Jasarat News:
2025-11-08@10:53:01 GMT

فیس بک ڈیٹنگ میں اے آئی اسسٹنٹ کانیا فیچر متعارف

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیلیفورنیا: میٹا نے فیس بک ڈیٹنگ میں نئے فیچر کے طور پر اے آئی اسسٹنٹ متعارف کرادیا، جو صارفین کو اپنے لیے بہترین ساتھی تلاش کرنے میں مدد دے گا۔

ٹیکنالوجی ویب سائٹ کے مطابق فیس بک نے اپنی ڈیٹنگ سروس میں ایک نیا فیچر متعارف کرایا ہے، جس میں اے آئی (مصنوعی ذہانت) اسسٹنٹ شامل کیا گیا ہے، یہ اسسٹنٹ صارفین کی مدد کرے گا تاکہ وہ آسانی سے اپنے لیے اچھے اور مناسب ساتھی تلاش کر سکیں۔

یہ اے آئی اسسٹنٹ صارفین کی پروفائل بہتر بنانے میں مدد کرے گا اور انہیں ایسے ساتھی کو تلاش کرنے میں آسانی فراہم کرے گا جو ان کی پسند اور دلچسپی کے مطابق ہوں۔مثال کے طور پر صارف اب اے آئی سے کہہ سکتا ہے کہ اسے ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والی لڑکی ڈھونڈ کر دکھائیں۔

اسی کے ساتھ فیس بک ڈیٹنگ نے ایک اور فیچر بھی متعارف کرایا ہے جس کا نام ’میٹ کیوٹ‘ ہے۔یہ فیچر ہر ہفتے صارفین کو ایک سرپرائز میچ فراہم کرے گا، جو اے آئی کے الگورتھم کی مدد سے منتخب کیا جائے گا، اس کا مقصد صارفین کو ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنے سے پیدا ہونے والی تھکن اور مشکل سے بچانا ہے۔

فیس بک ڈیٹنگ میں 18 سے 29 سال کے صارفین کے درمیان ساتھی تلاش کرنے کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے، ہر ماہ اس عمر کے ہزاروں صارفین فیس بک ڈیٹنگ پر اپنی پروفائل بناتے ہیں۔اگرچہ فیس بک ڈیٹنگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ اب بھی ٹنڈر اور ہنج جیسی ڈیٹنگ ایپس کے مقابلے میں پیچھے ہے، ٹنڈر کے روزانہ 5 کروڑ سے زیادہ فعال صارفین ہیں، جب کہ ہنج کے روزانہ 1 کروڑ فعال صارفین ہیں۔

فیس بک کے یہ نئے فیچرز صارفین کے لیے ڈیٹنگ کا تجربہ آسان اور دلچسپ بنانے کی کوشش ہیں، جس سے وہ اپنی پسند کے ساتھی تلاش کر سکیں گے اور ایپ کے استعمال سے پیدا ہونے والی تھکاوٹ سے محفوظ رہیں گے۔

عادل سلطان ویب ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فیس بک ڈیٹنگ ساتھی تلاش اے ا ئی کرے گا

پڑھیں:

پی ٹی آئی سیاسی راستے کی تلاش میں

تحریک انصاف ایک مشکل وقت سے دوچار ہے اور سیاسی راستے کی تلاش میں ہے۔ایک ہی وقت میں پارٹی کے اندر اور بیرون مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنماؤں کوعدالت سے بھی وہ ریلیف نہیں مل رہا جو وہ چاہتے ہیں ۔

اس وقت وہ عملاً سیاسی میدان سے باہر ہیں، کچھ مفرور ہیں، اور جو باہر ہیں، وہ سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو قانونی اور انتظامی بنیادوں پر جلسے پرامن رکھنے کی یقین دہانیوں کا سامنا ہے جو ایک مشکل کام ہے۔پی ٹی آئی میں وہ سیاسی دھڑا جو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت یا سیاسی راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا، اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ بانی پی ٹی آئی سمیت ان کی اہلیہ ،بہنوں ، رشتے داروں سمیت ان کی پارٹی کے نظر بند ساتھیوں کو بدستور کوئی بڑی سہولت یا ریلیف نہیں مل سکا ۔

بہرحال یہ حقیقت قومی سیاست اس وقت بھی ان ہی کے گرد گھوم رہی ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے نوجوان سہیل آفریدی کی بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا تقرری نے واقعی سب کو پریشان کردیا ہے۔ وہ ابتدا ہی میں جارحانہ انداز اپنائے نظر آئے ہیں اور وہ مزاحمتی بیانیہ اختیار کرکے پی ٹی آئی کے حلقوں میں مقبول ہوئے ہیں ۔ جلسوں، قبائلی عمائدین کے ساتھ امن جرگہ اور صوبائی معاملات پر انھوں نے سخت موقف لیا ہے۔

