اسرائیل نے ایک بار پھر حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ فوج نے غزہ کے سب سے بڑے شہری مرکز پر بمباری کی جہاں لاکھوں فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔

یروشلم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہاکہ اگر حماس غزہ میں یرغمالیوں کو رہا کر دے اور ہتھیار ڈال دے تو جنگ فوراً ختم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس مقصد کو سیاسی ذرائع سے حاصل کرنے میں خوش ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل حماس جنگ کے دوران غزہ میں 21 ہزار بچے معذوری کا شکار ہوگئے، اقوام متحدہ کا انکشاف

اس کے جواب میں حماس کے سینیئر رہنما باسم نعیم نے رائٹرز کو بتایا کہ تنظیم ہتھیار نہیں ڈالے گی تاہم اگر اسرائیل جنگ ختم کرے اور اپنی افواج واپس بلائے تو تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

اسرائیل نے گزشتہ ماہ غزہ سٹی پر حملہ شروع کیا تھا اور اب اس کی افواج شہر کے مرکز سے محض چند کلومیٹر دور ہیں۔

فلسطین کے مقامی محکمہ صحت کے مطابق رات بھر کی فضائی کارروائیوں میں 14 افراد شہید جن میں جنوبی غزہ سٹی کے ایک اسکول پر حملہ بھی شامل ہے جہاں بے گھر فلسطینی پناہ گزین تھے۔

فوج نے رائٹرز کے سوال پر کہاکہ اسکول پر کارروائی کے دوران ایک حماس جنگجو کو نشانہ بنایا گیا اور حملے سے قبل شہریوں کو خبردار کیا گیا تھا۔

ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی افواج غزہ پٹی میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف آپریشن جاری رکھیں گی تاکہ اسرائیلی شہریوں کو لاحق خطرہ ختم کیا جا سکے۔

بلند عمارتیں ملبے کا ڈھیر

فوج نے ہفتے کے اختتام پر غزہ سٹی میں دو بلند و بالا عمارتیں تباہ کر دیں جن میں بے گھر فلسطینی رہائش پذیر تھے۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ ان عمارتوں کو حماس استعمال کر رہی تھی اور شہریوں کو پہلے خبردار کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس الزام کے ثبوت پیش نہیں کیے گئے جبکہ حماس نے اس کی تردید کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل حماس جنگ بندی: سیکڑوں غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ فوج کو غزہ سٹی پر قبضہ کرنے کا حکم دیا تھا، جہاں عالمی سروے کے مطابق لاکھوں فلسطینی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے قحط کی تردید تو کی ہے لیکن بھوک کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔

حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں اب تک 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

حماس کی جانب سے کیے گئے اس حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔ اس وقت 48 یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں جن میں سے قریباً 20 کے زندہ ہونے کا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جنگ بندی کی شرائط اور عالمی ردعمل

اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگ ختم کرنے کے لیے حماس کو یرغمالیوں کی رہائی، ہتھیار ڈالنے اور مستقبل میں غزہ کی حکمرانی میں کردار نہ رکھنے پر آمادہ ہونا ہوگا۔

دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے اگر اسرائیل جنگ ختم کرے اور اپنی افواج واپس بلائے، لیکن وہ ہتھیار ڈالنے پر تیار نہیں۔

یروشلم میں اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے کہا کہ اسرائیل کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے اور فوجی کارروائیاں روکنی چاہییں۔

یہ بھی پڑھیں: حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ شہید ہوگئے، اسرائیلی وزیر دفاع کا دعویٰ

انہوں نے انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

راسموسن نے مزید بتایا کہ زخمی فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں طبی سہولت فراہم کرنے کے معاملے پر گیڈون سار سے بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیلی فوج بمباری حماس غزہ سٹی ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج غزہ سٹی ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ وی نیوز ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ غزہ سٹی فوج نے

پڑھیں:

فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-7

 

جاوید انور

حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور حماس کو نہتا کرنا اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ جس میں اب تک ایک حاصل ہو چکا ہے۔ قطر، مصر، اور ترکی نے حماس کے قائدین کو یرغمال بنا کر جس معاہدے پر دستخط کروائے ہیں، اس میں بھی حماس نے غیر مسلح ہونے کی شرط قبول نہیں کی ہے۔ حماس کے پاس وہ اسرائیلی قیدی جو اسرائیلی بمباری میں عمارتوں کے ملبہ میں دبے ہوئے ہیں، انہیں ہزاروں ٹن ملبے میں ان کی دبی لاشیں نکالنا ناممکن ہے۔ اسرائیل یہ بات پہلے سے سمجھتا ہے۔ وہ حماس کو اس کے ضروری آلات و مشینری بھی مہیا نہیں کر رہا ہے۔ اور انہیں مردہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے پر دوبارہ فلسطین پر حملہ، اور نسل کشی کو جاری رکھنے کا بہانہ بنا رہا ہے۔ اور اب اسے امریکا کو دوبارہ حملے کے لیے منانا رہ گیا ہے۔ اگر یہ کام ہو گیا تو بہت جلد اسرائیلی حملے شروع ہو جائیں گے۔

