حماس کی ٹرمپ کو خط کے ذریعے جنگ بندی کی بڑی پیشکش، خطے میں امن کی نئی امید
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
غزہ میں جاری جنگ کے دوران ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جو خطے میں پائیدار امن کی امید پیدا کر رہی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی تنظیم حماس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک اہم خط بھیجا ہے، جس میں جنگ بندی کے بدلے قیدیوں کی رہائی کی پیشکش کی گئی ہے۔
60 دن کی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش
فاکس نیوز کے مطابق حماس نے تجویز دی ہے کہ اگر اسرائیل 60 دن کے لیے جنگ بندی پر رضامند ہو جائے تو وہ اپنے قبضے میں موجود نصف اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دے گی۔
رپورٹ کے مطابق یہ خط قطر کے پاس موجود ہے اور امکان ہے کہ رواں ہفتے کے اختتام پر صدر ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔
حماس کی طرف سے ابھی باضابطہ دستخط نہیں
حماس نے اس خط پر ابھی تک باقاعدہ دستخط نہیں کیے، تاہم اس کی منظوری جلد دیئے جانے کا امکان ہے۔ اسی پیشرفت کی آزادانہ طور پر تصدیق اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی کی ہے۔
قطر کی ثالثی معطل، لیکن امید باقی
یاد رہے کہ قطر اس سے قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا، مگر اسرائیلی حملے میں دوحہ میں موجود حماس قیادت کو نشانہ بنائے جانے کے بعد قطر نے ثالثی کی کوششیں عارضی طور پر معطل کر دی تھیں۔
یرغمالیوں کی موجودہ صورتحال
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کر کے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق اب بھی 48 اسرائیلی یرغمالی حماس کی قید میں موجود ہیں، تاہم خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے تقریباً نصف ہلاک ہو چکے ہیں۔
لہٰذا مذاکرات کا ایک مقصد ان کی لاشوں کی واپسی کو بھی ممکن بنانا ہے۔
ٹرمپ کا کردار اور اقوام متحدہ میں اہم اجلاس
یہ خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ میں ایک اہم اجلاس جاری ہے، جس کی میزبانی فرانس اور سعودی عرب کر رہے ہیں۔
اجلاس میں کم از کم 6 مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان متوقع ہے اور ایک متفقہ قرارداد بھی پیش کی جا سکتی ہے۔
امریکا اور اسرائیل کا اجلاس سے بائیکاٹ
اس تاریخی موقع پر امریکا اور اسرائیل نے حسبِ روایت اقوام متحدہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے، جو فلسطین کے حوالے سے ان کے سخت مؤقف کی عکاسی کرتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
زہران ممدانی حماس کے حامی ہیں، نیویارک کے یہودی اپنے وطن واپس آجائیں؛ اسرائیل
ساری دنیا میں نیویارک کے پہلے مسلم اور کم عمر میئر منتخب ہونے پر زہران ممدانی کو ان کے مذہب، قوم اور رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر سراہا جا رہا ہے لیکن اسرائیل اس موقع پر بھی نفرت انگیزی سے باز نہ آیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے وزیر برائے تارکین وطن امور امیخائے چکلی نے زہران ممدانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں حماس کا ہمدرد قرار دیدیا۔
اسرائیلی وزیر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ زہران ممدانی کی کامیابی نیویارک کی یہودی برادری کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔
ان کے بقول نیویارک شہر کبھی آزادی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن اب ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے جو اسرائیل مخالف مؤقف رکھتا ہے۔
اسرائیلی وزیر نے کہا کہ ’’یہ وہی نیویارک ہے جہاں 19ویں صدی میں یہودی پناہ گزینوں نے آزادی سے زندگی گزاری۔ مگر اب اس شہر کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔
انھوں نے نیویارک کے یہودیوں کو مشورہ دیا کہ حماس کے حامی زہران ممدانی کے میئر بننے پر تمام یہودی نیویارک چھوڑ کر اسرائیل منتقل ہونے پر سنجیدگی سے غور کریں۔
امیخائے چکلی کے بقول نیویارک بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے جس پر لندن پہلے ہی چل پڑا تھا اور جو لوگ حالات کو معمولی سمجھ رہے ہیں وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ظہران ممدانی فلسطینیوں کے حقوق کے پرزور حامی ہیں اور ماضی میں متعدد بار اسرائیل کی جارحانہ اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
زہران ممدانی نے انتخابی مہم کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے تو عالمی عدالت کی تعمیل میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو نیویارک آمد پر گرفتار کرلیں گے۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ زہران ممدانی کا یہ اعلان محض علامتی تھا۔ امریکی قوانین کے تحت نیویارک پولیس عالمی عدالت کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل نہیں کر سکتی اور نیتن یاہو کو بطور سربراہ مملکت سفارتی استثنیٰ بھی حاصل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لیے اگر نومنتخب مسلم میئر نیویارک زہران ممدانی نے نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم دیا تو یہ امریکی وفاقی قانون کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