وہ خیبر پختونخوا میں براہ راست پارٹی ورکرز اور ووٹرز سے جڑے ہیں اور ان کو بنیاد بنا کر بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ پیش کررہے ہیں ۔ان کے بقول ان کے تمام تر فیصلے بانی پی ٹی آئی کے فیصلے ہیں اورہوںگے اوران فیصلوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے۔بانی پی ٹی آئی بڑی سیاسی تحریک کو ترتیب دے رہے ہیں جس میں اسلام آباد کی طرف ایک بار پھر لانگ مارچ کا اعلان ہے۔امکان ہے کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی اس کا اعلان صوبے میں انصاف اسٹوڈنٹس فیدڑیشن کے کنونشن میں کریں گے جو نومبر کے تیسرے یا آخری ہفتہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ سہیل آفریدی کی تقرری نے خیبر پختونخوا میں پارٹی گروپ بندی یا اختلافات کو بھی کم کیا ہے ۔

سہیل آفریدی کا لب ولہجہ ظاہر کرتا ہے کہ فوری طور پر حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کے امکانات کم ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے خلاف بڑا سیاسی ٹکراؤ دیکھنے کو ملے گا۔بانی پی ٹی آئی نے ان دو برسوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جو بھی مفاہمت کے کارڈ بذریعہ پارٹی کھیلے ہیں، ان میں ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی ۔اب بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی یا پارٹی پر جو مشکلات ہیں، وہ سڑکوں پر آئے بغیر ممکن نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی بات سامنے آئی ہے اور اس کی کامیابی کے لیے خیبر پختونخواہ یا نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی طرف دیکھا جارہا ہے۔لیکن کیا وزیر اعلیٰ اس لانگ مارچ میں سابقہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے مختلف ثابت ہوسکتے ہیں ؟اور کیا وہ لاکھوں افراد کو اسلام آباد کی طرف لاسکیں گے ؟سہیل آفریدی کا پہلا بڑا چیلنج ہی بانی پی ٹی آئی کے حق میں مزاحمت کی سیاست کو ابھارنا ہے ، ان کا مستقبل بھی اسی نقطہ سے جڑا ہوا ہے۔

کیا وہ لانگ مارچ کر پائیں گے یا وہ بھی ماضی کے لانگ مارچز جیسے انجام سے دوچار ہوگا۔پی ٹی آئی کا لانگ مارچ کیسے کامیاب ہوگا جب کہ اس کی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی تنظیم سازی بہت ہی کمزور ہے ۔ماضی میں جو لوگ عملا سیاسی تحریک میں شامل ہوئے ان کے ساتھ باہر بیٹھی قیادت نے کیا کیا اور کتنا ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔اس کا بھی پی ٹی آئی کو جائزہ لینا چاہیے کہ وفاقی حکومت کسی بھی صورت میں ان کو اسلام آباد نہیں آنے دیگی اور اس کے نتیجے میں ریاست اور حکومت کا پی ٹی آئی سے ٹکراؤ ہوگا۔میں یہ بات بار بار لکھتا رہا ہوں کہ مفاہمت کا سیاسی کارڈ اسی صورت میں کامیاب ہوتا ہے جب ہم کھلے ذہن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، اسی میں سب کا بھلا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ‘ آیندہ برس تیز رفتار ٹرین متعارف کرنے کا اعلان
  • گوگل جیمینائی میں نیا فیچر متعارف، اب صارفین کی ای میلز اور دستاویزات تک رسائی ممکن
  • گوگل جیمینائی اب صارفین کی ای میل اور دستاویزات پڑھ سکے گا
  • اوپن اے آئی کی ویڈیو میکر ایپ ’سورا‘ اینڈرائیڈ صارفین کے لیے متعارف
  • واٹس ایپ صارفین کیلئے خوشخبری، کمپنی نے یوزر نیم فیچر کے اجرا کی تاریخ بتادی
  • واٹس ایپ پر ’ہائی سوسائٹی‘ محبت کا جال، شہری 32 لاکھ روپے سے محروم
  • بینک کارڈ کے بغیر موبائل سے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کی سہولت بھارت میں متعارف
  • پنجاب کابینہ نے تحفظ صارفین قانون 2025 ترمیم کے بعد منظور کرلیا
  • پی ٹی آئی سیاسی راستے کی تلاش میں
  • اسٹرینجر تھنگز اسٹار نے ساتھی اداکار پر ہراسانی کا مقدمہ کردیا