہ داریاں بادشاہ چارلس کی جگہ انجام دی ہیں۔ یہ اقدامات اس بات کی علامت سمجھے جا رہے ہیں کہ وہ تخت سنبھالنے کی ذمہ داری کے لیے مکمل طور پر تیار ہونا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا شاہ چارلس کے چھوٹے بیٹے ہیری اپنا شاہی کردار دوبارہ حاصل کرلیں گے؟
دوسری جانب بادشاہ چارلس نے حال ہی میں ایک 80 سالہ کینسر کے مریض سے ملاقات کے دوران ہنستے ہوئے کہا کہ 70 سال کی عمر کے بعد کچھ چیزیں ٹھیک سے کام نہیں کرتیں۔ یہ جملہ نہ صرف ان کے مخصوص مزاح کا اظہار تھا بلکہ عوام کو ان کی صحت سے متعلق حقیقت پسندانہ تصویر بھی پیش کرتا ہے۔
شہزادہ ولیم اور کیٹ کی جانب سے اپنائی گئی یہ نئی حکمت عملی نہ صرف ان کے متوقع بادشاہی کردار کی جھلک فراہم کرتی ہے بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ شاہی ادارے کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے پرعزم ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: برطانوی ولی عہد ولیم اور شہزادی کیٹ کا نیا گھر، ماہانہ کرایہ کتنا ہے؟
ماہرین کے مطابق اگرچہ چارلس ابھی تخت پر براجمان ہیں لیکن ولیم اور کیٹ کی تیاریاں اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ برطانیہ کی اگلی شاہی نسل ایک نئی سوچ، نئی توانائی اور جدید حکمت عملی کے ساتھ سامنے آ رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانوی ولی عہد شہزادہ ولیم شاہ چارلس شہزادی کیٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانوی ولی عہد شہزادہ ولیم شاہ چارلس شہزادی کیٹ
پڑھیں:
سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.
سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز
تحریر: سیدہ زہرہ فاطمہ
ہم ایک ایسے زمانے میں سانس لے رہے ہیں جہاں انسان کی پہچان اور وجود کا بڑا حصہ اب ڈیجیٹل دنیا سے جڑ چکا ہے۔ آج کسی کی کامیابی، رشتے، احساسات اور حتیٰ کہ خوشی کا پیمانہ بھی سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں سے طے ہونے لگا ہے۔ یہ پلیٹ فارم، جو کبھی رابطے اور اظہار کا ذریعہ تھے، اب ایک ایسے آئینے میں بدل گئے ہیں جہاں ہم اپنی اور دوسروں کی عکاسی تلاش کرتے ہیں مگر اکثر وہ عکس حقیقت سے بہت مختلف ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا بظاہر رنگوں اور خوشیوں سے بھری ہوئی لگتی ہے۔ ہر تصویر کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہوتی ہے، لیکن دیکھنے والا صرف وہی دیکھتا ہے جو اسے دکھایا جاتا ہے۔ لوگ اپنی زندگی کے حسین لمحے، کامیابیاں، اور خوشیاں شیئر کرتے ہیں، مگر ان لمحوں کے پیچھے کی جدوجہد، دکھ، اور ناکامیاں کہیں کھو جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا میں صرف کامیاب اور خوش لوگ ہی بستے ہیں۔ یہی فریب، آہستہ آہستہ انسان کے احساسِ خودی کو بدلنے لگتا ہے۔
انسان ایک ایسا مخلوق ہے جو اپنی قدر دوسروں کی رائے سے جڑنے لگے تو اندر سے کمزور ہو جاتا ہے۔ لائکس، کمنٹس، اور فالوورز کی گنتی ہمارے اندر ایک خاموش مقابلے کو جنم دیتی ہے۔ ہم اپنی تصویر اس طرح بناتے ہیں کہ دنیا متاثر ہو، مگر اس دوران ہم اپنی اصل شخصیت کھو دیتے ہیں۔ خودی، جو علامہ اقبال کے فلسفے میں انسان کی اصل طاقت ہے، اب ورچوئل تالیوں کی محتاج بن گئی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سوشل میڈیا ہماری زندگی کا حصہ نہیں رہتا بلکہ ہمارا پیمانہ بن جاتا ہے۔
ہم نے اپنی مسکراہٹیں تصویروں کے فلٹرز میں قید کر دی ہیں، اپنی باتوں کو لائکس کے حساب میں تولنا شروع کر دیا ہے، اور اپنی خاموشیوں کو اسٹوری میں بدل دیا ہے۔ ہم جیتے کم ہیں، دکھاتے زیادہ ہیں۔ یہی دکھاوا ایک ایسی تھکن پیدا کرتا ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہر نوٹیفکیشن، ہر تبصرہ، ہر ویو ہمیں وقتی خوشی تو دیتا ہے مگر اندر ایک خلا چھوڑ جاتا ہے۔ ہم جتنا دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی خود سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
مگر اس کہانی کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ سوشل میڈیا اپنی اصل میں غلط نہیں ہے۔ یہ علم، آگاہی، تعلق اور اظہار کا طاقتور ذریعہ ہے۔ اس نے عام انسان کو آواز دی ہے، نئے خیالات کو جنم دیا ہے، اور معاشرتی مسائل پر بات کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ اس کے استعمال میں ہے۔ جب انسان اس پلیٹ فارم کو اپنے وجود کا مرکز بنا لیتا ہے تو وہ اپنی آزادی کھو دیتا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو استعمال کریں، مگر اسے خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قدر دوسروں کی نظروں سے نہیں، اپنے اعمال سے طے کریں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی اپنی خوشی کے مالک ہیں یا کسی الگورتھم کے؟ کیا ہم اپنی شناخت خود بناتے ہیں یا اسے دوسروں کے تبصروں کے حوالے کر دیتے ہیں؟ خودی کی اصل یہی ہے کہ انسان اپنے فیصلے، اپنی رائے، اور اپنے جذبات کا مالک خود ہو۔
کبھی کبھار سوشل میڈیا سے فاصلہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک دن کے لیے فون بند کر کے خود سے بات کیجیے۔ اپنی زندگی کے لمحے بغیر کسی تصویر یا پوسٹ کے ججیے۔ فطرت کے ساتھ وقت گزاریے، کتاب پڑھئیے، یا کسی قریبی شخص سے دل کی بات کیجیے۔ آپ محسوس کریں گے کہ حقیقی سکون اب بھی حقیقی دنیا میں موجود ہے، بس ہم نے اس کی آواز سننا چھوڑ دی ہے۔
سوشل میڈیا نے انسان کو ایک نیا زمانہ دیا ہے، مگر اس کے ساتھ ایک نیا امتحان بھی۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ اپنی خودی کو ڈیجیٹل تالیاں بجانے والوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ اپنی کامیابی کو پوسٹ سے نہیں، احساس سے ناپیں۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے فریم میں فٹ کرنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ اپنے راستے پر سچائی سے چلیں۔
خودی ایک روشنی ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ یہ روشنی تب تک زندہ رہتی ہے جب تک ہم اسے دوسروں کی نظروں سے نہیں ناپتے۔ سوشل میڈیا کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، مگر محور نہ بنائیں۔ کیونکہ زندگی کی اصل خوبصورتی وہ ہے جو کیمرے کے سامنے نہیں، دل کے اندر بسی ہوتی ہے۔
اصل آزادی یہ ہے کہ آپ اپنی پہچان خود بنائیں، چاہے دنیا جانے یا نہ جانے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کن مرحلہ، پیپلزپارٹی کی بڑی بیٹھک آج ہوگی کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم