خطیب: حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ حسن سروری (نائب امام جمعہ سکردو)
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اے پروردگار۔۔ بحق محمد و آل محمد امامِ زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور میں تعجیل فرما۔ اے پروردگار، ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خلوصِ نیت سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے، اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور پھر معاشرے کی اصلاح کے لیے قدم اٹھانے کی توفیق دے۔ اے اللہ۔۔ ہمیں اپنی پہچان اور خدا کی معرفت کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام پر صحیح طریقے سے عمل کرنے والا بنا۔ ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو معاف فرما۔ استعماری طاقتوں اور غاصب صہیونی ریاست کو نیست و نابود فرما۔ عالمِ اسلام کو وحدت و سربلندی عطا فرما۔ امامِ وقت (عج) کے ظہور کو قریب تر فرما۔ آخر میں سب نے مل کر بلند آواز میں آمین کہا۔ تحریر و سہل نگاری: آغا زمانی
خطبۂ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مومنین کے لیے دعا
خطبہ جمعہ کے آغاز میں نائب امام جمعہ جامع مسجد سکردو علامہ شیخ حسن سروری نے تمام مومنین و مومنات کے لیے خصوصی دعا کی۔ ان تمام حضرات کے لیے جنہوں نے دعا کی التماس کی تھی، بالخصوص ایک مومن کے لیے جس نے مسجد کے لیے پچپن ہزار روپے کا عطیہ دیا، دعا کی گئی۔ اسی طرح ان تمام افراد کے لیے بھی دعا کی گئی، جنہوں نے مزید خدمات انجام دے کر مسجد کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کیا۔
صحت و سلامتی کی دعائیں
علامہ سروری نے دعا میں گلگت بلتستان کے مظلوم و محروم عوام کی آواز آغا علی رضوی کی مکمل صحت یابی کی دعا کی، جو علاج کے بعد کراچی سے واپس بلتستان پہنچ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے سرپرست اور رہبر، مرکزی امام جمعہ علامہ شیخ محمد حسن جعفری کی صحت و سلامتی کے لیے بھی دعا کی گئی۔ آخر میں تمام مومنین و مومنات کے لیے شفایابی اور توفیقات میں اضافے کی دعا کی گئی۔
ماہِ ربیع الاول کی فضیلت
علامہ شیخ حسن سروری نے خطبے کے دوران ماہِ ربیع الاول کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے سورۂ نحل کا حوالہ پیش کیا اور فرمایا کہ یہ سورہ انسان کی نعمتوں، ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا بیان ہے۔
سورۂ نحل اور اس کی تشریح
سورہ نحل کو "سورۂ نعمت" بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔
ہدایت کی طرف اشارہ: اللہ تعالیٰ نے وحی اور انبیاء کے ذریعے انسان کو سیدھے راستے کی رہنمائی فرمائی۔
نعمتوں کا بیان: انسان کی روزمرہ زندگی میں شامل نعمتیں جیسے پانی، پھل، کھیتیاں، مویشی، پرندے اور آسمان و زمین کی قوتیں۔ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔
شکر گزاری کی دعوت: ان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ شکر گزاری کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کی جائے۔
ماہ ربیع الاول کی نسبت: یہی وہ مہینہ ہے، جس میں اللہ نے سب سے بڑی نعمت یعنی رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کے لیے بھیجا۔ آپ کی بعثت دراصل اللہ کی سب سے عظیم نعمت ہے، جس کی روشنی میں تمام دوسری نعمتوں کا حق ادا کرنے کی ہدایت ملتی ہے۔ علامہ حسن سروری نے خطبہ جمعہ میں اس بات پر زور دیا کہ ربیع الاول کا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں، اور محروم و مظلوم عوام کی آواز بنیں۔
نعمتوں پر شکر کی تاکید
نائب امام جمعہ جامع مسجد سکردو، علامہ شیخ حسن سروری نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی تاکید کی۔ آپ نے فرمایا کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ سب اللہ کی عطا ہے۔ اس لیے شکر بجا لانا صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر تقویٰ کے ساتھ ممکن ہے۔ آپ نے اپنی ذات سمیت تمام مومنین کو تقویٰ اختیار کرنے اور شکرگزاری کے ذریعے اللہ کے قریب ہونے کی تلقین کی۔
اولاد، ایک عظیم نعمت
علامہ سروری نے اولاد کو اللہ کی عظیم نعمت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ: اولاد کی پرورش اور تعلیم والدین کی ذمہ داری ہے۔ اچھی تربیت کے بعد اولاد کی شادی بھی والدین پر امانت ہے۔ شادی کے لیے نیک، پاک دامن اور دیندار لڑکی کا انتخاب کرنا سب سے اہم ہے، کیونکہ ایک نیک شریکِ حیات پوری نسل کی حفاظت کا ذریعہ بنتی ہے۔
شادی میں شکر گزاری کا مستحب عمل
علامہ سروری نے شادی کے موقع پر شکر ادا کرنے کی سنت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ جب دولہا یا دلہن تیار کیے جاتے ہیں تو سجدۂ شکر بجا لانا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے۔ شادی جیسی خوشی کے موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنا دراصل اس نعمت کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
شکرِ نعمت کے مختلف پہلو
شکر زبان کے ساتھ بھی ہے کہ انسان اللہ کی حمد کرے۔ شکر دل کے ساتھ بھی ہے کہ بندہ ہمیشہ اپنے مالک کے فضل کو پہچانے۔ شکر اعضائے بدن کے ساتھ بھی ہے کہ ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور زبان سب اللہ کی اطاعت میں استعمال ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا۔"
ائمہ و انبیاء کی تعلیمات میں شکر
امام سجاد علیہ السلام دعا میں عرض کرتے ہیں: "اے خالق۔۔ میں تیرا شکر کس طرح ادا کرسکتا ہوں، جبکہ شکر ادا کرنے کی توفیق بھی تیری عطا کردہ ہے۔" یہی احساس دراصل حقیقی شکر ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام، جو اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں، مسلسل شکر بجا لاتے رہے اور آخر میں فرمایا: "پروردگار۔۔ میں شکر ادا کرنے کے باوجود تیرا حقِ شکر ادا نہیں کرسکا۔" اللہ اکبر۔۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں سب سے بڑے انبیاء بھی اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ علامہ حسن سروری نے اس خطبے میں واضح کیا کہ نعمتوں کا حقیقی شکر یہ ہے کہ انسان اپنی زبان، دل اور تمام اعضائے بدن کو اللہ کی اطاعت میں لگائے۔ اولاد، تعلیم، شادی اور صحت جیسی ہر نعمت اللہ کی عطا ہے اور شکرگزاری کے ذریعے ہی ان کا تحفظ ممکن ہے۔
شادیوں میں خرافات اور ہماری روش
نائب امام جمعہ جامع مسجد سکردو، علامہ شیخ حسن سروری نے خطبہ میں شادیوں کے موقع پر رائج خرافات پر تنقید کی۔ آپ نے فرمایا: ہم سب نے ماہ ربیع الاول میں کئی شادیوں میں شرکت کی، مگر کیا ہم نے سوچا کہ ہماری شادیاں کس طرز کی ہیں؟ بعض اوقات علماء کو عزت کے لیے دولہا کے ساتھ ساتھ لے جایا جاتا ہے، مگر جب وہاں پہنچتے ہیں تو دولہا کلین شیو ہوتا ہے، جس کی حیات میں مسجد کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔ شادی کے موقع پر پٹاخے، شور شرابہ اور رات گئے تک بیداری عام ہے، جس کے نتیجے میں صبح کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ یہ سب اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
