بلوچستان میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے سیمینار
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
محمد حسین/کوئٹہ
کوئٹہ میں نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف چلڈرن (NCRC) اور یونیسف کے اشتراک سے منعقدہ حالیہ رپورٹ لانچنگ تقریب میں بچوں، خاص طور پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بچوں کی حالتِ زار پر روشنی ڈالی گئی۔
اس موقع پر میں نے چائلڈ لیبر کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مختلف ماہرین، بشمول NCHR کے عہدیداران، ایڈووکیٹ عبدالحئی اور اقلیتی نمائندے شہزان ولیم سے انٹرویوز کیے۔
اس رپورٹ نہ صرف زمینی حقائق اجاگر کیے گئے ہیں بلکہ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بلوچستان میں بچوں سے مشقت کا خاتمہ صرف پالیسی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہے۔
یہ ایک انسانی حقوق کی جدوجہد ہے، اور یہ کہانی اُن بچوں کی آواز ہے جنہیں سنا نہیں جاتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
NCRC چائلڈ لیبر شہزان ولیم کوئٹہ محمد حسین نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف چلڈرن یونیسف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چائلڈ لیبر شہزان ولیم کوئٹہ یونیسف
پڑھیں:
خواجہ نظام الدین کا تاریخ میں نام سنہری حرفوں میں درج ہے، وسیم شیخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈوالہیار(نمائندہ جسارت) دی ایجوکیٹر اسکول کے ڈائٹر یکٹر محمد وسیم شیخ نے طلبہ و طالبات کو لیکچر دیتے ہو ئے کہا کہ خواجہ ناظم الدین وہ نام ہے جو تاریخِ پاکستان کے ابتدائی ابواب میں سنہری حروف سے رقم ہے، وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر انجام دیا، اور خدمتِ خلق کو ایمان کا حصہ جانا۔ ان کی زندگی کی ابتدا دولت سے ہوئی مگر اختتام سادگی پر، وہ بنگال کی زمین کے فرزند تھے مگر دل ان کا پورے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ ان کے لہجے میں نرمی تھی، کردار میں وقار، اور ارادوں میں فولاد کی سی مضبوطی۔ انہوں نے نہ صرف مسلم لیگ کے قیام میں اپنی بصیرت عطا کی بلکہ تحریکِ پاکستان کی روح کو بھی اپنی عمل سے تازہ رکھا۔زمانے نے دیکھا کہ جب اقتدار کی کرسی ان کے سامنے آئی تو وہ غرور میں نہیں ڈوبے، بلکہ عاجزی ان کا زیور رہی۔ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ بنگال کے زمانے میں عوام کی خدمت کو مقصدِ حیات بنایا۔ قحط بنگال کا وقت تھا، لوگ بھوک سے نڈھال تھے، ناظم الدین نے دن رات محنت کی، خوراک کی تقسیم کے انتظامات کیے، لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ ان کے نزدیک حکومت رعایا کے لیے تھی، حکمران کے لیے نہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح دنیا سے رخصت ہوئے، اور پھر لیاقت علی خان شہید ہوئے، تب قوم پر قیادت کا خلا چھا گیا۔ ایسے وقت میں خوجہ ناظم الدین نے قدم بڑھایا اور وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کا دور مشکلات سے بھرا تھا، مگر ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ وہ جانتے تھے کہ نوزائیدہ مملکت کو استحکام دینا آسان نہیں، لیکن وہ صبر اور تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ قربانی کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اور ایمان کے بغیر سیاست بے روح ہے۔ان کی سیاست کی بنیاد مفاہمت پر تھی، وہ اختلاف کو دشمنی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے لبوں پر ہمیشہ شائستگی تھی، اور دل میں قوم کے لیے خلوص۔ وہ جانتے تھے کہ ایک رہنما کا اصل کام صرف حکومت کرنا نہیں بلکہ قوم کو متحد رکھنا ہے۔ ان کے دور میں تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے، ثقافت اور قومی شناخت کے فروغ کے لیے پالیسیاں بنیں۔