WE News:
2025-09-17@23:40:51 GMT

دوزخ نامہ میں جنت کی سیر

اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT

کچھ ضخیم اور بڑے ناول محض اپنے اختتام تک محدود نہیں رہتے۔ ان کی اصل زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب قاری آخری ورق پلٹنے کے بعد بھی ان کے سحر سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ کتاب بند ہو جانے کے بعد بھی الفاظ کی بازگشت دل و دماغ میں گونجتی رہتی ہے، تحریر کے جادو کی رمق دیر تک قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے اور دل میں یہ خواہش جاگتی ہے کہ کاش یہ داستان ذرا اور طول پکڑتی اور ایک بار پھر ازسرِنو پڑھنے کی پیاس جاگ اٹھتی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جب کوئی فن پارہ اپنے کمال کی معراج کو چھو لیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اگلے جنم بھی موہے بٹیا ہی دیجیو: صنوبر ناظر

ربی شنکر بال کا ناول ’دوزخ نامہ‘ اسی معراج کا استعارہ ہے۔ اس ناول کو پڑھنا میرے لیے یوں تھا گویا میں جنت کی سیر کو نکل گئی ہوں۔ یہ ناول کی تخلیقی وسعت اور معنوی جسارت ہی ہے کہ قاری دوزخ کے دائرے میں ہوتے ہوئے بھی جنت کی سی کیفیت محسوس کرے۔

ربی شنکر بال کا یہ بنگالی ناول پہلے انگریزی میں ترجمہ ہوا اور پھر جناب انعام ندیم کے ہاتھوں اردو قارئین تک پہنچا۔ انعام ندیم نے ترجمے میں وہی سلیقہ اور مہارت دکھائی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ‘زندگی بھی تو ایک طرح کا ترجمہ ہی ہے’۔ پڑھتے ہوئے کسی لمحے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کتاب پہلے کسی اور زبان میں لکھی گئی تھی؛ لفظوں کی بُنت ایسی دلآویز ہے جیسے یہ تخلیق ہی اردو میں ہوئی ہو ـ

دوزخ نامہ نومبر 2024 میں ‘بُک کارنر جہلم’ نے دوبارہ نئے سرے سے شائع کیا ہے اور کیا خوب اشاعت ہے ۔ کتابوں کی طباعت، تزئین اور سرورق میں ‘بُک کارنر جہلم’ ہمیشہ منفرد مقام رکھتا ہے، ایسے میں اس معرکہ آرا ناول کو کون نہ پڑھنا چاہے گا۔

دوزخ نامہ واقعاتی پلاٹ یعنی آغاز، انجام، کلائمیکس پر مبنی نہیں  بلکہ خیالات، فلسفے، تجربات اور تمثیل کے بہاؤ سے بنا ہے۔

جیسے خواب، یادیں، مکالمے اور ذہنی مناظرے۔

یہ بھی پڑھیے:  ’رودالی‘

یوں دوزخ نامہ کو ‘نومینک ناول’ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تمثیلی، خیالی اور فلسفیانہ جہان کی سیر ہے جس میں داستان در داستان اور قصے در قصے بُنے گئے ہیں جو روایتی پلاٹ سے ہٹ کر تخلیق کردہ ہیں۔ بیانیہ ایک بہتے دریا کی مانند ہے، جس میں قاری کبھی ڈوبتا ہے، کبھی ابھرتا ہے، مگر خوشی خوشی اس بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔

ناول کے آغاز ہی میں ربی شنکر بال خود کو پیش منظر پر لے آتے ہیں، جب لکھنؤ کے فرید میاں انہیں ایک ناول کا غیر مطبوعہ مسودہ تھماتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سعادت حسن منٹو کی وہ تحریر ہے جو انہوں نے مرزا غالب پر لکھی تھی۔

منٹو اور ناول؟ قاری کا تجسس یہیں سے بیدار ہوجاتا ہے۔

ناول کا منظرنامہ ایک قبرستان ہے مگر ایسا قبرستان جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ جہاں دلّی میں نظام الدین اولیاء کے مزار کے قرب وجوار میں واقع سلطان جی کے قبرستان میں مرزا غالب آسودۂ خاک ہیں، اور لاہور کی میانی صاحب کی تاریک قبر میں منٹو سوئے ہوئے ہیں۔ یہ وہی منٹو ہیں جو زندگی بھر غالب سے مکالمے کے تمنائی رہے۔

