پاکستان،سعودی دفاعی معاہدہ: ایک تاریخی سنگ ِ میل
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250921-03-5
میر بابر مشتاق
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کی روشن مثال رہے ہیں۔ یہ تعلقات محض سیاسی یا وقتی مفادات پر مبنی نہیں بلکہ مذہبی، تاریخی اور تہذیبی بنیادوں پر قائم ہیں۔ حرمین شریفین کے ساتھ جذباتی وابستگی اور پاکستان کا اسلامی تشخص دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا باہمی دفاعی معاہدہ نہ صرف ایک دفاعی پیش رفت ہے بلکہ اسلامی دنیا کے لیے اتحاد اور طاقت کا ایک غیر معمولی پیغام بھی ہے۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر اس اصول پر قائم ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت ہوتی ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اب ایک دوسرے کے حقیقی دفاعی شراکت دار بن گئے ہیں اور دونوں کی عسکری صلاحیتیں ایک دوسرے کے تحفظ کے لیے بروئے کار آئیں گی۔ اس معاہدے میں مشترکہ دفاعی تیاری، فوجی وسائل کے انضمام، خفیہ معلومات کا تبادلہ اور مستقبل کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی جیسے نکات شامل ہیں۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور باہمی تعاون کی نئی بلندیوں کا آغاز ہوگا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا آغاز قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہوا۔ سعودی عرب ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہو کر عملی تعاون فراہم کیا۔ اس دوران پاکستانی پائلٹوں اور فوجی ماہرین نے سعودی عرب کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ میں بھی پاکستان نے اپنی افواج بھیج کر سعودی عرب کے تحفظ میں حصہ ڈالا۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بھی دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھا۔ یہ تمام مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان سعودی تعلقات وقت اور حالات کی سختیوں میں بھی مضبوط رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی سعودی عرب کے ساتھ محبت کا سب سے بڑا محرک حرمین شریفین ہیں۔ ہر پاکستانی کے دل میں مکہ اور مدینہ کے لیے ایک خاص عقیدت ہے اور یہی عقیدت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو ’’بنیان مرصوص‘‘ یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی ہدایت دی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی معاہدہ اسی قرآنی تعلیم کا عملی عکس ہے۔ یہ معاہدہ امت کے لیے اس بات کا اعلان ہے کہ اگر مسلم ممالک آپس میں متحد ہو جائیں تو کوئی طاقت ان کے دفاع کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
اب یہ تعلق ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جس کے تحت پاکستان کو براہ راست حرمین شریفین کے تحفظ میں شراکت داری کا موقع ملا ہے۔ یہ اعزاز نہ صرف پاکستان کے لیے باعث فخر ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے بھی ایک طاقتور علامت ہے۔
جہاں یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لیے خوش آئند ہے، وہیں بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ سعودی عرب کو پاکستان سے دور کیا جائے اور اپنی تجارتی طاقت کے ذریعے اسے اپنی طرف مائل کیا جائے۔ لیکن اس معاہدے نے بھارت کی ان تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ بھارتی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ میں اس حوالے سے پریشانی اور بے چینی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں مزید مضبوط ہو رہا ہے اور بھارت کی اسٹرٹیجک پالیسی کو جھٹکا لگا ہے۔
پاکستان کو اس معاہدے سے کئی سطحوں پر فائدہ ہوگا۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی اور جدید دفاعی وسائل تک رسائی میں اضافہ ہوگا۔ سفارتی سطح پر پاکستان کی حیثیت ایک اہم مسلم اتحادی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری اور تعاون میں اضافہ متوقع ہے جس سے پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا ملے گا۔ سعودی عرب کے ’’ویژن 2030‘‘ کے منصوبوں میں پاکستان کی افرادی قوت اور مہارت کو شامل کیا جا سکتا ہے، جو پاکستان کے لیے روزگار اور ترسیلات زر میں اضافے کا باعث بنے گا۔
سعودی عرب کو بھی پاکستان کے تجربے اور فوجی مہارت سے براہ راست فائدہ ہوگا۔ پاکستان کی افواج دنیا میں اپنی پروفیشنل مہارت اور دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشنز کے سبب جانی جاتی ہیں۔ سعودی عرب کے لیے یہ معاہدہ ایران یا یمن جیسے علاقائی خطرات کے مقابلے میں ایک مضبوط سہارا ہے۔ مزید برآں، یہ معاہدہ سعودی عرب کے اسلامی دنیا میں قائدانہ کردار کو مزید تقویت بخشتا ہے اور اسے ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جو مسلم دنیا کی سلامتی کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ پورے خطے پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اس کے نتیجے میں نئی اسٹرٹیجک صف بندی سامنے آئے گی۔ بھارت، ایران اور اسرائیل جیسے ممالک کو اپنی پالیسیوں پر نظر ِ ثانی کرنا پڑے گی۔ ایران سعودی تعلقات میں حالیہ بحالی کے بعد یہ معاہدہ ایک نئے توازن کو جنم دے گا۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے بھی پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ کردار مزید اہمیت اختیار کرے گا۔ عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا اور چین کے لیے بھی یہ معاہدہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکا خطے میں اپنی پالیسی کو سعودی عرب کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی برقرار رکھ سکے۔ چین کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے، خاص طور پر سی پیک اور توانائی کے منصوبوں کے ذریعے۔ روس بھی اس معاہدے کو اپنے خطے میں اثر رسوخ بڑھانے کے تناظر میں دیکھے گا۔ یقینا اس معاہدے کے عملی نفاذ کے مراحل بھی اہم ہوں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کو داخلی سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جو دفاعی تعاون پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اس اتحاد کو اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھیں گی اور اس پر ردعمل ظاہر کریں گی۔ اس لیے مستقبل میں اس معاہدے کو دانش مندانہ حکمت عملی اور مسلسل عملی اقدامات کے ذریعے آگے بڑھانا ہوگا۔ اگر دونوں ممالک اس عزم پر قائم رہے تو یہ معاہدہ صرف ایک کاغذی دستاویز نہیں رہے گا بلکہ خطے کی سیاست اور سلامتی کے نقشے کو بدلنے والا ایک تاریخی قدم ثابت ہوگا۔ یہ ایک ایسا تاریخی سنگ ِ میل ہے جو بتاتا ہے کہ اگر مسلم ممالک اپنے مشترکہ مفادات اور عقیدے کی بنیاد پر ایک ساتھ کھڑے ہوں تو کوئی طاقت ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا یہ نیا دور یقینی طور پر خطے اور امت ِ مسلمہ کے مستقبل کے لیے امید اور طاقت کا پیغام ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب کے سعودی عرب کے ساتھ ایک دوسرے کے دونوں ممالک پاکستان کی پاکستان کے اس معاہدے یہ معاہدہ اور اس کے لیے
پڑھیں:
بھارت اسرائیل دفاعی تعاون معاہدہ طے، نیتن یاہو دسمبر میں دہلی پہنچیں گے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی:۔ اسرائیلی وزےر اعظم نیتن یاہو دسمبر میں بھارت کا دورہ کریں گے جبکہ بھارت اور اسرائیل نے گزشتہ روز دفاعی تعاون کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کر دےے ہیں، اسرائیل کے وزیرِ خارجہ گیدون سعار اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان بات چیت اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دودل سے ملاقات کے بعد ہوا۔
بھارتی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا کہ اس معاہدے میں تعاون کے کئی شعبے طے کیے گئے ہیں جن سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا، جن میں مشترکہ اسٹریٹجک مکالمے، تربیت، دفاعی صنعتی تعاون، سائنس و مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی، تحقیق و ترقی، تکنیکی جدت، اور سائبر سکیورٹی میں تعاون شامل ہیں۔
وزارتِ دفاع کے مطابق ”بھارت-اسرائیل دفاعی شراکت دیرینہ ہے، جو باہمی اعتماد اور مشترکہ سلامتی کے مفادات پر مبنی ہے”۔ بھارت، اسرائیل تعلقات اعتماد اور بھروسے پر مبنی ہیں، بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بھارت اور اسرائیل کے انسدادِ دہشت گردی تعاون کو انتہائی ضروری قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کے عالمی رویے کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
مغربی نشریاتی ادارے کے مطابق جے شنکر نے کہا کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات ”انتہائی اعتماد اور بھروسے” پر مبنی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان انسدادِ دہشت گردی تعاون انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا بھارت اور اسرائیل کے درمیان ایک اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے، اور ہمارے معاملے میں یہ اصطلاح حقیقی معنوں میں لاگو ہوتی ہے۔ ہم نے مشکل اوقات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، اور ایک ایسا تعلق قائم کیا ہے جو اعتماد اور اعتبار کی اعلیٰ سطح پر قائم ہے۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیدون سعار نے کہا “انتہا پسند دہشت گردی بھارت اور اسرائیل کے لیے باہمی خطرہ ہے۔ ہم پہلگام میں ہونے والے ہولناک دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا، ”مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل ایک منفرد حالت کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دودل سے ملاقات کے بعد ایکس پر لکھا، ”ہم نے باہمی تعاون کے طریقوں اور مشترکہ چیلنجز، خصوصاً دہشت گردی کے باہمی خطرے سے نمٹنے پر گفتگو کی۔ ہم بھارت اور اسرائیل کے درمیان طویل مدتی اسٹریٹجک شراکت داری بنا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ سعار کا یہ بھارت کا پہلا سرکاری دورہ ہے، اور امکان ہے کہ نیتن یاہو دسمبر میں بھارت کا دورہ کریں گے۔