تاہم اب اسرائیل بالکل ننگا ہو کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس نے جتنے بھی مظالم اور نسل کشی کو چھپانے کے لیے ساری دنیا میں چادریں تانی تھیں، ان کی مضبوط لابی، سیاست، صحافت، دولت، اور پروپیگنڈے کی تمام مشینری فیل ہو رہی ہے۔ آج اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم دنیا میں نہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور یورپ میں ہو رہی ہے۔ آزاد انسانوں کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ صہیونی اسرائیل حمایتی اخبار نیو یارک ٹائمز میں بغاوت ہو چکی ہے۔ اس کے تین سو صحافیوں نے اخبار میں لکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ بڑی تعداد ہے۔ ان لوگوں نے کہا ہے کہ جب تک اخبار یہ اداریہ نہ لکھے کہ امریکا اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے، وہ اخبار میں واپس نہیں آئیں گے۔ یہ اس صدی کی صحافتی دنیا کی سب سے بڑی خبر ہے۔ 174 سال پرانا یہ اخبار جو واقعات کی پوری تاریخ ریکارڈ کرنے کا اکلوتا دعویٰ دار ہے اور ’’نیوز پیپر آف ریکارڈ‘‘ کہلاتا ہے، اور جس نے اسرائیل کی حمایت کی پالیسی کو باضابطہ ادارہ جاتی پالیسی (Institutionalized) بنایا ہوا تھا۔ اسی اخبار نے عراق میں ’’انبوہ تباہی کے ہتھیار‘‘ کی جھوٹی خبروں کو پھیلا کر امریکی رائے عامہ کو ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ اور عراق پر بمباری کرائی۔ صدام حکومت کا خاتمہ کرایا۔ اب یہ اخبار خود پھانسی پر چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ یہودی اسرائیلی لابی اس کی حمایت کرے گی۔ لیکن اس کا وقار اب خاک میں مل چکا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا جو فلسطین دھوکا دہی کا پلان ہے اسے پاکستان، سعودی عرب، اردن، امارات، قطر، ترکی، اور مصر کے منافق حکمرانوں کی طرف سے قبول کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب فلسطین کی واحد سیاسی اور فوجی قوت حماس کو کچلنے کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل اخوان کو کچلنے کے لیے یہ لوگ بشمول اسرائیل مصری آمر کی مدد کر چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کے قتل عام پر انہیں بلینز آف ڈالرز ملے تھے۔ اب یہ لوگ اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں جو اس وقت فلسطین کی واحد زندہ سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔

اخوان اور حماس انہیں اس لیے دشمن نظر آتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلامی نظامِ سیاست اور حکومت کے مدعی ہیں جس سے مسلم دنیا کے سارے ملوک، فوجی آمر، اور جمہوری بادشاہ، اور فوجی بیساکھی پر چلنے والی جعلی جمہوریتیں خوف کھاتی ہیں۔ اور خود کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں مروانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل کی قبولیت کی مہم ہے اور امریکا کو بلینز آف ڈالر کے تحائف دیے گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں سارے بے شرم الشیخ جمع ہوئے۔ شہباز شریف نے ٹرمپ کو سیلوٹ کیا اور بے غیرتی کے تمام حدود کو عبور

کیا۔ مسٹر شریف نے برصغیر اور فلسطین میں ’’ملینز آف پیپلز‘‘ کی ’’جان بچانے‘‘ پر ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا۔ شراب خانے کے ساقی کا اور ہوٹل کے کسی بیرے کا کردار بھی اس سے کہیں اچھا ہوتا ہے۔ نوبل ایوارڈ دینے والی تنظیم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایوارڈ میں ’’بے غیرتی‘‘ کا ایوارڈ کا اضافہ کرے اور مسٹر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ مسٹر شریف کو اس ایوارڈ کے لیے نامزد کرے۔ بہر کیف بے شرمی، بے غیرتی، ذلت و رسوائی، قدم بوسی، چاپلوسی، خوشامد و مسکہ بازی کا ایک عالمی مقابلہ ہوا اس میں پاکستان کا وزیر اعظم جیت گیا۔ اور ویسے بھی نوبل امن انعام ان لوگوں کو ملتا ہے جو اسرائیل کی حمایت میں، اسے فائدہ پہنچانے میں بے غیرتی کی تمام حدود عبور کر جاتے ہیں۔ شرم الشیخ جہاں مصر نے مسلم دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پہلا معاہدہ کیا تھا، اس کا ایک ظالم اور بے غیرت فوجی حاکم السیسی بہت تعجب سے مسکراتے ہوئے اس ’’شریف‘‘ انسان کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پاکستانی کس طرح بے غیرتی اور بے شرمی میں اس کو مات دے گیا۔

مسلم ممالک کے علما سے گزارش ہے کہ آنکھیں بند کر اپنی حکومتوں کے بیانیوں پر اپنے فتوے جاری نہ کریں۔ سب سے پہلے فلسطین کے اصل مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے امریکا اور اسرائیل میں جو سازش چل رہی ہے، اسے سمجھیں۔ اپنی نگاہوں کے سامنے ہمیشہ ’’القدس‘‘ کو رکھیں۔ اس کے لیے اسرائیل فلسطینی امور کے وہ امریکی ماہرین جو فلسطین کے حمایتی ہیں اور اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے سخت مخالف ہیں، انہیں سنیں۔ انگریزی سے اپنی زبان میں ترجمہ حاصل کرنا اب آسان ہے۔ خبر اور معلومات لینے کے لیے اپنے قومی اخبارات اور میڈیا پر انحصار کم کریں اور اوپر اٹھ کر دنیا بھر کے متبادل میڈیا کو بھی کھنگالیں۔ فلسطین کے ایشو پر مسلم دنیا سے کہیں بہتر انڈیا کے کچھ صحافی اپنے یوٹیوب چینل پر بہت اچھی کوریج دے رہے ہیں۔ جیسے The Credible History کے اشوک کمار پانڈے، The Red Mike کے سوربھ شاہی، اور KAY Rated YouTube پر بغیر شناخت کے آنے والے ایک نوجوان۔ اور بھی کئی ہیں لیکن یہ بہترین اور قابل اعتماد معلومات کے ساتھ آتے ہیں۔ ان تینوں کی زبان اردو ہے۔

صرف پچھلے دو سال میں ہی دہشت گرد ریاست ِ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی مہم میں لاکھوں لوگوں کا قتل کر چکا ہے۔ جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ لاکھوں لوگ معذور ہوئے، لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ عمارتیں بموں سے مسمار کر دی گئیں، اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل وہ واحد دہشت گرد ریاست ہے جس نے خوراک کو بھی آلہ ِ جنگ کے طور پر استعمال کیا، اور ہزاروں لوگوں کو بھوکا مار دیا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے پلان میں فلسطینی ریاست کا کوئی وعدہ نہیں ہے اس 20 نکاتی منصوبہ میں نکات 1، 5، 11 اور 20 میں واضح طور پر حماس مجاہدین سے اسلحہ چھیننے کی بات ہے، حماس کو حکمرانی سے باہر کرنے کی بات ہے، اور صرف ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی اور ان کی جلاوطنی یعنی فلسطین سے نکلنے کی بات کی گئی ہے۔ حماس فلسطین اور غزہ کی منتخب اور نمائندہ اتھارٹی ہے۔ اس پلان میں اس کے کسی بھی رول کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اب جو کچھ طے ہوا ہے اس سے بھی اسرائیل ببانگ ِ دہل مْکر منا رہا ہے۔

غزہ میں نسل کشی کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ امدادی سامان کے ٹرک کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ پاکستانی علما کو چاہیے کہ ایٹمی طاقت پاکستان کی افواج جس کی فضائیہ نے بھارت کے ساتھ جنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، مشورہ دیں، فتویٰ دیں اور اس پر جمے رہیں کہ وہ اسرائیل پر حملہ کر کے مظلوم فلسطین کو آزاد کرائے۔ ایران نے بغیر اپنی فضائیہ کے زمین سے فضا میں مار کرکے اسرائیل کو اس حد تک دہلا دیا تھا کہ اس حملے کی زد میں نیتن یاہو کا اپنا سیکرٹریٹ بھی آ گیا تھا۔ پاکستان کو تو بلا شبہ فضائی برتری حاصل ہے۔ مشورہ یہ دیا جائے کہ افغانستان اور انڈیا سے جنگ (فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لیے دشمنوں کی سازش) کی فضا کو ختم کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے فوکس کیا جائے۔

جاوید انور

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
  • اسرائیل کی جانب سے مزید 30 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ انتظامیہ کے حوالے
  • غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • ہتھیار چھوڑنے کا معاملہ پیچیدہ ہے، اتفاق رائے کی ضرورت ہے: حماس
  • حماس نے آج 2 افراد کی لاشیں اسرائیلی حکام کے حوالے کردیں
  • غزہ میں حماس کیساتھ جھڑپ میں اسرائیلی فوج کا اہلکار ہلاک
  • حماس سے جھڑپ میں صیہونی فوج کا اہلکار واصل جہنم
  • حماس سے جھڑپ میں اسرائیلی فوج کا اہلکار ہلاک