امریکی ایچ ون-بی ویزا کی نئی فیس کن افراد پر لاگو نہیں ہوگی؟ تنازع کے بعد وائٹ ہاؤس کی وضاحت جاری
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی بے یقینی اور خوف کو کم کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی ہے کہ ایچ ون بی ویزا کے لیے مقرر کی جانے والی ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 3 کروڑ پاکستانی روپے) کی نئی فیس صرف نئے درخواست گزاروں پر لاگو ہوگی، اس کا اطلاق موجودہ ویزا ہولڈرز یا تجدید کی درخواستوں پر نہیں ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ یہ سالانہ فیس نہیں بلکہ ایک مرتبہ جمع کرائی جانے والی رقم ہے جو صرف نئی پیٹیشن پر لاگو ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ویزا ہولڈرز جتنی بار چاہیں امریکا چھوڑ کر دوبارہ داخل ہو سکتے ہیں، ان کے لیے کوئی اضافی فیس نہیں ہوگی۔
یہ وضاحت صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے کے بعد سامنے آئی ہے جس کا عنوان ’’غیر ملکی ورکرز کے داخلے پر پابندی‘‘ تھا۔ اس میں ایچ ون بی درخواستوں پر بھاری فیس عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ نئی فیس صرف ان درخواستوں پر لاگو ہوگی جو اتوار 21 ستمبر کے بعد جمع کرائی جائیں گی۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکا میں مقیم ہزاروں غیر ملکی ورکرز، خصوصاً بھارتی شہریوں کے درمیان ہلچل مچ گئی تھی۔ کئی افراد نے خوف کے باعث بھارت جانے کے سفر منسوخ کردیے، حتیٰ کہ کچھ نے ہوائی اڈوں پر موجودگی کے دوران اپنی پروازیں کینسل کر دیں۔
امریکی شہریت اور امیگریشن سروس (USCIS) کے ڈائریکٹر جوزف بی ایڈلو نے بھی وضاحت کی کہ یہ حکم صرف مستقبل میں دائر ہونے والی درخواستوں پر لاگو ہوگا۔ جن افراد کے ویزے پہلے سے جاری ہیں یا جو پہلے ہی ویزا ہولڈر ہیں، ان پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
President Trump’s new H-1B visa requirement applies only to NEW, prospective petitions that have not yet been filed.
— USCIS (@USCIS) September 20, 2025
ایچ ون بی ویزا پروگرام دراصل ہائی اسکلڈ ملازمتوں کے لیے ترتیب دیا گیا تھا تاکہ امریکی کمپنیاں ایسی پوزیشنز پر اہل ورکرز حاصل کر سکیں جنہیں مقامی طور پر پر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ناقدین کے مطابق اس پروگرام کو سستی غیر ملکی لیبر حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، کیونکہ اس ویزے پر آنے والے کئی ورکرز محض 60 ہزار ڈالر سالانہ کماتے ہیں جو امریکی ٹیکنالوجی ملازمین کی اوسط آمدنی سے کہیں کم ہے۔
رواں برس ایچ ون بی ویزا کی تقسیم میں ایمیزون سب سے آگے رہا، جسے دس ہزار سے زائد ویزے ملے، اس کے بعد ٹی سی ایس، مائیکروسافٹ، ایپل اور گوگل شامل ہیں۔ ویزا تین سال کے لیے جاری ہوتا ہے اور مزید تین سال کے لیے تجدید کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کو قانونی چیلنجز کا سامنا بھی ہوسکتا ہے، لیکن اگر یہ برقرار رہا تو امریکی کمپنیاں ہنرمند غیر ملکی ورکرز کے لیے بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوں گی۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایچ ون بی ویزا درخواستوں پر غیر ملکی ٹرمپ کے پر لاگو کے بعد کے لیے
پڑھیں:
رضاکارانہ استعفا پر پینشن کی ادائیگی کے تنازع پر فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-02-8
کراچی(اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری/ لارجر بینچ میںکنٹونمنٹ اسپتال کے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفا پر پینشن کی ادائیگی کا تنازع‘ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 24 برس پرانے تنازع پر فیصلہ سنا دیا ۔سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا حکم برقرار رکھتے ہوئے پینشن کے خلاف اپیل مسترد کردی۔ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر حبیب الرحمان سومرو نے منوڑہ کنٹونمنٹ اسپتال میں 1982ء سے 2000 ء تک ملازمت کی، میڈیکل مسائل کی بنیاد پر بطور احتجاج 2001ء میں استعفا دیا تھا، کنٹونمنٹ قوانین کے مطابق پینشن کے اہل قرار پانے کے لیے دس برس کی سروس ضروری ہے، ڈاکٹر حبیب کو 18 برس سروس کے باوجود پینشن ادا نہیں کی جارہی، کنٹونمنٹ کے وکیل کاکہنا تھا کہ پینشن کے لیے 25 برس کی سروس ضروری ہے،عدالت کاکہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر حبیب نے میڈیکل گرائونڈ پر استعفا دیا تھا، میڈیکل بورڈ نے ان فٹ قرار دیا تھا، ایک شخص نے 18 برس کی سروس دی ہے، اگر وہ بیمار ہوگیا تو آپ چاہتے ہیں بھوکا مرجائے؟ ایک شخص سروس کے دوران بیمار ہوگیا تو انسانی بنیادوں پر بھی کچھ کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹر کی 73 برس عمر ہو گئی ہے، 18 برس آپ نے کام کیا اور پینشن بھی نہیں دے رہے، اپنے ہی قائم کردہ میڈیکل بورڈ کے بعد ایک اور میڈیکل بورڈ قائم کرنا چاہتے ہیں، اب اس عمر میں زبردستی نوکری کروائیں گے؟ میڈیکل گرائونڈ پر استعفاجبری ریٹائرمنٹ نہیں ہوتا، جبری ریٹائرمنٹ سزا ہوتی ہے، ایک شخص نے 18 برس سروس دے دی، اب اس کی جان چھوڑ دیں، آپ کیا چاہتے ہیں کہ ایک روپیہ بھی نا ملے؟ 73 سالہ شخص کے لیے اس عمر میں دوسرا میڈیکل بورڈ بنانا مناسب نہیں ہے، ہائی کورٹ کے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ اور پینشن کی ادائیگی کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی وجہ نہیں۔