کیا ممکن ہے کوئی افسر سندھ میں ترقی نہ لے سکے‘ اسلام آباد کر مل جائے: جسٹس محسن
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ سینئر افسروں کو نظرانداز کر کے ایک افسر کی غیر معمولی ترقی اور لیبر افسر کے عہدے پر تعیناتی کے خلاف کیس میں چیف کمشنر اسلام آباد سے وضاحت طلب کر لی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ چیف کمشنر صاحب کو لگتا ہے چیئرمین سی ڈی اے کی کرسی زیادہ پسند ہے۔ چیف کمشنر ایک دن چیئرمین سی ڈی اے کی سیٹ چھوڑ کر اپنی کرسی پر بیٹھیں اور دیکھیں کہ ان کے نیچے کیا ہو رہا ہے، پوسٹیں خالی کیوں پڑی ہیں؟ اسلام آباد میں لیبر انسپکٹرز کی چار پوسٹیں تاحال خالی ہیں اور لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں مگر تعیناتیاں نہیں کی جاتیں۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ پٹواریوں کی طرح ہے جہاں تعیناتی کی بجائے منشی رکھ لیے جاتے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ افسر اتنا زبردست ہے کہ ہائی کورٹ کی رٹ خارج ہونے کے بعد آٹھ سینئرز کو سپر سیڈ کر کے اسے پروموٹ کیا گیا، کیڈر بدلا گیا اور پھر لیبر انسپکٹر تعینات کر دیا گیا۔ اگر یہ اتنا ہی قابل افسر تھا تو اسے سیدھا ڈپٹی کمشنر لگا دیتے۔ کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی افسر سندھ میں ترقی نہ لے سکے مگر اسلام آباد آ کر اسے پروموشن مل جائے کیونکہ یہاں گنجائش موجود ہے؟ بعض اوقات لا افسروں اور اسٹیٹ کونسل کے لیے بھی غلط کام کا دفاع مشکل ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس محسن اختر کیانی نے کمپنی رجسٹرڈ کرنے سے متعلق ایس ای سی پی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے التوا مانگنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ افسوس ہوتا ہے جب کوئی وکیل آ کر صرف تاریخ مانگ لیتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ نہ وکیل اور نہ ہی ججز کام کیوں نہیں کرنا چاہتے، مجھے تو اپنے آپ پر بھی شرم آتی ہے۔ دل کرتا ہے کورٹ کو ہی جرمانہ کر دوں۔ اس کیس میں اب تک بیس تاریخیں ہو چکی ہیں مگر پیش رفت نہیں ہو رہی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اسلام آباد
پڑھیں:
سپریم کورٹ: رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات لگاکر واپس کردیں
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججز کی درخواستیں پر اعتراضات عائد کر کے واپس کردیں۔
ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے پانچوں ججز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کونسا مفاد عامہ کا سوال ہے، درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کہ آرٹیکل 184/3 کا دائرہ کار استعمال ہو۔
ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش پر آرٹیکل 184/3 کے غیر معمولی دائرہ کار کے تحت درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کا ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس ذاتی رنجش پر184/3 کی درخواست دائرکرنےکی اجازت نہیں دیتا۔
ذرائع کے مطابق اعتراض میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے اجزا پورے نہیں کئے گئے، ججز نے آئینی درخواست دائر کرنے کی ٹھوس وجہ بیان کی نہ نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت کی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں۔
درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
مزید کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔
درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔
درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
Post Views: 1