ربی شنکر بال کے تخیل نے یہ معجزہ کر دکھایا کہ منٹو اور غالب ایک دوسرے کے روبرو آ بیٹھے اور اپنے اپنے دکھ، ناکامیوں، محبتوں اور زخموں پر دل کھول کر بات کرنے لگے۔

یہ بھی پڑھیے: اک چادر میلی سی

یہ دونوں آفاقی فنکار دو مختلف ادوار، تہذیبوں اور فکری رویّوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی گفتگو کے بیچ بیچ میں ،تاریخ ، ادب ،مذہب ،سیاست ،انسانی جبلتیں اور تہذیبی سوالات در آتے ہیں۔

دونوں نے ہندوستان کو دو الگ صدیوں میں جلتے، بکھرتے اور لہولہان ہوتے دیکھا جِسے مصنف نے اُنہی کی زبانی بڑی مہارت سے ناول کا حصہ بنا دیا۔

غالب کے لہجے میں وہی شکوہ اور فخر جھلکتا ہے جو ان کے اشعار کا خاصہ ہے:

‘آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں، سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے’

اندرونی کرب کی یہ تپش کسی جہنم کی آگ سے بڑھ کر ہے۔ ’دوزخ نامہ‘ دراصل منٹو اور غالب کا مکالمہ ہے، ایک نان لینیر (غیر مستقیم) مکالماتی ناول جس کا بیانیہ کسی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ وقت اور موضوع کے بدلتے دریچوں سے گزر کر قاری کو کہانی در کہانی کی بھول بھلیوں میں لے جاتا ہے۔

مرزا کے مکالمے ان کی شخصیت کی رعنائی اور انفرادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ اپنی نوخیز جوانی کا ذکر کرتے ہوئے وہ چمپئی رنگت، گھنگھریالے مخملی بالوں، استرخانی ٹوپی، مہین جامدانی کُرتے اور چھریرے بدن پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ شاعری میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ شخصیت میں یکتائی بھی ان کا وصف تھا۔ وہ میر تقی میر کو بار بار یاد کرتے ہیں، کبھی ان کے اشعار کی صورت میں، کبھی ان کی المناک محبت کے قصے بیان کر کے۔

‘لکشمی اور سرسوتی ایک ہی چھت تلے کب ٹھہرتی ہیں؟’ مرزا اور منٹو دونوں سرسوتی کے عشق میں ایسے ڈوبے کہ لکشمی ہمیشہ کے لیے ان سے روٹھ گئی۔ مرزا کی زندگی کی راہوں میں کتنے کانٹے بچھے تھے۔ دلّی جیسے شہر میں، جہاں لفظ تولے جاتے تھے، وہاں مرزا کو شاعر کے طور پر جگہ بنانے کے لیے کس قدر ذلت سہنی پڑی۔ ہر مشاعرے میں ان کے کلام کا مذاق اڑایا گیا، ان کی شخصیت کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: ثناء یوسف کی آخری مسکراہٹ اور لال اسکوٹی چلاتی لڑکی

دربار سے نسبت جڑ گئی تو قصیدوں کی فرمائشیں ہونے لگیں، بادشاہ کی شاعری کو سنوارنے کی ذمے داری آن پڑی۔ مگر یہ سب مرزا کے شایانِ شان نہ تھا۔ دل نہ مانتا تھا مگر گھر کی گزر بسر کے لیے یہ بوجھ بھی اٹھانا پڑا ایسے میں داستان سننے کا رَسیا کلّو  غالب کا عمر بھر ساتھی رہا۔

ناول میں غالب کی زندگی کا ایک اور موڑ، کم سنی میں امراؤ جان سے شادی اور اپنے سسر معروف صاحب پر طنز کے نشتر برسانا، تصور میں فلک آرا کی ادائیں مرزا کی شوخیِ طبع کی آئینہ دار تھیں۔

