سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز انتقال کرگئے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
شیخ عبدالعزیز سینئر علماء کی کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور وہ حج کا خطبہ دینے کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے مفتی اعظم کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ انتقال کرگئے۔ سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق رائل کورٹ نے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی منگل کی صبح وفات کا اعلان کیا۔ سعودی میڈیا کے مطابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی نمازِ جنازہ بعد نماز عصر ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں ادا کی جائے گی۔ مفتی اعظم کے انتقال سے متعلق جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کے انتقال سے مملکت اور مسلم دنیا ایک ممتاز عالم سے محروم ہوگئی ہے، مفتی اعظم نے سائنس، اسلام اور مسلمانوں کیلئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
شیخ عبدالعزیز سینئر علماء کی کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور وہ حج کا خطبہ دینے کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے مفتی اعظم کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ مزید برآں خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی غائبانہ نمازِ جنازہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی سمیت مملکت بھر کی تمام مساجد میں بھی بعد نماز عصر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کے انتقال چکے ہیں
پڑھیں:
کشمیری قیدیوں کی واپسی پر محبوبہ مفتی کی عدالت میں عرضی دائر
پی ڈی پی کی سربراہ کیجانب سے پیش ہوئے وکیل آدتیہ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر نے سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کی اس عوامی مفاد عرضی (پی آئی ایل) پر سوال اٹھایا ہے جس میں انہوں نے ریاست کے زیر سماعت قیدیوں کو بیرون جموں و کشمیر جیلوں سے واپس لانے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس ارون پالی اور جسٹس راج نیش اوسوال پر مشتمل بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت کو پہلے درخواست گزار کی لوکس اسٹینڈی (قانونی جواز یا ذاتی حیثیت) پر مطمئن ہونا ہوگا۔ عدالت نے محبوبہ مفتی کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کو اس معاملے میں کیا نقصان پہنچا ہے اور یہ پی آئی ایل دراصل کس مقصد کے لئے ہے۔
محبوبہ مفتی کی جانب سے پیش ہوئے وکیل آدتیہ گپتا نے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے ان قیدیوں کے اہلِ خانہ اور وکلاء کے لئے قانونی مشاورت اور ملاقاتیں نہایت مشکل ہوگئی ہیں۔ وکیل نے دلیل دی کہ اکثر قیدی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے لئے دور دراز سفر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ عدالتی کارروائی خود ان کے لئے سزا بن گئی ہے۔ تاہم عدالت نے ریمارکس دئے کہ اس سے قبل یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ درخواست واقعی قابل سماعت ہے اور کیا محبوبہ مفتی بطور عرضی گزار اس کے لئے قانونی طور پر اہل ہیں۔
سماعت کے دوران بنچ نے ریکارڈ میں درج کیا کہ محبوبہ مفتی کے وکیل نے مزید تیاری کے لئے وقت طلب کیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے بحث کے دوران مزید تیاری اور دلائل کے لئے وقت مانگا ہے۔ یہ معاملہ اب 18 نومبر کو آئندہ سماعت کے لئے درج کر لیا گیا ہے۔ اپنی درخواست میں محبوبہ مفتی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ جموں و کشمیر کے قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں رکھنا آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت ان کے بنیادی حقوق، مساوات اور حق زندگی کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ماڈل پریزن مینوئل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حکومت پر انسانی اور آئینی، دونوں بنیادوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے قریب اور متعلقہ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں رکھا جائے۔