ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری کا مری کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چودھری کا مری کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ WhatsAppFacebookTwitter 0 5 September, 2025 سب نیوز
راولپنڈی(سب نیوز)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے مری کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ کیا اور طلبہ کے ساتھ معلوماتی گفتگو کی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ خصوصی نشست میں آرمی پبلک سکول، کونونٹ جیسس اینڈ میری اور پریزنٹیشن کونونٹ کے طلبہ نے شرکت کی۔اس موقع پر طلبہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ سوال جواب بھی کیے۔
طلبہ نے کہا کہ ایسی معلوماتی نشست کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے، وطن دشمن عناصر جتنی بھی کوشش کر لیں نوجواں نسل کو اپنی افواج سے دور نہیں کر سکتے۔طلبہ نے کہا کہ پاک فوج ہم سے ہے اور ہم پاک فوج سے ہیں، وطن دشمنوں کی ہر میلی آنکھ کے خلاف ہم پاک افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملک میں مہنگائی کی رفتار زور پکڑ گئی،ایک ہفتے میں 23اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ملک میں مہنگائی کی رفتار زور پکڑ گئی،ایک ہفتے میں 23اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ بھارت کی جانب سے دریاوں میں پانی چھوڑے جانے پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا پاک بحریہ کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز احمد حسین کو رئیر ایڈمرل کے عہدے پر ترقی دیدی گئی بلاول بھٹو وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی کارکردگی کے معترف، محنتی قرار دیدیا چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت اجلاس، جشن عید میلاد النبی ۖ کے حوالے سے تیاریاں و انتظامات اور شہر... میڈیا کا کردار پاک چین تعلقات اور سی پیک منصوبوں کے فروغ میں اہم ہے،چینی ناظم الامور
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ڈی جی آئی ایس پی آر
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