مثالی شادی کی صورت
اسلامی تعلیمات کے مطابق مثالی شادی وہ ہے، جو سادگی سے انجام دی جائے۔ نکاح اللہ کی رحمت ہے، اسے فضول رسم و رواج سے آلودہ نہ کیا جائے۔ شادی میں قرآن کی تلاوت، درود و سلام اور مومنین کی دعاؤں سے محفل کو نورانی بنایا جائے۔ دولہا و دلہن کے لباس، سادگی اور عفت کی علامت ہوں۔ شادی میں علماء اور بزرگوں کو صرف عزت کے طور پر نہیں بلکہ دینی رہنمائی کے لیے شامل کیا جائے۔
صبحِ جمعہ کی فضیلت
علامہ سروری نے فرمایا کہ اگر کوئی مومن صبح جمعہ کے عظیم مقام کو پانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ: اول وقت پر نماز ادا کرے۔ دعائے ندبہ کی تلاوت کرے، جو امام زمانہ علیہ السلام سے معنوی تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔
درود شریف کی برکات
آپ نے درود شریف کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص سو مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیاوی ساٹھ حاجتیں پوری کرتا ہے۔ آخرت کے لیے تیس حاجتیں اس کے نامۂ اعمال میں درج ہوتی ہیں۔ یہی درود ہی ہے، جو انسان کی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔ علامہ سروری نے خطبے کے اختتام پر فرمایا کہ ہمیں شادیوں کو اسلامی شعار کے مطابق سادہ بنانا چاہیئے، صبح جمعہ کو عبادت اور دعا کے ذریعے بابرکت بنانا چاہیئے اور درود شریف کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنی چاہیئے۔
خطبۂ دوم
تعارفی کلمات
نائب امام جمعہ علامہ شیخ حسن سروری نے اس خطبے میں عالمی اور مقامی امور کے تناظر میں بات کی۔ آپ نے پہلے اس بات پر زور دیا کہ دو بنیادی امر ہیں، جن پر امتِ مسلمہ کے علما و دانشور عموماً اتفاق رکھتے ہیں:
1۔ اتفاق میں برکت۔۔ اتحاد میں کامیابی و نفع ہے اور انتشار میں نقصان۔
2۔ موت کی حتمیت۔۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے؛ اس کے بعد کے مناظرِ اشیاء میں اختلاف رہا ہوسکتا ہے، مگر موت کی حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں۔
اتحاد کی افادیت اور انتشار کا نقصان
علامہ سروری نے فرمایا کہ امتِ مسلمہ میں اتحاد وہ زینہ ہے، جس سے قومیں قائم رہتی ہیں۔ جب اختلافات بڑھیں تو اندرونی کمزوریاں جنم لیتی ہیں اور دشمن دشمنی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ امت کو چاہیئے کہ وہ چھوٹی بڑی باتوں کو پسِ پشت رکھ کر مشترک مفادات پر متحد ہو۔ خصوصاً جب دشمن سامنے موجود ہو۔
حالیہ عالمی پیشرفت اور ردِعمل
آپ نے عالمگیر منظرنامے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے، جنہوں نے امت کی آنکھیں کھولیں۔ بعض طاقتیں اور حکومتیں ظاہری بیانات تو جاری کرتی ہیں، مگر عملی طور پر ان کا برتاؤ متضاد اور کمزور نظر آتا ہے۔ آپ نے کہا کہ محض مذمت کافی نہیں ہوتی؛ عملی اقدامات لازم ہیں۔ کم از کم وہ اقدامات جو دشمن کے سفارتی و اقتصادی دائرۂ کار کو محدود کریں۔
عملی مشورے اور اسلامی یکجہتی کا مطالبہ
نائب خطیب نے چند عملی تجاویز عوام کے سامنے رکھیں: جن عرب ممالک میں غاصب ریاست کے سفارت خانے کھلے ہوئے ہیں، وہاں سے سفارتکاروں کو واپس بلایا جائے اور تعلقات معطل کیے جائیں۔ تیل اور اقتصادی معاہدات پر نظرِثانی کی جائے، اگر وہ دشمن کی سرپرستی میں ہوں۔ اسلامی ممالک کو مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے کے لیے باقاعدہ کانفرنسیں اور ایکشن کمیٹیاں قائم کرنی چاہئیں، تاکہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں یکجا ردِعمل ممکن ہو۔ آپ نے ایرانی سیاسی رہنماؤں کی اس تجویز کو سراہا کہ مسلمانوں کی ایک متحدہ ایکشن فورس یا کمیٹی بنائی جائے، جو ضرورت پیش آنے پر فوری مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرے۔
فلسطین کی حالت اور امت کی ذمہ داری
آپ نے غزہ اور وہاں کے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری اور مظالم کی طرف متوجہ کرایا۔ فرمایا کہ صرف تماشائی طرزِ عمل یا بیانات کافی نہیں۔ حقیقی مسلم امہ کو چاہیئے کہ وہ انسانی بنیاد پر مدد، آواز اور سفارتی دباؤ کے ذریعے مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہو۔
گلگت بلتستان کا حوالہ اور مقامی فریضہ
خطاب میں گلگت بلتستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے نائب امام نے کہا کہ عالمی مسائل کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے علاقے کی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں: مظلوموں کی آواز بلند کرنا، انتہاء پسندی و فرقہ واریت سے بچاؤ اور مقامی بھائی چارہ اور انصاف کو فروغ دینا۔ اتحاد کا دائرہ عالمی بھی ہے اور مقامی بھی، دونوں ضروری ہیں۔
اخلاص، عمل اور دعا
علامہ حسن سروری نے امت کو نصیحت کی کہ سیاسی و دینی میدان میں فعال عمل کے ساتھ ساتھ دل کا اخلاص، مسلسل دعا اور صبر بھی ضروری ہے۔ محض غم و غصہ سے کام نہیں چلے گا، منصوبہ بندی، حکمتِ عملی اور باہمی تعاون درکار ہے۔ نائب امام جمعہ علامہ شیخ حسن سروری نے اس خطبے میں ملک و قوم، معاشرتی برائیوں اور اللہ کے عذاب کے امکان پر سنگین نصیحت کی۔ آپ نے ابتدا میں اس خوشی کا ذکر کیا کہ وزیراعظم پاکستان کا سعودی عرب میں پرتپاک استقبال ہوا اور حرمینِ شریفین کے تحفظ کے لیے اسلامی ممالک کا مل کر دفاعی معاہدہ کرنا بطورِ مجموعی ایک خوش آئند اقدام ہے۔۔ مگر ساتھ ہی تمام قوم کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی کہ دھوکے باز قوتوں عالمی شیطان کے فریب میں نہ آیا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر ہوشیاری کی تلقین
علامہ سروری نے فرمایا کہ ظاہرِ خوشی کے ساتھ عقل و ہوشیاری بھی لازم ہے۔ بعض عالمی اور علاقائی دھوکہ باز قوتیں جیسے شیطانِ بزرگ اور غاصب صہیونی ریاست ظاہراً دوستی کا اظہار کرتی ہیں، مگر ان کے مقاصد پر شک و تامل ضروری ہے۔ امت کو بیرونی جھوٹے وعدوں پر اندھا بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے مفادات اور یکجہتی کو مقدم رکھنا ہوگا۔
شادیوں میں اسراف اور معاشرتی فسادات
نائب امام نے اپنے خطبہ میں شادیوں کے موقع پر رائج بے جا اسراف، فحاشانہ پروگرامز اور پٹاخے پھوڑنے کی مذمت کی: شادی کے دن کو خوشی و شکر کا دن سمجھ کر اسے عزت و وقار سے منایا جائے۔ بعض مالدار لوگ ہوٹل بک کرکے وہاں غیر اخلاقی محفلیں منعقد کر دیتے ہیں۔۔ گانے، ڈانس اور ایسے پروگرام جو اسلام اور شریعت کے خلاف ہیں۔ اس سے نہ صرف خاندان کی عزت مجروح ہوتی ہے بلکہ پڑوسی و معاشرہ بھی پریشان ہوتا ہے۔ آپ نے سخت لہجے میں کہا کہ خدارا ایسا نہ کریں۔۔ شادی کو حلال روزگار کو حرام میں تبدیل نہ کیا جائے۔ اولاد ایک عظیم نعمت ہے، اس پر شکر ادا کریں، مگر شرعی حدود میں رہ کر۔
سیلاب، آفات اور عمومی گناہوں کا تعلق
نائب امام نے ملک بھر میں آنے والی آفات، خصوصاً گلگت بلتستان سمیت مختلف علاقوں میں سیلاب و زلزلوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا: اگر ہم اجتماعی گناہوں اور بے پرواہی کی حالت میں رہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت بننے والی آفات آسکتی ہیں۔ سیلاب، زلزلہ، آسمانی بجلی اور دیہاتوں کا تباہ ہو جانا ایسے اشارے ہوسکتے ہیں جو ہمیں اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کریں۔ اس لیے ہمیں فوراً اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہیئے اور ان رویّوں سے باز آنا چاہیئے، جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔
ہوٹل مالکان اور منتظمین کے لیے اپیل
علامہ سروری نے ہوٹل مالکان اور شادیوں کے منتظمین سے خصوصی اپیل کی: اپنے کاروبار کو خرافات اور فحاشی سے پاک کریں۔ مہمانوں کی عزت و شرافت کو مقدم رکھیں اور اسلامی اخلاق کے مطابق مناسبات منعقد کریں۔ یہ درخواست محض اخلاقی نہیں بلکہ آئینی و اجتماعی سلامتی کے اعتبار سے بھی ہے۔ اگر ایسے اقدامات جاری رہے تو اللہ کا عذاب آسکتا ہے اور نقصان سب کا ہوگا۔
اخلاص، تدارک اور دعا
آپ نے اپنے خطاب کے آخر میں قوم کو نصیحت کی کہ اصلاح نفس، تدارکِ رویّہ اور عملی اصلاح کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دعا اور توبہ بھی ضروری ہے۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں، تاکہ رزق و حفاظت برقرار رہے۔
عملی پیغام
1۔ بین الاقوامی تعلقات میں ہوشیاری اختیار کریں؛ دکھاوے کے پیچھے دھوکہ ہوسکتا ہے۔
2۔ شادیوں کو سادگی، عزت اور شرعی حدود میں منائیں، اسراف اور فحاشی سے باز آئیں۔
3۔ اجتماعی گناہوں سے بچیں، آفات اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوسکتی ہیں۔ اصلاحِ عمل لازم ہے۔
4۔ ہوٹل مالکنان اور منتظمین اپنے کاروبار کو اسلامی اخلاق سے ہم آہنگ کریں۔
5۔ دعا، توبہ اور عملی اصلاح سے اللہ کی رحمت کی امید رکھی جائے۔
نائب امام جمعہ علامہ شیخ حسن سروری نے اپنے خطاب میں دو نہایت اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ گذشتہ کئی جمعوں سے علماء، جوانوں اور تنظیموں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ گلگت بلتستان میں گاڑیوں پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لیا جائے۔ یہ آواز ہر خطے نگر، گلگت، غذر، سکردو اور بلتستان کے دیگر علاقوں سے بلند ہوئی۔ بالآخر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ یہ پورے خطے کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس خوشخبری پر علامہ شیخ سروری نے درود پڑھوایا اور اسے عوامی جدوجہد کی کامیابی قرار دیا۔
دوسرا نکتہ معاشرتی اصلاحات سے متعلق تھا۔ علامہ موصوف نے بتایا کہ جی بی حکومت نے سنوکر اور دیگر بعض کلبوں میں پھیلنے والے جرائم اور برائیوں پر توجہ دی ہے۔ ان جگہوں پر اکثر چھوٹے بچوں سے مشقت لی جاتی تھی، جو نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔ حال ہی میں گلگت میں ایک ناخوشگوار واقعے نے اس ظلم کو اور بھی عیاں کر دیا، جس کی ہر سطح پر مذمت کی گئی۔ اس کے نتیجے میں انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ: 18 سال سے کم عمر لڑکوں کا ان کلبوں میں داخلہ مکمل طور پر بند ہوگا۔ ان سے کسی بھی قسم کا اجرتی یا جبری کام نہیں کروایا جائے گا۔ علامہ سروری نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور زور دیا کہ اس پر مکمل اور سختی کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق بچوں سے مشقت کروانا جرم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو غیر انسانی حرکات ان سے کروائی جاتی تھیں، وہ بھی ناقابلِ برداشت ہیں۔ لہٰذا ایسے تمام کلب اور سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیئے۔
