نیپال کے وزیرِاعظم مستعفی، سوشل میڈیا پابندی اور پُرتشدد احتجاج نے حکومت ہلا دی
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
کھٹمنڈو: نیپال میں سوشل میڈیا پابندی کے خلاف ملک گیر مظاہروں اور بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے نتیجے میں وزیرِاعظم کے پی شرما اولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق استعفیٰ سے قبل اپنے بیان میں وزیرِاعظم اولی نے کہا کہ ہمیں ہر مسئلے کا حل پُرامن مکالمے کے ذریعے تلاش کرنا ہوگا، تشدد نیپال کے مفاد میں نہیں ہےتاہم ان کا فیصلہ عوامی غصے اور سیاسی بحران کو کم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگا، یہ ابھی واضح نہیں۔
نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہزاروں مظاہرین نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ پولیس اور عوام کے درمیان شدید جھڑپوں کے دوران 19 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
خیال رہےکہ مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔
صورتحال اس وقت مزید سنگین ہوگئی جب مشتعل ہجوم نے سیاستدانوں کے گھروں پر حملے کیے اور کئی مقامات پر آگ لگا دی۔
عوامی دباؤ اور ہلاکتوں کے بعد حکومت نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا، اس پابندی کے تحت 26 بڑے پلیٹ فارمز، بشمول فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب بند کر دیے گئے تھے۔
حکام نے اس اقدام کو جعلی خبروں اور نفرت انگیزی کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش قرار دیا تھا لیکن عوام نے اسے آزادیٔ اظہار پر حملہ سمجھتے ہوئے شدید ردعمل دیا۔
واضح ر ہے کہ یہ بحران صرف سوشل میڈیا پابندی تک محدود نہیں بلکہ نیپالی عوام میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، کرپشن اور حکومتی عدم استحکام کے خلاف غصے کی علامت ہے۔ اولی کے استعفے کے بعد نیپال ایک نئے سیاسی بحران میں داخل ہو گیا ہے جہاں مختلف جماعتیں اقتدار کی راہیں تلاش کرنے اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرنے میں مصروف ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ڈاکو راج کے خاتمے اور امن قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں سے بات کرنے کے بجائے آپریشن تیزکرنے کا فیصلہ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔سندھ کے عوام نے بدامنی اور ڈاکو راج کے خلاف کشمور سے کراچی اور اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیے لیکن حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی جو کہ بیڈگورننس اور بے حسی کی انتہا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ سالانہ بجٹ میں سیکورٹی اورپھر ڈاکوئوں کے خاتمے کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے عوام امن کو ترس رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ پانی کم ہوا تو آپریشن کیا جائے گا، اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ڈرون کے ذریعے آپریشن کیا جائے گا اور کبھی پنجاب چلے جانے کا ڈراما کیاجاتا ہے۔ اسی طرح وزیر داخلہ، آئی جی سندھ پولیس کے مختلف بیانات ہیں۔ اب ایک بار پھر وزیراعلیٰ کی جانب سے الگ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ یہ حکومت ہے یا مذاق؟ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ حکمران جماعت کے بااثر رہنماؤں اور مشیروں کی جانب سے مجرموں کی رہائی اور ڈاکوؤں کو خطرناک ہتھیاروں کی فراہمی سے کیوں بے خبر ہیں؟ یہ سب کچھ تو پہلے ہی میڈیا دے چکا ہے۔ شکارپور کے ایک پولیس افسر کی جانب سے ڈاکوئوں کوپیپلز پارٹی سے وابستہ وڈیروں کے بنگلوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کی رپورٹ کہاں غائب کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ اگر مراد علی شاہ سندھ میں قیام امن اور ڈاکوئوراج ختم کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں خالی خولی بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو پارٹی کے ان بااثر لوگوں کے گلے میں پھندا ڈالنا چاہیے جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں اور منافع کے لیے اغوا کی وارداتیں کراتے ہیں اور پھر پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بے رحمانہ آپریشن کیا جائے، تاکہ عوام کو جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جائے اور سندھ میں امن بحال ہو۔