کچھ ضخیم اور بڑے ناول محض اپنے اختتام تک محدود نہیں رہتے۔ ان کی اصل زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب قاری آخری ورق پلٹنے کے بعد بھی ان کے سحر سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ کتاب بند ہو جانے کے بعد بھی الفاظ کی بازگشت دل و دماغ میں گونجتی رہتی ہے، تحریر کے جادو کی رمق دیر تک قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے اور دل میں یہ خواہش جاگتی ہے کہ کاش یہ داستان ذرا اور طول پکڑتی اور ایک بار پھر ازسرِنو پڑھنے کی پیاس جاگ اٹھتی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب کوئی فن پارہ اپنے کمال کی معراج کو چھو لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اگلے جنم بھی موہے بٹیا ہی دیجیو: صنوبر ناظر
ربی شنکر بال کا ناول ’دوزخ نامہ‘ اسی معراج کا استعارہ ہے۔ اس ناول کو پڑھنا میرے لیے یوں تھا گویا میں جنت کی سیر کو نکل گئی ہوں۔ یہ ناول کی تخلیقی وسعت اور معنوی جسارت ہی ہے کہ قاری دوزخ کے دائرے میں ہوتے ہوئے بھی جنت کی سی کیفیت محسوس کرے۔
ربی شنکر بال کا یہ بنگالی ناول پہلے انگریزی میں ترجمہ ہوا اور پھر جناب انعام ندیم کے ہاتھوں اردو قارئین تک پہنچا۔ انعام ندیم نے ترجمے میں وہی سلیقہ اور مہارت دکھائی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ‘زندگی بھی تو ایک طرح کا ترجمہ ہی ہے’۔ پڑھتے ہوئے کسی لمحے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کتاب پہلے کسی اور زبان میں لکھی گئی تھی؛ لفظوں کی بُنت ایسی دلآویز ہے جیسے یہ تخلیق ہی اردو میں ہوئی ہو ـ
دوزخ نامہ نومبر 2024 میں ‘بُک کارنر جہلم’ نے دوبارہ نئے سرے سے شائع کیا ہے اور کیا خوب اشاعت ہے ۔ کتابوں کی طباعت، تزئین اور سرورق میں ‘بُک کارنر جہلم’ ہمیشہ منفرد مقام رکھتا ہے، ایسے میں اس معرکہ آرا ناول کو کون نہ پڑھنا چاہے گا۔
دوزخ نامہ واقعاتی پلاٹ یعنی آغاز، انجام، کلائمیکس پر مبنی نہیں بلکہ خیالات، فلسفے، تجربات اور تمثیل کے بہاؤ سے بنا ہے۔
جیسے خواب، یادیں، مکالمے اور ذہنی مناظرے۔
یہ بھی پڑھیے: ’رودالی‘
یوں دوزخ نامہ کو ‘نومینک ناول’ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تمثیلی، خیالی اور فلسفیانہ جہان کی سیر ہے جس میں داستان در داستان اور قصے در قصے بُنے گئے ہیں جو روایتی پلاٹ سے ہٹ کر تخلیق کردہ ہیں۔ بیانیہ ایک بہتے دریا کی مانند ہے، جس میں قاری کبھی ڈوبتا ہے، کبھی ابھرتا ہے، مگر خوشی خوشی اس بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔
ناول کے آغاز ہی میں ربی شنکر بال خود کو پیش منظر پر لے آتے ہیں، جب لکھنؤ کے فرید میاں انہیں ایک ناول کا غیر مطبوعہ مسودہ تھماتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سعادت حسن منٹو کی وہ تحریر ہے جو انہوں نے مرزا غالب پر لکھی تھی۔
منٹو اور ناول؟ قاری کا تجسس یہیں سے بیدار ہوجاتا ہے۔
ناول کا منظرنامہ ایک قبرستان ہے مگر ایسا قبرستان جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ جہاں دلّی میں نظام الدین اولیاء کے مزار کے قرب وجوار میں واقع سلطان جی کے قبرستان میں مرزا غالب آسودۂ خاک ہیں، اور لاہور کی میانی صاحب کی تاریک قبر میں منٹو سوئے ہوئے ہیں۔ یہ وہی منٹو ہیں جو زندگی بھر غالب سے مکالمے کے تمنائی رہے۔
ربی شنکر بال کے تخیل نے یہ معجزہ کر دکھایا کہ منٹو اور غالب ایک دوسرے کے روبرو آ بیٹھے اور اپنے اپنے دکھ، ناکامیوں، محبتوں اور زخموں پر دل کھول کر بات کرنے لگے۔
یہ بھی پڑھیے: اک چادر میلی سی
یہ دونوں آفاقی فنکار دو مختلف ادوار، تہذیبوں اور فکری رویّوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی گفتگو کے بیچ بیچ میں ،تاریخ ، ادب ،مذہب ،سیاست ،انسانی جبلتیں اور تہذیبی سوالات در آتے ہیں۔
دونوں نے ہندوستان کو دو الگ صدیوں میں جلتے، بکھرتے اور لہولہان ہوتے دیکھا جِسے مصنف نے اُنہی کی زبانی بڑی مہارت سے ناول کا حصہ بنا دیا۔
غالب کے لہجے میں وہی شکوہ اور فخر جھلکتا ہے جو ان کے اشعار کا خاصہ ہے:
‘آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں، سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے’
اندرونی کرب کی یہ تپش کسی جہنم کی آگ سے بڑھ کر ہے۔ ’دوزخ نامہ‘ دراصل منٹو اور غالب کا مکالمہ ہے، ایک نان لینیر (غیر مستقیم) مکالماتی ناول جس کا بیانیہ کسی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ وقت اور موضوع کے بدلتے دریچوں سے گزر کر قاری کو کہانی در کہانی کی بھول بھلیوں میں لے جاتا ہے۔
مرزا کے مکالمے ان کی شخصیت کی رعنائی اور انفرادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ اپنی نوخیز جوانی کا ذکر کرتے ہوئے وہ چمپئی رنگت، گھنگھریالے مخملی بالوں، استرخانی ٹوپی، مہین جامدانی کُرتے اور چھریرے بدن پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ شاعری میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ شخصیت میں یکتائی بھی ان کا وصف تھا۔ وہ میر تقی میر کو بار بار یاد کرتے ہیں، کبھی ان کے اشعار کی صورت میں، کبھی ان کی المناک محبت کے قصے بیان کر کے۔
‘لکشمی اور سرسوتی ایک ہی چھت تلے کب ٹھہرتی ہیں؟’ مرزا اور منٹو دونوں سرسوتی کے عشق میں ایسے ڈوبے کہ لکشمی ہمیشہ کے لیے ان سے روٹھ گئی۔ مرزا کی زندگی کی راہوں میں کتنے کانٹے بچھے تھے۔ دلّی جیسے شہر میں، جہاں لفظ تولے جاتے تھے، وہاں مرزا کو شاعر کے طور پر جگہ بنانے کے لیے کس قدر ذلت سہنی پڑی۔ ہر مشاعرے میں ان کے کلام کا مذاق اڑایا گیا، ان کی شخصیت کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: ثناء یوسف کی آخری مسکراہٹ اور لال اسکوٹی چلاتی لڑکی
دربار سے نسبت جڑ گئی تو قصیدوں کی فرمائشیں ہونے لگیں، بادشاہ کی شاعری کو سنوارنے کی ذمے داری آن پڑی۔ مگر یہ سب مرزا کے شایانِ شان نہ تھا۔ دل نہ مانتا تھا مگر گھر کی گزر بسر کے لیے یہ بوجھ بھی اٹھانا پڑا ایسے میں داستان سننے کا رَسیا کلّو غالب کا عمر بھر ساتھی رہا۔
ناول میں غالب کی زندگی کا ایک اور موڑ، کم سنی میں امراؤ جان سے شادی اور اپنے سسر معروف صاحب پر طنز کے نشتر برسانا، تصور میں فلک آرا کی ادائیں مرزا کی شوخیِ طبع کی آئینہ دار تھیں۔
ناول میں مرزا کا کلکتےجاتے ہوئے لکھنو میں قیام، روشنیوں کے شہر کاشی کے منیکرنیک گھاٹ کی سیڑھیوں پر رات گئے گنگا کو تکنا۔ پھر کلکتے سے وظیفے کے بجائے قرضوں سے لدے پھندے واپس آنا، مصنف کا قلم ایک آفاقی شاعر کی بے بسی کو بڑے رنج سے بیان کرتا ہے۔
اسی بیچ ایک معمولی سی ڈومنی، منیرہ بائی، مرزا کی زندگی میں ایسی اتری جیسے بن بادل برسات۔ منیرہ کی قربت نے مرزا کی شاعری میں نئی تازگی بھری اور اس کی جدائی نے اس شاعری کو غم کی وہ چاشنی دی جس نے اسے لافانی بنا دیا لیکن منیرہ کی موت نے مرزا کا دل اجاڑ دیا۔
ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ 1857 کا غدر برپا ہوا۔ دلّی لٹ گئی، برباد ہو گئی۔ اور مرزا، جن کی آنکھوں نے اپنی محبوبہ کی موت دیکھی تھی، انہی آنکھوں نے اپنے محبوب شہر کی بربادی کا منظر بھی دیکھا۔ اس دن کے بعد مرزا کی شاعری نے کلام کرنا چھوڑ دیا اور انھوں نے ‘دستنبو’ لکھنا شروع کیا جو دلّی کے ملبے پر کِھلا فارسی نثر کا وہ گلاب بن گئی جس کی خوشبو ہمیشہ تاریخ کے دامن میں بسی رہے گی لیکن بقول مرزا ‘دستنبو ایک شاندار کارنامہ ہونے کے باوجود غداری کا نمونہ بھی ہے۔’
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
مرزا غالب کی داستانوں میں جہاں رابعہ بصری کی روحانی وارفتگی ہے، وہیں رومی اور شمس تبریز کا عشق، کہیں امیر خسرو کی مثنویاں ہیں تو کہیں عمر خیام کی رباعیاں۔ کہیں کاشی تہذیب کی پوری تاریخ اپنی جلوہ گری کرتی ہے۔ تو کہیں کاشی کے مندر اور گھاٹ ہیں تو وہیں سمے کے عہد سے قبل ہندو دیو مالا کے شیو، شکتی اور وشنو کی کہانیاں۔ حقیقت، تاریخ اور تخیل سب ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
اسی طرح منٹو کے مکالموں میں جلیانوالہ باغ کے سانحے کی تلخ یادیں ہیں، امرتسر سے بمبئی کا سفر، جہاں ان کے دوست شیام، کرشن چندر، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کی داستانیں قصے در قصے بُنتی ہیں۔ ربی شنکر بال نے بے باکی کے ساتھ منٹو کے دل کی گہرائیوں میں چھپے جذبات کو زبان دی ہے حتی کہ عصمت اور منٹو کے درمیان اس ذہنی رشتے کو بھی جسے انہوں نے کبھی کھل کر بیان نہ کیا تھا۔ ہجرت کے بعد وہ رشتہ یوں ٹوٹ گیا جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتا ہو۔
باری علیگ کا تذکرہ، بمبئی کے ممدو بھائی کے چاقو کی کہانی، ہیرا منڈی کی کانتا بائی اور خوشیا کی داستان، ایشر سنگھ کا ٹھنڈے گوشت پر پتا پھینکنا، کئی راتوں کی جاگی ایک ویشیا کا اپنے ہی دلّال محبوب کا سر پھاڑ کر قتل کرنا، بھگت سورداس کی کویتائیں، کشمیر کی بیگو کے گریبان میں چھپی مصری کی ڈلی، صفیہ سے شادی کے قصے اور منٹو کو تاریک کھولی میں رہتا دیکھ کر ماں کا ملول ہونا، یہ سب مل کر منٹو کے وجود کا کرب قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔
ناول میں جس طرح مرزا غالب نے آنکھوں دیکھی دلّی کی بربادی اور قتل و غارت گری کو داستان کا روپ دیا ، اسی طرح مصنف نے منٹو کے ذریعے آگ میں جھلستے اور خون میں نہاتے برصغیر کی ایسی تصویر کشی کی کہ قاری اس سانحے کی شدت سے نہ صرف آشنا بلکہ خود کو سوگوار فضا میں گھرا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔
منٹو کی تقسیم کے زہر کو حلق سے اتار کر لاہور چلے آنے کی کہانی۔ بمبئی سے بچھڑ کر لاہور میں زندگی کی ویرانی، فحش نگاری کے فتوے، پیسوں کی تنگی، شراب کی لت اور پھر موت کی جانب سفر کو ایسے کرب سے بیان کیا گیا ہے کہ تمام دکھ قاری کے اندر تک اتر جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: گرداس پور سے وزیرآبادی
مصنف نے الگ الگ صدیوں کے زخموں کو غالب اور منٹو کی زبان سے یوں بیان کروایا ہے کہ پرانے دکھ بھی نئے لگتے ہیں اور ان کی تڑپ دل میں نئے سرے سے جاگزیں ہوتی ہے۔ یہ جادو کسی اور کے قلم سے نہیں بلکہ ایک بنگالی ادیب کے تخیل سے اُبھرا۔
15ویں باب میں جب منٹو غالب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو غالب تڑپ کر اسے جواب دیتے ہیں:
‘ہم کیوں انسان کو شطرنج کے چوخانوں میں قید کرنا چاہتے ہیں؟’
ناول کے صفحات میں منٹو کے بیٹے کی موت کا دکھ ہو یا سوگندھی اور سلطانہ کی کہانیاں، ہر جگہ ایک المناک سرگوشی سنائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا حساس فنکار صرف ۴۳ برس کی عمر میں کیوں بجھ گیا؟ کیوں گھر کا سہارا نہ بن سکا؟ کیوں زمانے سے سمجھوتہ نہ کر پایا؟
کیا وجہ تھی کہ غالب اپنی ذات اور اپنی آفاقی شاعری پر نازاں رہے؟ کیوں خود کو دوسروں سے برتر سمجھا؟ کیوں ایسا لافانی شاعر زندگی بھر پیسے پیسے کو محتاج اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہا؟
منٹو اور غالب وہ تخلیق کر گئے جو عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا اور مصنف نے ان کے ناقدین کو دوزخ نامہ کے ذریعے بے حد نزاکت سے بڑا کرارا جواب دیا ہے کہ ہر اعتراض اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ آخر منٹو اور غالب کی زندگی کیا تھی؟ بجز ایک مسلسل دوزخ نامے کے۔
ناول میں صرف غالب اور منٹو نہیں بلکہ وقت اور تہذیب کی تاریخ اپنی پوری جلوہ گری کرتی ہے۔
غالب اور منٹو کے مکالمے دراصل 2 صدیوں کی تہذیبی کشمکش کا بیان ہیں۔ ایک طرف شاعری کی نزاکت اور کلاسیکی روایت، دوسری طرف جدید انسان کا کرب اور بکھرا ہوا وجود۔ دونوں اپنی اپنی زبان میں دنیا کو سوالات میں گھیرتے ہیں:
ادب کیا ہے؟
مذہب کہاں کھڑا ہے؟
سیاست انسان کو کہاں لے گئی ہے اور سب سے بڑھ کر، فنکار کا مقدر کیا ہے؟
یہ ناول محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک فکری اور ادبی کائنات ہے۔
یہ ناول ‘ادب کے اندر ادب’ کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ بقول میر،
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
اردو ادب دوزخ نامہ صنوبر ناظر فکشن کتاب مرزا غالب منٹو ناول.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فکشن کتاب مرزا غالب منٹو ناول منٹو اور غالب ربی شنکر بال مرزا غالب نہیں بلکہ کرتے ہیں کی کہانی کی زندگی ناول میں اور منٹو منٹو کے مرزا کی کے ساتھ کے بعد بھی ان کے لیے اور ان
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)