نائب امام جمعہ علامہ شیخ حسن سروری نے اپنے خطاب میں اتحادِ بین المسلمین کے حوالے سے نہایت اہم نکات بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان ہمیشہ سے امن و سکون کا گہوارہ رہا ہے۔ اس خطے کی سب سے بڑی خوبی اتحاد و اتفاق ہے، جو ہمارے سرپرستِ اعلیٰ علامہ شیخ محمد حسن جعفری حفظہ اللہ کی تعلیمات اور تاکیدات کا نتیجہ ہے۔ آپ ہمیشہ ہر میٹنگ، نشست اور جلسے میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: “مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہونا چاہیئے، اتفاق ہونا چاہیئے اور قرآنِ کریم کا فرمان ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں نہ پڑو۔”
اسی موقع پر علامہ سروری نے علامہ اقبال(رح) کے اشعار کا حوالہ بھی دیا:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
پھر سوال اٹھایا کہ آخر مسلمان ایک کیوں نہیں ہوتے، جبکہ سب کا نبی ایک ہے، دین ایک ہے اور قرآن بھی ایک ہے۔؟
بلتستان میں اتحاد کی عملی مثالیں
علامہ سروری نے کہا کہ الحمدللہ خطۂ بلتستان میں اتحادِ بین المسلمین کے دو بڑے عملی مظاہر سامنے آئے:
1۔ پھیالونگ واٹر ڈائیورژن پروجیکٹ
اس منصوبے میں ہر مکتبِ فکر اور ہر طبقہ بلا تفریق رنگ و نسل شریک ہوا۔ عوام نے نہ صرف چندے دیئے بلکہ اپنی محنت اور تعاون سے اسے آگے بڑھایا۔ اب رفتہ رفتہ حکومت بھی اس منصوبے کی حمایت میں آگئی ہے اور فوج بھی تعاون فراہم کر رہی ہے۔ یہ اتحاد و اتفاق کی نہایت خوش آئند فضا ہے۔
2۔ سیلاب زدگان کی امداد
سیلاب متاثرین کے لیے بھی ایک تاریخی اتحاد دیکھنے میں آیا۔ انجمن امامیہ بلتستان کے صدر علامہ سید باقر الحسینی نے عوام سے اپیل کی اور علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے مشورے کے مطابق علماء کی میٹنگ کے بعد امدادی مہم شروع کی گئی۔ اس موقع پر مرکز اہلِ حدیث سکردو کی جانب سے مولانا ڈاکٹر جوہر صاحب کی ہدایت پر ایک وفد امامیہ مرکز سکردو آیا اور علامہ سید باقر الحسینی کے ہاتھوں سیلاب زدگان کے لیے خطیر رقم عطیہ کی۔ یہ اتحاد و یگانگت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلتستان کے عوام مسائل اور آفات کے مقابلے میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ علامہ سروری نے کہا کہ ہمیں چاہیئے کہ ایسے اتحاد کی فضا کو صرف بلتستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پروان چڑھائیں، تاکہ امتِ مسلمہ ایک عملی قوت بن کر ابھرے۔
نائب امام جمعہ علامہ شیخ حسن سروری نے اپنے خطبۂ جمعہ کے آخری حصے میں نہایت اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا: الحمدللہ انجمن امامیہ بلتستان کے صدر کے طور پر آغا سید باقر الحسینی کو منتخب کیا گیا ہے، ان کی کابینہ بھی مکمل ہوچکی ہے اور وہ نہایت اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ علامہ شیخ محمد حسن جعفری کی سرپرستی میں انجمن امامیہ بلتستان کی مجلسِ نظارت بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں 10 اراکین شامل ہیں۔ ان میں سرپرستِ اعلیٰ سمیت چھ جید علماء کرام اور چار دانشور شامل ہیں۔ ان کا پہلا اجلاس بھی علامہ شیخ محمد حسن جعفری کی قیادت میں منعقد ہوا، جو ہمارے لیے ایک بہترین ماڈل اور عملی نمونہ ہے۔
اجتماعی دعا
