دہشت گردی کی وارداتوں کے خوفناک نتائج
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کلپرٹ اسٹڈیزکی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ اگست کے مہینے میں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں دہشت گردی کی ریکارڈ وارداتیں ہوئیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ ماہ دہشت گردی کے 147 حملوں میں 194 افراد جاں بحق ہوئے۔
اس مہینے دہشت گردی کا واقعہ کوئٹہ میں ہونے والا خوف ناک دھماکا ہے۔ یہ دھماکا بلوچستان کے حالات کو مزید سنگین بنانے کے رجحان کا مظہر ہے۔ اطلاعات کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے قوم پرست رہنما کی برسی کے موقعے پر ہونے والے جلسے کے اختتام پر ایک خوفناک دھماکا ہوا۔ اس دھماکے میں بلوچستان کے اہم قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل، محمود اچکزئی اور دیگر رہنما بال بال بچ گئے۔
اس حملے میں 15 سیاسی کارکن جاں بحق ہوئے اور ایک انتہا پسند دہشت گرد مذہبی گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ سردار اختر مینگل پر اس سال یہ دوسرا قاتلانہ حملہ تھا۔ اس جلسے میں جو رہنما شریک ہوئے تھے وہ سب پاکستان کے آئین کے مطابق بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس دہشت گردی کے تمام حقائق کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض قوتوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں کی جان لینے کی کوشش کی۔
ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں کوئٹہ بار کے صدر کے قتل کے بعد سول اسپتال کوئٹہ پر جمع ہونے والے وکلاء پر حملے میں 80 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ یہ اس نوعیت کا دوسرا خطرناک واقعہ ہے۔ سردار عطا اللہ مینگل کی پوری زندگی قانون کی عملداری اور بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔ سردار عطاء اللہ مینگل میر غوث بخش بزنجو کے مشورے پرکالعدم نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے نیپ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پہلے آمر جنرل ایوب خان کے خلاف جدوجہد سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔
جب سردار عطاء اللہ مینگل نے ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک میں حصہ لیا تھا تو انھیں جیل جانا پڑا۔ حکومت نے سردار عطاء اللہ مینگل کو سردار کے عہدے سے ہٹا کر ایک اور شخص کو مینگل قبیلہ کا سردار بنادیا تھا مگر مینگل قبیلے کے لوگوں نے نئے سردار کی اطاعت کرنے سے انکارکیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل غوث بخش بزنجو، سردار خیر بخش مری اور سردار اکبر بگٹی کے ساتھ کئی سال تک جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہا ہوئے۔
1970کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان سے اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔ نیشنل عوامی پارٹی نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور مشرقی پاکستان میں ایکشن کی مخالفت کی تھی۔ جب 20 دسمبر 1971کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکا عہدہ سنبھالا تو بھٹو حکومت نے بلوچستان کی اکثریتی جماعت کے کسی رہنما کو صوبہ کا گورنر بنانے کے بجائے ایک اور رہنما سردار غوث بخش رئیسانی کو گورنر بنادیا۔
بہرحال پھر صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے فیصلے میں تبدیلی کی اور نیشنل عوامی پارٹی سے معاہدہ کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کو گورنر مقررکیا گیا۔ نیپ نے جمعیت علمائے اسلام کی حمایت حاصل کی، یوں بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سردار عطا اللہ مینگل نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ نیپ کی حکومت 8 ماہ تک جاری رہی، وزیر اعظم بھٹو نے نیپ کی حکومت کو برطرف کیا۔ نیپ کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر کے سازش کا مقدمہ بنا کر حیدرآباد جیل میں مقید کردیا گیا یوں بلوچستان میں بدامنی پھیل گئی۔ سیاسی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اگر نیپ کی حکومت پانچ سال تک اقتدار میں رہتی تو بلوچستان قبائلی نظام سے جدید جمہوری نظام کی طرف بہت تیزی سے سفر کرتا۔
جب سردار عطا اللہ مینگل جیل میں تھے تو نامعلوم افراد نے ان کے بڑے بیٹے اسد اللہ مینگل اور اس کے ساتھی کو اغواء کیا۔ اسد اللہ مینگل کن حالات میں جاں بحق ہوئے سرکاری ریکارڈ میں اس بارے میں خاموشی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ مقدمہ ختم ہوا اور رہنما رہا ہوئے مگر پھر نیپ کے یہ رہنما ایک جماعت میں جمع نہ ہوسکے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے ہر دور میں بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ ان کے صاحبزادے اختر مینگل مختصر عرصے کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انھیں کئی سال کراچی جیل میں نظر بند رکھا گیا۔
بلوچستان کے حالات نئی صدی کے آغاز کے ساتھ خراب ہونا شروع ہوئے۔ سردار اکبر بگٹی کو ایک آپریشن میں ہلاک کردیا گیا جس کے بعد بے چینی بڑھ گئی۔ برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی اور امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔ سرمچاروں کے کئی گروہوں نے دیگر صوبوں سے آنے والے ملازمین، ڈاکٹر، انجنیئر، صحافیوں، خواتین اور اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی۔ لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں اور حالات بدستور خراب ہوتے چلے گئے۔ 2013میں نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔
انھوں نے حالات کو بہتر بنانے کی کچھ کوشش کی۔ ڈاکٹر مالک نے لندن اور سوئٹزر لینڈ جا کر جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ ڈاکٹر مالک اور میر حاصل بزنجو کی ان کوششوں کے نتائج آنا ابھی باقی تھے کہ ان کی حکومت کو رخصت کردیا گیا، بلوچستان میں انارکی بڑھتی چلی گئی۔ بلوچستان میں حالات اس حد تک خراب ہوگئے ہیں کہ ریل اور سڑک سے سفر مشکل ہوگیا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملوں اور کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد کئی دن تک ریل گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہتی ہے۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ 2018 اور 2023کے انتخابات میں پاکستان کے آئین کے تحت حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی جماعتوں کے رہنماؤں کو شکست سے دوچار کیا گیا اور ایسے افراد منتخب ہوئے جن کی اپنی کوئی عوامی حیثیت نہیں تھی۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی اہم شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس کے نوجوانوں کے روزگارکا معاملہ انتہائی گھمبیر ہوچکا ہے، مکران ڈویژن کے شہروں کے علاوہ کوئٹہ اور خضدار وغیرہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے معمول بن گئے ہیں۔ گوادر کے ماہی گیر بحیرہ عرب میں ماہی گیری کے اپنی دائمی حق کے لیے سال بھر دھرنے دیتے ہیں۔
بلوچستان کے حالات کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن بھی احتجاج پر مجبور ہیں۔ انھوں نے پہلے گوادر میں احتجاج کیا، پھر گزشتہ مہینہ لاہور تک مارچ کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے حلقے کہتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمن کو حکام نے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں وہ محض یقین دہانیوں تک ہی محدود رہیں۔ کوئٹہ کے حدود اربع سے واقف لوگوں کو حیرت ہے کہ چمن سے لے کر کوئٹہ کے اطراف تک قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے علاوہ پولیس اور بلوچستان لیوی کی چوکیاں قائم ہیں۔ کوئٹہ بہت چھوٹا شہر ہے۔ کوئٹہ دو بڑی شاہراہوں اور چند گلیوں پر مشتمل ہے، لٰہذا کوئٹہ میں دھماکوں کی خبریں کچھ اور ظاہر کرتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں کو جان سے مارنے کی کوشش کے خطرناک اثرات ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد کی حکومت اب صرف ان رہنماؤں سے ہی مذاکرات کرسکتی ہے، اگر یہ رہنما سیاست کے میدان سے لاپتہ ہوگئے تو پھر بلوچستان کے حالات کیا ہوں گے؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طالب علم اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کے حالات اللہ مینگل نے بلوچستان میں دہشت گردی کی ہونے والے پارٹی کے کی حکومت کے لیے کے بعد
پڑھیں:
پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے لئے نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے ہے، بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا ہے،پاکستان نے بھارت کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا، بھارت کی بلاجواز جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، جس پر بھارت نے جنگ بندی کی درخواست کی.(جاری ہے)
ان خیالات کااظہار انہوںنے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چار روزہ جنگ میں پاکستان نے فتوحات کی ایک نئی داستان رقم کی ہے مودی حکومت اور ہندوتوا نظریے کو عبرتناک شکست ہوئی بھارت ایک غاصب اور جارح ملک ہے جو مظلوم بننے کی کوشش کر رہا ہے پہلگام جیسے واقعات کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہے پہلگام واقعے کے حوالے سے پاکستان نے آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی. وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے خطے میں پائیدار امن کےلئے ہمیشہ اپنا موثر کردار ادا کیا ہے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے ہے بین الاقوامی اصولوں سے روگردانی کرنے والا بھارت مظلومیت کا ڈھونگ نہیں رچا سکتا. عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا ہے عسکری میدان میں شکست کے بعد بھارت اب کھیل کے میدان میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے. وفاقی وزیرنے کہاکہ پاکستان نے خطے میں امن و استحکام کے لئے کلیدی کردار ادا کیا ہے پاکستان کے لوگ اس تہذیب کا حصہ ہیں جہاں روایات کو اہمیت دی جاتی ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے ہم مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل چاہتے ہیں پاکستان خطے میں امن کےلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا.