رواں صدی میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے پوری دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، جس نے نہ صرف ہمارے روزمرہ کے کام کاج، چھوٹے بڑے کاروبار، لین دین اور یہاں تک کہ تعلیم کے پھیلاؤ اور حصول کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہر میدان میں انسانی دسترس وسیع تر ہوچکی ہیں۔ دنیا بازیچہ اطفال (Global Village ) بن کر رہ گئی ہے اور اب مرزا غالب کا یہ شعر صادق ہوتا نظر آتا ہے۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
یہ سوال شدت اختیارکر رہا ہے کہ رواں صدی میں تعلیم، ترقی کن بلندیوں کو چھو رہی ہوگی؟ ضرورت کو ایجاد کی ماں کہا جاتا ہے، یوں تو تعلیمی میدان میں ڈیجیٹل لرننگ کا آغاز ہوچکا تھا اور دنیا بھرکے تعلیمی ادارے اس سے مستفیض بھی ہو رہے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ کووڈ 19 کے بعد دنیا کی ترقی یک لخت جامد ہونے کے بجائے، ایک نئے جدید رنگ میں ڈھل گئی۔ ٹیکنالوجی نے روایتی کلاس روم کو ورچوئل جگہوں میں بدل دیا ہے، جہاں تعلیمی مواد دنیا بھر میں نشرکیے جانے لگے۔
مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے تمام شعبہ ہائے تعلیم کا مواد مہیا کیا گیا۔ اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی امتحانی پرچوں کی جانچ کی جانے لگی ہے۔ طلبا کی تدریس کے لیے بھی پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔ یوں ڈیجیٹل لرننگ اب اختیار نہیں بلکہ ضرورت بن گئی۔
اس نے جہاں تعلیمی تسلسل کو یقینی بنایا وہیں کئی سنگین مسائل نے بھی جنم لیا، مثلا ناہموار رسائی، انسانی تعلق کی کمی اور طلبہ میں بڑھتی بے دلی۔ مصنوعی ذہانت نے تعلیم کو نئی شکل دی ہے، ذاتی نوعیت کا مطالعہ ممکن بنایا اور اساتذہ کا بوجھ کم کیا، لیکن اس کے ساتھ ایک خطرہ بھی ہے، طلبہ اس پر زیادہ انحصار کرکے تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیت، خود اعتمادی اور مسائل کو حل کرنے جیسی بنیادی صلاحیتیں کھو رہے ہیں اور ڈیجیٹل مدد پر انحصار کر رہے ہیں۔
اصل سوال یہ نہیں کہ مشین ہماری تعلیمی ضرورت کو پورا کر رہی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا طلبہ اب بھی سوال اٹھانے، نیا سوچنے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟تعلیم کا مرکز اب بھی انسانی رشتہ ہے۔ استاد صرف معلومات دینے والا نہیں بلکہ رہنما، حوصلہ دینے والا اور اخلاقی رہبر بھی ہے۔
کوئی بھی سافٹ ویئر جذباتی مدد یا فوری رہنمائی فراہم نہیں کرسکتا۔ آنے والے وقت میں تعلیم کو عملی اور تحقیقی منصوبوں پر مبنی ہونا ہوگا، جہاں طلبہ حقیقی مسائل حل کرنے،گروپ میں کام کرنے اورکمیونٹی سے جڑنے کی ترغیب دی جائے گی۔ صدی کے بڑے چیلنجز، ماحولیاتی تبدیلی، عدم مساوات اور ٹیکنالوجی میں اخلاقی مسائل، بین المضامینی سوچ کے بغیرحل نہیں ہوسکتے۔
طلبہ کو سائنس اور اخلاقیات، ٹیکنالوجی و فن، معیشت و ماحول کے درمیان تعلق سمجھنا ہوگا۔ ساتھ ہی تیز رفتار دنیا میں مسلسل نئی مہارتیں سیکھنا ناگزیر ہوگا۔ تعلیمی ادارے اور دفاتر سبھی عمر بھر سیکھنے کے مراکز بن جائیں گے۔
طاقتور ڈیجیٹل اوزاروں کے بڑھتے اثرات اخلاقی ذمے داری کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔ طلبہ کو صرف AI کا استعمال نہیں بلکہ اس پر سماجی، فلسفیانہ اور اخلاقی سوالات اٹھانا بھی سکھانا ہوگا۔ اسی کے ساتھ ذہنی صحت کو بھی اہمیت دینی ہوگی۔
آن لائن تعلیم، مقابلے اور سوشل میڈیا نے طلبہ میں دباؤ اور ذہنی بیماریوں کو بڑھا دیا ہے۔ مستقبل کی تعلیم کو تعلیمی کامیابی کے ساتھ ساتھ جذباتی فلاح کو بھی برابر اہمیت دینی ہوگی۔جہاں ایک طرف مستقبل کے کلاس رومز میں AI اور Augmented Reality کا خواب دیکھا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف لاکھوں بچے آج بھی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔
ڈیجیٹل خلا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ٹیکنالوجی ہمیشہ ترقی کے مترادف نہیں۔ بائیسویں صدی کی تعلیم کو لازمی طور پر شمولیتی ہونا چاہیے، جہاں ہر بچے کو ٹیکنالوجی اور ماہر اساتذہ کی مساوی رسائی حاصل ہو۔
تعلیم کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ ایک وہ جو آرام اور خود کاری کی طرف جاتا ہے جہاں مشینیں انسانی محنت کو بدل دیں۔ جہاں طلبہ تعلیمی مواد کے علاوہ غیراخلاقی اور غیر فائدہ مند معلومات حاصل کر کے معاشرے کے لیے ناسور بن سکتے ہیں۔
دوسرا راستہ وہ ہے جو تعلیم کو انسانی، اخلاقی اور تخلیقی سرگرمی کے طور پر نئی ترغیب دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کو سیکھنے میں مددگار ہونا چاہیے، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ مستقبل کے کلاس رومز تعاون، تجسس اور ہمدردی سے بھرپور ہونے چاہییں نہ کہ خاموش کمروں میں اسکرینوں سے اٹے ہوئے۔
آخرکار، ڈیجیٹل ایڈز چاہے جتنے بھی طاقتور ہوں، وہ استاد کی رہنمائی، طالب علم کی روح اورکلاس روم کے تقدس کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ایک استاد ہی طلبہ کو اخلاقیات اور تہذیب سے جوڑے رکھ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن یا اعلی تعلیم سے جڑے معاملات میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم اپنی اعلی تعلیم کے اہداف یا معیارات کو قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ جہاں حکومت سمیت اعلی تعلیم سے جڑے پالیسی ساز ہیں وہیں جامعات کی سطح پر بھی جو علمی اور فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا بڑا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے معاملات حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔
اس کی ایک جھلک ہمیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے فیصلوں ، بجٹ کو مختص کرنے اورنئی جدت کی بنیاد پر تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے سے، دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے ساری ذمے داری جامعات اور ان کی قیادت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت کی فیصلہ سازی اور کمزور پالیسیاں بھی اس ناکامی کے زمرے میں آتی ہیں۔
آج سرکاری یا نجی جامعات کی سطح پر ایک بڑا چیلنج طلبہ و طالبات کی جانب سے داخلوں کی کمی کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پچھلے چند برسوں سے داخلوں کی کمی نے جامعات کو مختلف نوعیت کے چیلنجز میں ڈال دیا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اعلی تعلیم میں داخلوں کی کمی کے پیچھے اصل وجوہات اور محرکات کیا ہیں ۔بالخصوص ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سماجی علوم میں داخلوں کی کمی کا بحران شدید ہے اور اگر ان داخلوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو اس ملک میں سماجی علوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر آج دنیا میں اعلی تعلیم اور صنعت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم مضبوط رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر کچھ ایسا نیا کرسکتے ہیں کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی پوراکرنے سمیت ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم جامعات یا اعلی تعلیم اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات میں وہ کچھ نہیںدیکھ رہے جو آج کی جدید دنیا اور جامعات کے تقاضے ہیں۔
جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو اب نئے حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرانی روایات، خیالات اور پرانی حکمت عملی سے اعلی تعلیم کے معاملات کو نہیں چلایا جاسکتا۔آج کی جدید اور کاروباری دنیا ہو یا پروفیشنل ازم سے جڑے معاملات یا مارکیٹ میں آنے والے روزگار کے نئے ٹرینڈز، ان کو نظر انداز کرکے اور پرانی سوچ کے ساتھ کھڑے رہنے سے معاملات حل نہیں ہوسکیں گے ۔مسئلہ محض ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ اس کی اہمیت، معیار یا جدید تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ جڑنے سے بھی ہے ۔
ایسے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈگری کو بنیاد بنا کر ایک ہی مقام پر کھڑی ہے تو دوسری طرف روزگار کے عدم مواقع، معاشی بدحالی، تربیت کا فقدان ، صنعت کا بحران نے نئی نسل کو ڈگری کی موجودگی کے باوجود نچلے مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک بحران ڈگری کی مدت کا ہے اور یہ جو چار سالہ بی ایس پروگرام ہے جس میں تقریباً پانچ برس لگ جاتے ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔
چارسالہ ڈگری پروگرام کی مدت بہت زیادہ ہے اور لوگ اب اتنی مدت کے لیے جامعات کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اور ان پر جو معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے یا جو فیسوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس میں ان کے لیے خود کو اس مدت اور فیس کے لیے جوڑنا سود مند نہیں لگتا۔نوجوان کم مدت میں ایسی ڈگری چاہتے ہیں جو ان کو روزگار کے ساتھ جوڑے اور یہ ڈگری پروفیشنل بھی ہو اور اس کی مدد سے روزگار کا حصول بھی ممکن ہو۔لوگ نوکریوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار دونوں کو بہتر طور مکمل کرسکیں ۔
اس لیے آج کل لمبی مدت کے ڈگری پروگراموں کے مقابلے میں کم مدت کے ڈپلومہ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس پر جامعات سے جڑے فیصلہ سازوں کو غوروفکر کرکے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ ڈگری کا حصول اور روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا لوگوں کو اعلی تعلیم سے دور کررہا ہے یا ان کو آن لائن پروگراموں کی طرف راغب کررہا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم کے ماہرین اور فیصلہ ساز غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
اسی طرح جب ایک پالیسی کے تحت ہم نے ضلعی سطح پر جامعات کے دائرہ کار کو پھیلایا ہے تو اس سے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان،فیسوں میںکمی یا معیار پر سمجھوتہ کیا یا ہم نے جو کالجوںکی سطح پر بی ایس پروگرام شروع کیے ہیں اس سے بھی بڑے شہروں کی جامعات کو داخلوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی اپنی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
یہ نہیں کہ نوجوان اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان نوجوانوںکے علمی اور معاشی مسائل کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل مختلف فیصلہ ساز اور تعلیمی ماہرین کے درمیان ایک بڑی سنجیدہ مشاورت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ نصاب میں ایسی کیا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاںلانی ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کرسکے۔یہ جو ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے ہوئے ہیں یہ کس مرض کی دواہیں اور یہاں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکر متبادل پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا ان کو اعلی تعلیم سے جڑے آج کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔صنعت سے جڑے افراد ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو نوجوانوں کی نسل اعلی تعلیم کے بعد آرہی ہے اس کے علم اور صلاحیتوں میں وہ کچھ نہیںہے جو ہماری ضرورت ہے۔اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں اور اعلی ڈگری کے مقابلے میںکم پڑھے لکھے نوجوان جو مختلف شارٹ کورسز کی مدد سے ہمارے پاس آرہے ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا کرتے ہیں،یعنی ہماری جامعات میں دی جانے والی تعلیم اعلی صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔
جامعات کی سطح پر وہ شعبہ جات جہاں داخلوں کی کمی کا بحران ہے وہاںہمیں ان کے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے نئے ماڈرن پروگراموں کو جاری کرنا ہوگا جو نئے تقاضوں کے مطابق ہو۔اسی طرح بدقسمتی سے ہم نے اعلی تعلیم سے جڑے معاملات اور فیصلوں کابڑا اختیار ماہرین تعلیم یا جامعات کو دینے کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میںدے دیا ہے اور بیورورکریسی نے مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔جب تک تعلیم کے معاملات ماہرین تعلیم کے پاس نہیں ہونگے اصلاح کے امکانات محدود رہیں گے جو مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اس وقت بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم سے جڑے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور اس پر غوروفکر کرکے تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے بہتری کا راستہ تلاش کرے ۔کیونکہ موجودہ ہائر ایجوکیشن کا نظام نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ معیشت کی ترقی سے جڑے معاملات میں بھی خرابی پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے اعلی تعلیم کے معیارات میںبہتری نہیں پیدا کریں گے یا اس کے تعلق کو مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے بہتری کا راستہ ممکن نہیں۔ خود جامعات کے سربراہان کو اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا اعلی تعلیم کی ترقی کا روڈ میپ سامنے لانا چاہیے اور اس کو بحث کا حصہ بنا کر حکومت یا اعلی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ ہم سب مل کر اعلی تعلیم کے بحران کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ۔