ناول میں مرزا کا کلکتےجاتے ہوئے لکھنو میں قیام، روشنیوں کے شہر کاشی کے منیکرنیک گھاٹ کی سیڑھیوں پر رات گئے گنگا کو تکنا۔ پھر کلکتے سے وظیفے کے بجائے قرضوں سے لدے پھندے واپس آنا، مصنف کا قلم ایک آفاقی شاعر کی بے بسی کو بڑے رنج سے بیان کرتا ہے۔

اسی بیچ ایک معمولی سی ڈومنی، منیرہ بائی، مرزا کی زندگی میں ایسی اتری جیسے بن بادل برسات۔ منیرہ کی قربت نے مرزا کی شاعری میں نئی تازگی بھری اور اس کی جدائی نے اس شاعری کو غم کی وہ چاشنی دی جس نے اسے لافانی بنا دیا لیکن منیرہ کی موت نے مرزا کا دل اجاڑ دیا۔

ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ 1857 کا غدر برپا ہوا۔ دلّی لٹ گئی، برباد ہو گئی۔ اور مرزا، جن کی آنکھوں نے اپنی محبوبہ کی موت دیکھی تھی، انہی آنکھوں نے اپنے محبوب شہر کی بربادی کا منظر بھی دیکھا۔ اس دن کے بعد مرزا کی شاعری نے کلام کرنا چھوڑ دیا اور انھوں نے ‘دستنبو’ لکھنا شروع کیا جو دلّی کے ملبے پر کِھلا فارسی نثر کا وہ گلاب بن گئی جس کی خوشبو ہمیشہ تاریخ کے دامن میں بسی رہے گی لیکن بقول مرزا ‘دستنبو ایک شاندار کارنامہ ہونے کے باوجود غداری کا نمونہ بھی ہے۔’

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

مرزا غالب کی داستانوں میں جہاں رابعہ بصری کی روحانی وارفتگی ہے، وہیں رومی اور شمس تبریز کا عشق، کہیں امیر خسرو کی مثنویاں ہیں تو کہیں عمر خیام کی رباعیاں۔ کہیں کاشی تہذیب کی پوری تاریخ اپنی جلوہ گری کرتی ہے۔ تو کہیں کاشی کے مندر اور گھاٹ ہیں تو وہیں سمے کے عہد سے قبل ہندو دیو مالا کے شیو، شکتی اور وشنو کی کہانیاں۔ حقیقت، تاریخ اور تخیل سب ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘

اسی طرح منٹو کے مکالموں میں جلیانوالہ باغ کے سانحے کی تلخ یادیں ہیں، امرتسر سے بمبئی کا سفر، جہاں ان کے دوست شیام، کرشن چندر، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کی داستانیں قصے در قصے بُنتی ہیں۔ ربی شنکر بال نے بے باکی کے ساتھ منٹو کے دل کی گہرائیوں میں چھپے جذبات کو زبان دی ہے حتی کہ عصمت اور منٹو کے درمیان اس ذہنی رشتے کو بھی جسے انہوں نے کبھی کھل کر بیان نہ کیا تھا۔ ہجرت کے بعد وہ رشتہ یوں ٹوٹ گیا جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتا ہو۔

باری علیگ کا تذکرہ، بمبئی کے ممدو بھائی کے چاقو کی کہانی، ہیرا منڈی کی کانتا بائی اور خوشیا کی داستان، ایشر سنگھ کا ٹھنڈے گوشت پر پتا پھینکنا، کئی راتوں کی جاگی ایک ویشیا کا اپنے ہی دلّال محبوب کا سر پھاڑ کر قتل کرنا، بھگت سورداس کی کویتائیں، کشمیر کی بیگو کے گریبان میں چھپی مصری کی ڈلی، صفیہ سے شادی کے قصے اور منٹو کو تاریک کھولی میں رہتا دیکھ کر ماں کا ملول ہونا، یہ سب مل کر منٹو کے وجود کا کرب قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔

ناول میں جس طرح مرزا غالب نے آنکھوں دیکھی دلّی کی بربادی اور قتل و غارت گری کو داستان کا روپ دیا ، اسی طرح مصنف نے منٹو کے ذریعے آگ میں جھلستے اور خون میں نہاتے برصغیر کی ایسی تصویر کشی کی کہ قاری اس سانحے کی شدت سے نہ صرف آشنا بلکہ خود کو سوگوار فضا میں گھرا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔

منٹو کی تقسیم کے زہر کو حلق سے اتار کر لاہور چلے آنے کی کہانی۔ بمبئی سے بچھڑ کر لاہور میں زندگی کی ویرانی، فحش نگاری کے فتوے، پیسوں کی تنگی، شراب کی لت اور پھر موت کی جانب سفر کو ایسے کرب سے بیان کیا گیا ہے کہ تمام دکھ قاری کے اندر تک اتر جاتا ہے۔

 یہ بھی پڑھیے: گرداس پور سے وزیرآبادی

مصنف نے الگ الگ صدیوں کے زخموں کو غالب اور منٹو کی زبان سے یوں بیان کروایا ہے کہ پرانے دکھ بھی نئے لگتے ہیں اور ان کی تڑپ دل میں نئے سرے سے جاگزیں ہوتی ہے۔ یہ جادو کسی اور کے قلم سے نہیں بلکہ ایک بنگالی ادیب کے تخیل سے اُبھرا۔

15ویں باب میں جب منٹو غالب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو غالب تڑپ کر اسے جواب دیتے ہیں:

‘ہم کیوں انسان کو شطرنج کے چوخانوں میں قید کرنا چاہتے ہیں؟’

ناول کے صفحات میں منٹو کے بیٹے کی موت کا دکھ ہو یا سوگندھی اور سلطانہ کی کہانیاں، ہر جگہ ایک المناک سرگوشی سنائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا حساس فنکار صرف ۴۳ برس کی عمر میں کیوں بجھ گیا؟ کیوں گھر کا سہارا نہ بن سکا؟ کیوں زمانے سے سمجھوتہ نہ کر پایا؟

کیا وجہ تھی کہ غالب اپنی ذات اور اپنی آفاقی شاعری پر نازاں رہے؟ کیوں خود کو دوسروں سے برتر سمجھا؟ کیوں ایسا لافانی شاعر زندگی بھر پیسے پیسے کو محتاج اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہا؟

منٹو اور غالب وہ تخلیق کر گئے جو عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا اور مصنف نے ان کے ناقدین کو دوزخ نامہ کے ذریعے بے حد نزاکت سے بڑا کرارا جواب دیا ہے کہ ہر اعتراض اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ آخر منٹو اور غالب کی زندگی کیا تھی؟ بجز ایک مسلسل دوزخ نامے کے۔

ناول میں صرف غالب اور منٹو نہیں بلکہ وقت اور تہذیب کی تاریخ اپنی پوری جلوہ گری کرتی ہے۔

غالب اور منٹو کے مکالمے دراصل 2 صدیوں کی تہذیبی کشمکش کا بیان ہیں۔ ایک طرف شاعری کی نزاکت اور کلاسیکی روایت، دوسری طرف جدید انسان کا کرب اور بکھرا ہوا وجود۔ دونوں اپنی اپنی زبان میں دنیا کو سوالات میں گھیرتے ہیں:

ادب کیا ہے؟

مذہب کہاں کھڑا ہے؟

سیاست انسان کو کہاں لے گئی ہے اور سب سے بڑھ کر، فنکار کا مقدر کیا ہے؟

یہ ناول محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک فکری اور ادبی کائنات ہے۔

یہ ناول ‘ادب کے اندر ادب’ کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ بقول میر،

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

اردو ادب دوزخ نامہ صنوبر ناظر فکشن کتاب مرزا غالب منٹو ناول.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فکشن کتاب مرزا غالب منٹو ناول منٹو اور غالب ربی شنکر بال مرزا غالب نہیں بلکہ کرتے ہیں کی کہانی کی زندگی ناول میں اور منٹو منٹو کے مرزا کی کے ساتھ کے بعد بھی ان کے لیے اور ان

پڑھیں:

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔ 

آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔

یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔ 

پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔ 

یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔ 

اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔

میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ 

چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔ 

اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔ 

پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔ 

بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔

ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔

یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔ 

مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔

مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ 

اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ 

وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔ 

اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔ 

اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔ 

یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔ 

انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔

آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔ 

ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔ 

بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔

آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

متعلقہ مضامین

  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • لازوال عشق
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage
  • پاکستان کا سب سے قیمتی نعرہ
  • یہ وہ لاہور نہیں