پنجاب میں ڈرائیونگ لائسنس کے امتحانات میں ایک انقلابی تبدیلی متعارف کروائی جا رہی ہے، جہاں پہلی بار مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے لیس گاڑیوں کے ذریعے ڈرائیونگ ٹیسٹ لیا جائے گا۔ لاہور میں تیار کی گئی یہ جدید گاڑی ڈرائیونگ ٹیسٹ کے عمل میں شفافیت اور کارکردگی کو نئی بلندیوں تک لے جائے گی۔

ٹریفک پولیس کے ڈی آئی جی وقار نذیر کے مطابق یہ گاڑی ڈرائیونگ ٹیسٹ کے تمام مراحل کو خودکار طریقے سے انجام دے گی۔ گاڑی میں نصب جدید سافٹ ویئر ڈرائیور کی کارکردگی کا خود بخود جائزہ لے گا۔ مثال کے طور پر، اگر امیدوار ریورس گیئر ایک سے زیادہ مرتبہ استعمال کرے گا تو سافٹ ویئر خود بخود اسے ناکام قرار دے کر گاڑی بند کردے گا۔

گاڑی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں متعدد کیمرے نصب ہیں، جو ڈرائیونگ ٹیسٹ کے ہر پہلو کو ریکارڈ کریں گے۔ یہ کیمرے نہ صرف امیدوار کی ڈرائیونگ مہارت کو پرکھیں گے، بلکہ ٹیسٹ کے دوران کسی بھی قسم کی بے قاعدگی کو بھی نوٹ کریں گے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جلد ہی 200 ایسی اے آئی گاڑیاں تیار کرکے صوبے کے تمام ڈرائیونگ ٹیسٹنگ سینٹرز میں بھیج دی جائیں گی۔ اس اقدام کا مقصد ڈرائیونگ ٹیسٹ کے عمل میں یکسانیت لانا اور انسانوں کی جانب سے ہونے والی ممکنہ غلطیوں کو ختم کرنا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ جدید نظام نہ صرف ڈرائیونگ معیارات کو بہتر بنائے گا، بلکہ سڑکوں پر حادثات کی شرح میں کمی لانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈرائیونگ ٹیسٹ کے

پڑھیں:

اسلام آباد میں شہری کی ضبط لینڈ کروز کراچی میں کمشنر اِن لینڈ کے پاس ہونے کا انکشاف

اسلام آباد:

اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں شہری کی ضبط کی گئی لینڈ کروزر کراچی میں ان لینڈ کمشنر کے پاس موجود ہے جبکہ عدالت نے کلیکٹر کسٹمز اور ممبر لیگل کسٹمز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا اور انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سماعت کی اور آرڈر جاری کیا جہاں دوران سماعت کسٹمز کی اسلام آباد میں شہری سے ضبط کردہ گاڑی کراچی میں کمشنر ان لینڈ ریونیو کے زیراستعمال رہنے کا انکشاف کیا گیا حالانکہ کسٹمز حکام نے گاڑی آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ پشاور کو فراہم کرنے کا بیان عدالت میں دیا تھا۔

کلیکٹر کسٹمز کے مطابق  لینڈ کروزر پراڈو گاڑی ایک لاکھ روپے کی ٹوکن منی پر آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کو دی گئی تھی تاہم سماعت کے دوران کلیکٹر کسٹمز نے گاڑی جعلی نمبر پلیٹ لگا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں لانے کا بھی اعتراف کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلیکٹر کسٹمز اور ممبر لیگل کسٹمز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا اور حکم دیا کہ گاڑی کی اصل نمبر پلیٹ اتار کر جعلی لگانے کا آرڈر کس نے دیا، اس حوالے سے کلیکٹر کسٹمز نکوائری رپورٹ بیانِ حلفی کے ساتھ جمع کرادیں۔

کمشنر ان لینڈ ریونیو سردار تیمور خان درانی کو چیئرمین ایف بی آر آفس کے ذریعے نوٹس جاری کردیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو سردار تیمور درانی اور آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ پشاور کے ڈائریکٹر جنرل کو متعلقہ ڈرائیور کے ہمراہ 10 نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ گاڑی آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ میں کس کے زیراستعمال تھی، آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ سے کمشنر ان لینڈ ریونیو تک کیسے پہنچی، اس حوالے سے ڈی جی انکوائری رپورٹ جمع کرائیں۔

عدالت نے ممبر کسٹمز آپریشنز سے بھی بیان حلفی سمیت انکوائری رپورٹ طلب کی اور کہا کہ گاڑی کمشنر ان لینڈ ریونیو کے پاس کیسے گئی؟

جسٹس بابر ستار نے دوران سماعت استفسار کیا کہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ سے کسٹمز کو گاڑی کس نے ہینڈ اوور کی، جس پر کسٹمز کے وکیل نے کہا کہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کا ڈرائیور گاڑی کسٹمز کے ویئرہاؤس چھوڑ کر گیا اور نمبر پلیٹ اتار کر لے گیا۔

کلیکٹر کسٹمز نے بتایا کہ گاڑی ہائی کورٹ میں پیش کرنی تھی اس لیے دوسری نمبر پلیٹ لگائی گئی اور یہ معمول کا کام ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ گاڑی کو جعلی نمبر پلیٹ لگانے کا حکم کس نے دیا تو کلیکٹر کسٹمز رضوان صلابت نے جواب دیا کہ ڈرائیور نے نمبر پلیٹ لگائی۔

جسٹس بابرستار نے کہا کہ کچھ تو شرم کریں، افسران ذمہ داری لیں، آپ ڈرائیورز کو بس کے نیچے دھکیل رہے ہیں؟ کراچی میں رجسٹرڈ آلٹو کی نمبر پلیٹ اس گاڑی کو کیوں لگائی گئی اور کس قانون کے تحت آپ نے جعلی نمبر پلیٹ لگا لی، آپ کو جھوٹی نمبر پلیٹ گاڑی پر لگانے کے لیے جیل میں کیوں نہ بھیجا جائے۔

کلیکٹر کسٹمز نے عدالت کو بتایا کہ گاڑی ریڈ زون لانی تھی تو نمبر پلیٹ لگانی تھی اس لیے دوسری پلیٹ لگا لی گئی، ویئر ہاؤس میں ایسی بہت سی نمبر پلیٹس ہوتی ہیں، جس کو ڈرائیور لگا کر لے آیا۔

جسٹس بابرستار نے کہا کہ کیا کہہ رہے ہیں ایک ڈرائیور نے نمبر پلیٹ اتار لی، دوسرے نے لگا لی، آپ کلیکٹر ہیں آپ کی ذمہ داری بنتی ہے، آپ کچھ شرم کریں آپ افسر ہیں، عدالت میں کس لیے جھوٹ بول رہے ہیں، افسر عدالت میں آ کر جھوٹ بولیں گے تو پھر توہین عدالت کے علاوہ کیا آپشن بچتا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ غلطی ہو گئی ہے تو عدالت میں آ کر درست بات بتا دیں، توہین عدالت کی کارروائی کا مقصد آرڈرز پر عمل درآمد کرانا ہے سزائیں دینا نہیں ہے۔

کلیکٹر کسٹمز سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس بابرستار نے کہا کہ آپ خود غیرقانونی کام کر رہے ہیں اور  آج آپ نے عدالت کو بتایا، آپ کی نہ لیگل سینس ہے اور نہ سچ بولنے کی اخلاقی جرات ہو رہی ہے، اس کے نتائج ہوں گے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کا حالیہ بیان افسوسناک، غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہے۔ وفاقی وزیر امیر مقام 
  • صاحبزادہ حامد رضا کی گرفتاری اور سزا ریاستی فسطائیت کی واضح مثال ہے، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
  • اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان
  • اسلام آباد میں شہری کی ضبط لینڈ کروز کراچی میں کمشنر اِن لینڈ کے پاس ہونے کا انکشاف
  • ڈرائیونگ لائسنس معطل ہوگا، نیا ٹریفک لائسنس پوائنٹس سسٹم متعارف
  • عالمی یکجہتی پائیدار ترقی کی ضمانت
  • فرانس: ایک  شخص نے راہگیروں پر گاڑی چڑھا دی، 5 زخمی، 2 کی حالت نازک
  • نفرت انگیز تقریر نسل کشی تک لے جا سکتی ہے،ملکہ رانیہ
  • 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق
  • رفح میں حماس مجاہدین کی مزاحمت اور کارکردگی پر صہیونی رژیم حیرت زدہ