کراچی (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیرِ تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی کی تقسیم جائز ہے تو سندھ کی تقسیم غلط کیسے ہے؟ پنجاب اور کے پی کے میں صوبے بن سکتے ہیں تو سندھ میں صوبہ کیوں نہیں بن سکتا، مرتضی وہاب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، مرتضیٰ وہاب پر ان کی اپنی پارٹی بھی اعتماد نہیں کرتی۔ خالد مقبول صدیقی نے کراچی چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا یہاں موجود ہے، صرف اتنا سچ بولوں گا جتنی جمہوریت آزاد ہے کیونکہ میں نے نصف زندگی جلا وطنی میں گزاری ہے، جماعت اسلامی کا مشکور ہوں کہ ہمارے سب کافرانہ نعرے اب آپ کے بینرز پر آویزاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی دنیا میں فلاح وبہبود کا دارالحکومت ہے، کراچی دنیا کی مدد کر رہا ہے لیکن کراچی کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ ماضی میں امریکی صدر لندن بی جانسن نے پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا، بھارت نے لندن بی جانسن سے ایم آئی ٹی یونیورسٹی کا مطالبہ کیا اور پاکستان نے گندم مانگی، ان مطالبات کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں وہ فیکٹریاں لگانی ہیں جو علم سے دانش کو کشید کر سکیں۔ دنیا کی بڑی کمپنیاں تو اب ڈگری کا مطالبہ ہی نہیں کر رہی ہیں، رئیس امروہوی نے 60کی دہائی میں ایم کیو ایم سے پہلے ہی کراچی میں یومِ سیاہ پر اشعار لکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سید مودودی اور شاہ احمد نورانی دونوں کراچی سے تھے، کراچی میں ہر برینڈ کی مسلم لیگ موجود تھی، کراچی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں تو ہم کہاں سے آگئے، 1993ء میں ایم کیو ایم نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تب کون سے حالات بہتر ہوئے؟۔ سربراہ ایم کیو ایم پاکستان اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کراچی کو وفاق کو دینے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے مطالبے پر ایم کیو ایم کو ملک دشمن کہا جاتا ہے۔ صوبے کی تقسیم کو غداری کہنے سے بڑی غداری نہیں ہو سکتی۔ کراچی میں پانی کی تقسیم کے منصوبے پر وفاقی حکومت پیسے دے چکی ہے۔ پانی کا منصوبہ صوبے کی جانب سے پیسے نہ لگانے پر تاخیر کا شکار ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خالد مقبول صدیقی نے ایم کیو ایم کا مطالبہ کراچی میں کی تقسیم

پڑھیں:

گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • اے این پی نے تعلیمی بورڈ وفاق کے حوالے کی تجویز مسترد کردی
  • 27ویں ترمیم سندھ کے وجود پر حملہ ہے، عوامی تحریک
  • خواجہ اظہار الحسن کا سندھ پبلک سروس کمیشن کو خط، جعلی ڈومیسائل اور پی آر سی کی تصدیق یقینی بنانے کا مطالبہ
  • وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی کے ویژن کے مطابق تعلیم ہی ترقی کی ضمانت ہے، نسرین جلیل
  • وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے وفاق سے صوبائی حقوق کیلئے باضابطہ خط و کتابت کا کہہ دیا
  • بینظیر ہاری کارڈ صوبے کے کاشتکاروں کیلئے نیا دور ثابت ہوگا، شرجیل میمن
  • این ایف سی فارمولے پر وفاق کے اختیارات میں اضافہ کی تجویز،27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ نکات سب نیوز پر
  • نیشنل گیمز کے حوالے سے اہم اجلاس آج کراچی میں ہوگا
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • پیکسار کمپنی کے ورکر کی غیرقانونی برطرفی قبول نہیں‘خالد خان