فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
امریکا نے فلسطینی وفد کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا ہے جب کہ قابض اسرائیلی حکومت پہلے ہی نیتن یاہو کی پیش کش کے مطابق غزہ کے پورے علاقے پر قبضے اور فلسطینیوں کو شمال سے جنوب تک بے دخلی کرنے کے لیے ایک تدریجی منصوبے کی منظوری دے چکی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس کے نواح میں فائرنگ کے واقعے میں 6 افراد ہلاک اور کم از کم 21 زخمی ہوگئے۔ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی پر تنقید کرنے پر اسپین کی ڈپٹی وزیراعظم یولاندا دیاز اور وزیر سیرا راگو کے اسرائیل داخلے پر پابندی عائد کردی۔
امریکا نے اپنی ویزا پالیسی کے ذریعے فلسطینی آواز کو عالمی تنظیم میں شرکت سے محروم رکھنے کی باقاعدہ کوشش کی ہے، صدر محمود عباس اور 80 دیگر فلسطینی حکام کو یونیورسل جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے ویزا دینے سے انکار کیا گیا ہے، اس اقدام نے امریکی سفارت کاری پر تحمل اور غیر جانبدار وعدے کی حقیقت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ درحقیقت امریکا کا یہ اقدام موجودہ صورتِ حال میں فلسطینی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر پوری نمایندگی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کو اپنے ملک کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ہمیشہ امریکا کی غیر مشروط حمایت پر بھروسہ رہا ہے۔ سابق امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اگرچہ کبھی کبھار غزہ میں اپنے پیدا کردہ بحرانوں پر بیزاری کا اظہارکیا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایسی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ اس نے فروری میں یہاں تک کہہ دیا کہ غزہ کی پوری آبادی کو نسلی طور پر صاف کردینا چاہیے۔
امریکی حمایت اسرائیل کی جنگی مشین کے لیے نہایت اہم رہی ہے، کیوں کہ امریکا نے وہ ہتھیار فراہم کیے، جن سے اسرائیل نے غزہ میں 64 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا، سفارتی طور پر بھی امریکا نے سلامتی کونسل میں اپنی ویٹو طاقت استعمال کر کے جنگ بندی کے مطالبات کو روک دیا، حالاں کہ غزہ میں اموات کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی تھی۔
اسی طرح امریکا نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی اسرائیل کا ساتھ دیا، جہاں اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات ہیں اور اس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اُن اراکین پر پابندیاں عائد کیں، جنھوں نے نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواف گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم پرگرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ امریکا کے ممکنہ طور پر نسل کشی میں شریک ہونے کو کئی ریاستوں اور تنظیموں نے نشانہ بنایا اور انسانی حقوق کے ادارے اس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی حمایت روک دے، لیکن اگر ایسا ہو جائے تو؟
بلاشبہ امریکی حمایت نے اسرائیل کو ہمیشہ کھلی چھٹی دی ہے، جیسا کہ دنیا نے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے ساتھ دیکھا، اس لیے اسرائیل کی یہ مجبوری کہ وہ خطے میں سنجیدگی سے ضم ہو جائے، یہ کبھی بھی اولین ترجیح نہیں رہی ہے۔ اسرائیل مالی طور پر امریکا پر بہت انحصار کرتا ہے، اسی مالی سپورٹ کے بل بوتے پر اسرائیل نے تیزی سے ہائی ٹیک ہتھیاروں کی صنعت پر انحصار بڑھایا ہے، جسے امریکا امداد اور تحقیق و ترقی کے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے۔
اسرائیل معاشی طور پر بھی اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ امریکا ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، جیسے ایک کوچ پسِ پردہ موجود ہو،جو قرضوں کی ضمانتیں اور دیگر سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
فلسطینیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور اندرونی سیاست میں بھی امریکا اسرائیل کو مکمل استثنیٰ دیتا ہے، اسرائیلی سیاست دان نسل کشی پر مبنی جنگ لڑ سکتے ہیں یا آباد کاری کی حمایت کر سکتے ہیں، اور اس کا کوئی خمیازہ نہیں بھگتنا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی عوامی رائے میں اسرائیل کی ساکھ پہلے ہی زمین بوس ہوچکی ہے، لیکن امریکی حمایت نے اسے عملی طور پر عالمی جوابدہی سے بچا رکھا ہے۔ بنیادی طور پر امریکا کے بغیر اسرائیل کو ایک عالمی پُر تعصب ریاست کی طرح سمجھا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں غزہ سٹی میں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی اور بمباری کی وجہ سے مزید سیکڑوں فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہو گئے جب کہ ہزارہا افراد انخلا کے اسرائیلی احکامات کے باوجود کھنڈرات میں رہنے پر مصر ہیں۔ یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار اور یورپی کمیشن کی نائب صدر ٹیریسا ریبیرا نے غزہ پٹی کی جنگ کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر کڑی تنقید کی ہے۔
پیرس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’غزہ میں نسل کشی یورپ کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ مؤثر اقدام نہیں کر سکا اور نہ ہی ایک آواز میں بول سکا۔‘‘ انھوں نے 27 رکنی یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ فوری اور مشترکہ موقف اختیار کرے تاکہ خونریزی کو روکا جا سکے۔ کئی مغربی ریاستیں جو شروع میں اسرائیل کی حمایت کرتی تھیں، اب بے بس محسوس کر رہی ہیں اور دراصل اسرائیل کے زوال کی خواہش مند ہیں، کئی ممالک، حتیٰ کہ جرمنی کے لیے بھی جنگ کے بعد کا وہ رشتہ جو اسرائیل سے بندھا ہوا تھا، اب اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ امریکا کے بغیر شاید برقرار نہ رہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ پٹی میں قحط کا باقاعدہ اعلان تو کیا گیا ہے اور یہ عالمی ادارہ اسرائیل پر جنگ بندی پر زور بھی دیتا رہا ہے، تاہم اب تک غزہ میں جاری لڑائی کے لیے ’’ نسل کشی‘‘ کی اصطلاح باقاعدہ طور پر استعمال نہیں کی گئی۔ یورپی یونین بھی حالیہ کچھ عرصے میں اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ کر رہی ہے، تاہم یہاں بھی غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو باقاعدہ طور پر ’’ نسل کشی‘‘ قرار نہیں دیا گیا۔
عالمی عدالت برائے انصاف اس جنگ کی بابت جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کی سماعت کر رہی ہے، جس میں جنوبی افریقہ نے غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں کو ’’ نسل کشی‘‘ قرار دینے کی استدعا کی ہے۔غزہ میں اسرائیلی فوج کی خونریز کارروائیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا، قابض فوج نے غزہ میں مزید 52 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔عرب میڈیا کے مطابق صیہونی فوج نے رہائشی عمارتوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے کرکے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا۔ غزہ میں 7اکتوبر 2023کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہدا کی مجموعی تعداد 64ہزار 522ہوگئی جب کہ ایک لاکھ 63ہزار 96افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
حالیہ چند ماہ میں بین الاقوامی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے، جہاں مغربی ممالک کے سرکاری حکام اور انسانی حقوق کے کارکن جو فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں یا اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہیں، انھیں اسرائیل نے داخلے سے روکنے کی کثیر تعداد میں پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس نوعیت کی پابندیاں عالمی توازن اور انسانی حقوق کے عالمی ضوابط میں واضح تضاد کا اظہارکرتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں 64 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ غزہ مکمل طور پر تباہی کا شکار ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں بھی فلسطین میں مبینہ نسل کشی کے مقدمے کا سامنا ہے۔ ICC کے وارنٹس، مغربی ممالک کی مذمتیں اور فلسطینی یکجہتی کی حمایت میں سنگینی، ایک ساتھ دیکھنے پر ہر درد مند اور باشعور شخص کو سوچنے پر مجبورکرتے ہیں کہ کیا بین الاقوامی نظام اپنا فرض نہیں بھول رہا؟ کیا انصاف کے تقاضے طاقت کی زمین پر پس پشت نہ پڑ رہے؟
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ انسانی حقوق اور انصاف کے عالمی معیار زیادہ تر سیاسی طاقت کے گھیرے میں رہ گئے ہیں۔ جب ایک ریاست پر غیر انسانی طریقے سے حملے کا الزام ہو اور انسانی تنظیموں کے حقوق کا تحفظ اس قدر خطرے میں ہو، تو عالمی ادارہ جات، اقوام متحدہ اور متعلقہ عدالتیں مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت رکھتے ہیں۔
رویے اور موقف صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ عملی اقدامات اور اخلاقی عائد کردہ پابندیوں میں محسوس ہونے والے فرق کی ضرورت ہے۔ یہ سب جب اقوام متحدہ کے امن کے مجمعے جنرل اسمبلی کی خموشی میں سما جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ انصاف اور انسانی حقوق کے حصول کی مہم اب بس بیانی اور قراردادوں کا نام ہی رہ گئی؟ اگر عالمی ادارے عملی اقدامات کے بجائے فارمولوں میں الجھے رہیں تو خون کی قیمت صرف اعداد و شمار بن کر تاریخ کی بے آواز نظموں میں رکھی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور انسانی حقوق کے فلسطینیوں کو بین الاقوامی اقوام متحدہ میں اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کو اسرائیل کی اسرائیل پر امریکا نے نیتن یاہو کی حمایت غزہ پٹی کرتا ہے کے ساتھ رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