علامہ سروری نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے پالنے والے۔۔ بحق محمد و آل محمد ہمیں ہر نیک اور اچھے کام میں تعاون کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمارے والدین کو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی بہتر تربیت اور نگرانی کی توفیق عطا فرما۔ عالمِ اسلام کو عزت و سربلندی عطا فرما اور عالمِ کفر کو رسوا و سرنگوں فرما۔ اے پروردگار۔۔ بحق محمد و آل محمد امامِ زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور میں تعجیل فرما۔ اے پروردگار، ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خلوصِ نیت سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے، اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور پھر معاشرے کی اصلاح کے لیے قدم اٹھانے کی توفیق دے۔ اے اللہ۔۔ ہمیں اپنی پہچان اور خدا کی معرفت کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام پر صحیح طریقے سے عمل کرنے والا بنا۔ ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو معاف فرما۔ استعماری طاقتوں اور غاصب صہیونی ریاست کو نیست و نابود فرما۔ عالمِ اسلام کو وحدت و سربلندی عطا فرما۔ امامِ وقت (عج) کے ظہور کو قریب تر فرما۔ آخر میں سب نے مل کر بلند آواز میں آمین کہا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نائب امام جمعہ علامہ شیخ حسن سروری نے علامہ شیخ حسن سروری نے اپنے علامہ شیخ محمد حسن جعفری کی توفیق عطا فرما علامہ سروری نے کرنے کی توفیق گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ آپ نے فرمایا نے فرمایا کہ نے اپنے خطاب اے پروردگار ادا کرنے کی اللہ تعالی ربیع الاول بلتستان کے کے لیے بھی دعا کی گئی کے موقع پر نہیں بلکہ کرتے ہوئے نعمتوں کا اور مقامی میں اتحاد نے کہا کہ ہوئے کہا قرار دیا کے ذریعے کے مطابق بھی ایک اللہ کی شادی کے عوام کی کے ظہور کی طرف کے بعد ہے اور اور اس اس بات کا ذکر کی دعا بھی ہے اور ان ایک ہے
پڑھیں:
اب آخری سہارا اقوام متحدہ ہی ہے، نائب صدر متحدہ عرب امارات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اقوام متحدہ کے قیام کے 80 برس مکمل ہونے پر اپنے ویڈیو پیغام میں اس عالمی ادارے کو انسانیت کی “آخری امید” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو درپیش پیچیدہ چیلنجز اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے اصولوں اور اقدار کو ازسرِنو زندہ کیا جائے تاکہ عالمی امن اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کے مطابق اس ادارے کی بقا آئندہ 80 برس کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
شیخ محمد بن راشد نے کہا کہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی ہمیشہ برداشت، مکالمے اور پائیدار ترقی پر مبنی رہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ متحدہ عرب امارات نے انسانی امداد کو اپنا نصب العین بنایا ہے اور انسدادِ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور نفرت انگیز بیانیے کے خلاف ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کی بنیاد امن، انصاف اور انسانی وقار کے تحفظ پر رکھی گئی تھی اور آج بھی یہ ادارہ عالمی برادری کے سامنے اپنے وعدوں کو نئے عزم کے ساتھ پورا کرنے کا پابند ہے۔ ان کے مطابق دنیا خصوصاً مشرقِ وسطیٰ شدید سکیورٹی چیلنجز کا شکار ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کو مزید مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات نے 1971 میں اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کی تھی اور اب تک دو مرتبہ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بھی منتخب ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں یو اے ای کی قیادت مسلسل عالمی امن کے لیے ادارے کی مضبوطی پر زور دیتی رہی ہے۔