واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو وینزویلا کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے تمام قیدیوں کو واپس لے، جنہیں بقول ان کے وینزویلا نے زبردستی امریکا بھیجا ہے، بصورت دیگر بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

ٹرمپ نے یہ دھمکی اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر جاری ایک پیغام میں دی۔ تاہم، انہوں نے ان قیدیوں کی شناخت یا تعداد کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔ پوسٹ میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان میں بعض ”دماغی امراض کے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد“ شامل ہیں۔

ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں یہ واضح نہیں کیا کہ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ اس دھمکی کے تحت کس قسم کی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وینزویلا نے جمعہ کے روز امریکا پر کیریبین میں ”غیراعلانیہ جنگ“ مسلط کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور اقوامِ متحدہ سے امریکی حملوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جن میں حالیہ ہفتوں میں کشتیوں پر سوار 12 سے زائد مبینہ منشیات اسمگلروں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

امریکا نے وینزویلا کے ساحل کے قریب عالمی سمندر میں جنگی بحری جہاز تعینات کیے ہیں، جنہیں پورٹو ریکو میں موجود ایف-35 طیاروں کی مدد حاصل ہے۔ واشنگٹن ان کارروائیوں کو انسدادِ منشیات آپریشن قرار دے رہا ہے۔

وینزویلا کے وزیر دفاع، ولادی میر پادریو لوپیز نے، ایک فوجی مشق کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ، ”یہ ایک غیراعلانیہ جنگ ہے، اور اب یہ سب دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ چاہے وہ منشیات اسمگلر ہوں یا نہ ہوں انہیں ہلاک کیا جا رہا ہے۔“

ان کے یہ بیانات امریکی صدر ٹرمپ کے ایک اور حملے کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے سامنے آئے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک اور کشتی پر حملے میں تین مزید مبینہ ”نارکوٹیرورسٹ“ مارے گئے، جس کے بعد حالیہ ہفتوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 17 ہو گئی ہے۔

ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حملہ کب ہوا، صرف اتنا کہا کہ یہ حملہ ”امریکی سدرن کمانڈ“ کے دائرہ اختیار میں ہوا، جس میں وسطی اور جنوبی امریکا کے ساتھ ساتھ کیریبین خطہ بھی شامل ہے۔

ان حملوں نے قانونی اور انسانی حقوق کے ماہرین کے درمیان بحث چھیڑ دی ہے، کیونکہ امریکی قانون کے تحت منشیات کی اسمگلنگ سزائے موت کا جرم نہیں ہے۔ واشنگٹن نے تاحال کوئی ایسے شواہد بھی پیش نہیں کیے جن سے ثابت ہو کہ نشانہ بننے والی کشتیاں واقعی منشیات اسمگل کر رہی تھیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی

اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔

بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔ 

اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔

وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔

یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔

 امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 59 فیصد امریکی صدر ٹرمپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، تازہ ترین سروے
  •  صدر نکولاس مادورو کے دن گنے جاچکے ہیں‘ ٹرمپ کی دھمکی
  • چین کو تائیوان پر حملے کی صورت میں نتائج کا اندازہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • نوبل امن انعام یافتہ ماریا کورینا نے اپنے ہی ملک پر امریکی فوجی کارروائی کی حمایت کر دی
  • انسداد اسمگلنگ کارروائیوں میں 3 کروڑ کی منشیات برآمد، خاتون سمیت 3 ملزمان گرفتار
  • روس اور چین بھی ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کا انکشاف
  • اینویڈیا کی ایڈوانسڈ چپس کسی کو نہیں ملیں گی، ٹرمپ کا اعلان
  • ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا