دورجدید میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت سے کسی فرد واحد کو مفر نہیں، اچھی اور معیاری تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنا فی زمانہ بے حد ضروری ہے، کیوں کہ بچے کسی بھی سماج اور معاشرہ کا سرمایہ اور تاب ناک مستقبل کی تعمیر کے لیے ضروری اساس ہوتے ہیں، بچوں کے ذہنی خدوخال نہایت ہی حساس اور کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں۔
ان کی بہتر، نشوونماء اور تربیت ایک روشن مستقبل کے لیے بنیاد کی فراہمی کا کام کرتی ہے، بچوں کے تعلق سے کسی بھی موقع پر تساہل یا کسی بھی زاویے سے بے اعتنائی ملک و ملت کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں، کیوں کہ جو قوم تعلیمی پس ماندگی کا شکار ہوجائے اور اپنی فکری و تہذیبی نہج سے دست بردار ہوجائے، تو اس قوم کو زمانے کے ساتھ چلنے میں ہر قدم پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کی نسلوں کو اس قعر مذلت سے باہر نکلنے اور امید افزاء شعور و آگہی تک رسائی حاصل کرنے میں زمانہ لگ جاتا ہے۔
یوں بھی عالمی تباہی و معاشی بدحالی کے تسلسل میں ہمیں فی زمانہ اپنی نسلِ نو کی بہتر پرورش اور دینی حمیت کی پاس داری کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیے معیاری تعلیم گاہوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوپائے گا، جب ہم اسکول، کالج اور عصری تعلیم گاہ کے انتخاب میں بہت ہی محتاط قدم کے ساتھ آگے بڑھیں گے، کیوں کہ موجودہ دور میں ہر طرف الحادی و ارتدادی قوتیں سرراہ اس تاک میں ہیں کہ دین حنیف کے پیرو کاروں کے پائے ثبات میں کس طرح تزلزل پیدا کریں ، تاکہ اس کی نسلیں اپنے اسلاف و اکابر سے کٹ کر رہ جائیں، جب کہ تاریخی حوالہ جات یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں پر ایک دور ایسا بھی گزارا ہے، جب اقوام عالم کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھی، لوگ دنیا کے کونہ کونہ سے علم و ادب کی چاہ میں مسلم حکماء، دانش ور اور مفکرین کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کے لیے دشوار گزار راستوں کا سفر طے کرتے تھے اور تعلیم کے حصول کے لیے ہر طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے تھے۔
آج بھی جدید طبی سائنس، ریاضی، شہری ہوا بازی، جہاز رانی اور دیگر بہت سے میدان میں استعمال ہونے والے بنیادی اصول و فروع مسلم مفکرین کی مرہون منت ہیں، لیکن اب وہ مبادیات اور فروعات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ، کیوں کہ وہاں تک ہماری رسائی بہت ہی محدود ہوچکی ہے، اگر تھوڑی بہت ہے بھی تو ہماری نسلیں ان اصولوں، فلسفوں اور قواعد کے بارے میں اس لیے کچھ نہیں جان پاتی کہ اب ان کے نام انگریزی لاحقہ کے ساتھ متعارف کردیے گئے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب تعلیم و حکمت میں ان بزرگوں کا طوطی بول رہا تھا، پھر آپس کی چپقلش، اپنوں کی بے رخی اور رب ذوالجلال کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کی وجہ سے اس عظیم دولت سے یک لخت ہم دور کردیے گئے اور آج ہماری یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی اس لازوال نعمت کے عشرعشیر کے بھی لائق نہیں، الامان الحفیظ۔
اس وقت ہمارا مطمع نظر مسلم امہ میں تعلیمی پس ماندگی کے تناظر میں کچھ گوش گزار کرنے سے ہے، انسانی فطرت میں خالق کائنات نے یہ بات ودیعت کررکھی ہے کہ انسانی جبلت کسی محدود شے کے حصول پر قانع نہیں رہ تی، وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن رات سرگرداں رہتی ہے، ہمیشہ سے انسانی خواہش رہی ہے کہ سماج اور معاشرتی زندگی میں کس طرح اپنی عزت و جاہ کی بالادستی قائم کی جاسکے، خواہ اس کو حاصل کرنے میں کسی حد تک جانا پڑجائے، لیکن ہماری کوشش آج بھی انسانی زندگی پر اثرانداز ہونے والی سب سے مؤثر ترین دولت تعلیم کے حوالے سے بے پروا اور لاابالی پن کا شکار ہے۔ رائج اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلم معاشرہ عصری اور تکنیکی تعلیم کی طرف مثبت قدم بڑھا تو رہا ہے لیکن جس تیزی اور برق رفتاری کا یہ میدان متقاضی ہے، اس میں اب بھی ہم دوسری اقوام سے ابھی بہت زیادہ پیچھے ہیں، جس کا اندازہ گاہے گاہے جاری ہونے والے مختلف بین الاقوامی سروے اور دیگر رپورٹوں سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے، اس طرح کے شماریات کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم امہ میں تعلیم کا رجحان پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑھا ضرور ہے، لیکن جدید تعلیم کی تحقیقات اور جدید مشمولات تک رسائی میں سرد مہری جوں کی توں برقرار ہے۔
عصری تعلیم سے منسلک اسکالرز اور محقق عام طور پر موجودہ مواد کی تحقیق کے بہ جائے اس کے تراجم پر زیادہ دھیان مرکوز کر رہے ہیں، جس کا خاطرخواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے، ہماری معاشرتی زندگی میں اب پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں میں بچوں کی تعلیم کے لیے فکری مندی دیکھنے میں آرہی ہے، لوگ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے پس انداز بھی کرنے لگے ہیں اور اس کے لیے گھریلو بجٹ تک مختص کررہے ہیں، جس کی تحسین کی جانی چاہیے اور اس کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے، تاکہ اس بیدار مغزی کی لو کو اور تیز کیا جاسکے۔ لیکن بہ حیثیت مسلم امہ ہماری کچھ دینی و ملی ذمے داریاں بھی ہیں، جس سے ہمارا معاشرہ اب بھی باہر نہیں نکل پایا ہے، معاشرے اور سماج کو اس سے باہر نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر تعلیمی مہم کی ضرورت ہے، تاکہ دوردراز گاؤں میں بسنے والے افراد اور معاشی پس ماندگی کے شکار لوگوں کے دلوں میں بھی تعلیم کی جوت جگائی جاسکے اور ان کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ بچوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر میں اچھی اور معیاری تعلیم کیوں کر ضروری ہے؟ اس تسلسل میں اگر ہم ملت کے بچوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک طرح کی سرد مہری کے ساتھ جدید کلچر کی طرف رغبت زیادہ محسوس ہوتی ہے، بچوں کی تربیت اور تربیت یافتہ اساتذہ کی ہوتی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو نامی گرامی اسکول و کالجز میں داخل کروا تو دیتے ہیں لیکن اس میں بڑی حد تک بے پروائی بھی کرجاتے ہیں، ہماری سوچ صرف اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ ہمارے بچے معیاری اور ہائی لیول اسکول کے طالب علم ہیں باقی اور کچھ نہیں دیکھتے، جب کہ بحیثیت سرپرست ہمارے اوپر دہری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی عادات و اطوار کا تجزیہ کریں، اور اس کے ہر عمل پر اپنی نظر رکھیں ، اس کے آپس کے برتاؤ اور دینی معاملات کے حوالے سے بھی گاہے بہ گاہے جائزہ لیتے رہیں، کیوں کہ عام طور پر آزادخیال ادارے میں بے جا آزادی کو فروغ دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے، جس کا منفی اثر بچوں کے ذہن میں گھر کر جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں زندگی بھر ہمیں اس لاابالی پن کے سہارے جینا پڑتا ہے۔
اس وقت جب کہ مختلف عصری تعلیم گاہوں میں داخلے کی کارروائی جاری ہیں ، ہمیں پہلی فرصت میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اپنی اولاد کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اس کے تابناک مستقبل کی طرف راہ نمائی ہمارا مذہبی، ملی و اخلاقی فریضہ بھی ہے، ہماری ایک معاشرتی ذمے داری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پاس پڑوس اور محلے میں لوگوں کو اس جانب متوجہ کریں۔
ان کو تعلیم کی اہمیت و ضرورت سے متعلق ترغیب دیں تاکہ قوم کے بچے تعلیم سے آراستہ ہوکر ایک اچھا شہری بن سکیں اور ملک و ملت کی خدمت کے قابل ہوسکیں ، اس سے کسی بھی مرحلہ میں کاہلی سستی اور بے رغبتی ملک و ملت دونوں کے لیے خسارہ کا سودا ہوگا، کیوں کہ تعلیم کے تناظر میں آنے والی اکثر رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گاؤں دیہات کے اکثر بچے ڈراپ آؤٹ میں سب سے آگے ہیں، ہائر سیکنڈری اسکول تک جاتے جاتے ہمارے بچے اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں جو قابل توجہ نکتہ ہے، اس پر بہت سنجیدگی سے غور و فکر اور تجزیہ کی ضرورت ہے، آج کے تقابلی دور میں تعلیم سے جی چرانے کوایک فکری غلطی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو یقیناً خودکشی کے مترادف ہے۔
موجودہ وقت میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے ہم اپنے بچے کو غیرمعیاری اسکول کے حوالے کردیتے ہیں، پھر فکرمعاش اور دیگر دنیاوی جھمیلوں میں کچھ اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ پلٹ کر کوئی خبر نہیں لیتے، بس صرف بچوں کو اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ تلے جکڑ دیتے ہیں اور انگریزی کے چند الفاظ بول لینے کو تعلیمی معراج تصور کر بیٹھتے ہیں، اگر یہی طالب علم کسی مقابلے وغیرہ میں خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا ہے، تو طرح طرح کے طعنوں سے اس ناپختہ ذہن کو گزرنا پڑتا ہے جس کا نتیجتاً کبھی کبھی اس قدر بھیانک صورت اختیار کرلیتی ہے کہ بچہ زندگی کی قیمتی ڈور اپنی سانس تک کو ختم کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، ایسے لاتعداد واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اور پھر ہم ہائے افسوس کا ماتم کرنے لگتے ہیں۔
عصری تعلیم وقت کی ضرورت ہے، اگر یوں کہا جائے کہ ناگزیر ہے تو کسی طور غلط نہ ہوگا، اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے حالات میں عصری تعلیم سے محرومی جہالت کے زمرہ میں ہی تصور کی جائے گی، لیکن اگر یہ تعلیم دین و ایمان کے سودے کے ساتھ ہو تو ہمارے لیے بہت بڑی حرماں نصیبی ہوگی جس کی بھرپائی کا ہمارے پاس کوئی موقع میسر نہ ہوگا؛ کیوں کہ جب سادہ دلوں اور کچے اذہان پر ایمانیات اور وحدانیت سے بے زاری کی لکیریں کھینچ دی جاتی ہیں تو اس کو محو کر پانا بے حد مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اس لیے ملت کے بہی خواہ اور سماجی کارکنان کو آگے آنا چاہیے اور اپنے زیراثر علاقوں میں بچوں کے سرپرست کو اس بات کی راہ نمائی کرنی چاہیے کہ عصری تعلیم کے لیے ہم کس طرح کے ادارہ کا انتخاب کریں۔
اسلام میں علوم کے حصول کی حدود نہیں ہیں، کیوں کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپ کے بے شمار اقوال و افکار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے غیرمسلم قیدی کو جرمانے کے عوض عبرانی زبان اور اس وقت جس زبان کی ضرورت تھی صحابہ کرامؓ کو سکھانے کے لیے متعین کیا تھا، اس طرح کے اقوال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں تعلیم کے حصول میں کسی طرح کی کوئی بندش نہیں ہے، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس زبان و علم کی رو میں بہہ کر اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھنے کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ موجودہ دنیاوی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے جس علم کی بھی ضرورت ہو اس کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کریں ، اس کے حصول میں کسی طور بھی بے اعتنائی کا ثبوت نہ دیں، بل کہ ہر لمحہ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں لیکن پھر بات وہیں آجاتی ہے کہ ایمان کے سودے کے ساتھ کسی طرح کی تعلیم ہماری عاقبت کی خرابی کا باعث نہ بنے، تاکہ ہمیں روز محشر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیوں کہ بہ طور سرپرست ہمیں روزِقیامت اپنی اولاد اور کنبے کے حوالے سے بھی سوالات کا سامنا کرنا ہے، یاد رکھیں! ترقی کے مواقع خود نہیں آتے بل کہ انھیں حاصل کیا جاتاہے اور اس کے لیے تعلیم سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا، ہم تعلیم کے ہتھیار سے ہی درپیش چیلینجوں کا نہ صرف کام یابی سے مقابلے کرسکتے ہیں، بل کہ خود کو پس ماندگی کی دلدل سے باہر نکال کر قوم و ملت کو عزت و وقار کے مقام پر کھڑا کرسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی ضرورت ہے عصری تعلیم میں تعلیم پس ماندگی اپنے بچوں اور اس کے کے حوالے تعلیم سے تعلیم کی تعلیم کے ہے کہ ہم ہم اپنے کیوں کہ بچوں کی بچوں کے کے حصول کے ساتھ کسی بھی جاتا ہے ہے کہ ا ہیں کہ طرح کے طرح کی کے لیے
پڑھیں:
سیرت طیبہؐ انسانوں سے محبت سکھاتی ہے، ڈاکٹر حسن قادری
رحمت للعالمین اتھارٹی کے زیراہتمام لاہور میں منعقدہ یوتھ کنونشن سے خطاب میں چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن کا کہنا تھا کہ نوجوان ہر علم حاصل کریں مگر سیرت طیبہ ؐکے مطالعہ کو اپنا معمول بنائیں،آپؐ کی شخصیت کے تین پہلو ایسے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم لاتعداد سماجی و معاشرتی عوارض سے محفوظ رہ سکتے ہیں (1)درگزر سے کام لینا(2)نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتے رہنا (3) جاہلوں سے بحث و تکرار سے بچنا۔ اسلام ٹائمز۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے رحمت للعالمین اتھارٹی پاکستان کے زیراہتمام منعقدہ یوتھ کنونشن سے اپنے خطاب میں نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ ہر طرح کے علوم و فنون سیکھیں مگر سیرت طیبہ کے مطالعہ کو اپنا معمول بنائیں، سیرت طیبہ انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ کی شخصیت کے تین پہلو ایسے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم لاتعداد سماجی و معاشرتی عوارض سے محفوظ رہ سکتے ہیں (1)درگزر سے کام لینا(2)نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتے رہنا (3) جاہلوں سے بحث و تکرار سے بچنا۔ یہ تین اوصاف انسان کو صراط مستقیم پر چلانے کا نسخہ کیمیا ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب پیغمبر کو ان تین چیزوں پر عمل کرنے کا حکم دیا۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ آپؐ کی پیدائش سے لیکر وصال تک ظاہری حیات کے تمام احوال و واقعات اور معاملات آپؐ کی سیرت طیبہ ہیں۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کے بارے میں خود بھی آگاہی حاصل کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک اور تعلیم دیں، یہ عمل عبادت ہے۔ تاجدار کائناتؐ کے معمولات اور اخلاقیات جاننا بطور اُمتی ہم پر واجب ہے۔ آپؐ کی سیرت طیبہ سے پتہ چلے گا کہ یتیموں، بیواؤں کے کیا حقوق ہیں، حلال و حرام کیا ہے، والدین، اساتذہ، عزیز و اقارب، دوستوں اور اقلیتوں کے کیا حقوق ہیں اور اچھا اخلاق حلم، بردباری، اعتدال اور رواداری کسے کہتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ نوجوان اپنی گفتگو میں مغربی فلاسفر، حکماء،ادبا کے اقوال نقل کرتے ہیں جبکہ آپؐ کی حکمت و بصیرت کی گواہیاں قرآن مجید کے ہر ہر حرف سے ملتی ہیں، نوجوان احادیث اور اقوال رسول اللہ ؐ کو ازبر کریں اور اپنی گفتگو میں شامل کریں۔ آپؐ کی محبت ہی اسلام اور اصل ایمان ہے۔ یوتھ کنونشن میں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء و طالبات نے شرکت کی۔