—فائل فوٹو

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر او آئی سی رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر کا اجلاس ہوا، جس میں مقبوضہ علاقے میں بگڑتی انسانی حقوق کی صورتحال پر غور کیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کے مطابق اجلاس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی سیاسی اور سیکیورٹی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا، 

شفقت علی خان نے کہا کہ اجلاس کی صدارت او آئی سی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے سیاسی امور یوسف ایم نے کی، جس میں رابطہ گروپ کے رکن ممالک شریک ہوئے، رکن ممالک میں پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، نائجر اور آذربائیجان شامل تھے۔ کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کا ایک وفد بھی اجلاس میں تھا۔

روس یوکرین جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے حامی ہیں، طارق فاطمی

پاکستان فریقین سے تحمل اور برداشت سے کام لینے کا مطالبہ کرتا ہے:طارق فاطمی

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ طارق فاطمی نے بھارت کی غیرقانونی قبضہ مضبوط کرنے کی کوششوں کی اور بھارتی ظالمانہ قوانین، جبر اور آبادیاتی تبدیلیوں کی مذمت کی۔

طارق فاطمی نے او آئی سی سے بھارتی جبر کے خاتمے، سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار استحکام جموں و کشمیر کے تنازعے کے حل سے مشروط ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: او آئی سی

پڑھیں:

مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔

مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں  اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔

ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔

اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔

سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔

قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی “وندے ماترم” مہم،ریاستی حکومت کا انکار
  • بھارتی فوج کی تازہ ریاستی دہشتگردی، ضلع کپواڑہ میں 2کشمیری نوجوان شہید
  • مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
  • مقبوضہ کشمیر، بھارتی فورسز کا ضلع گاندر بل میں آزادی پسند کشمیریوں کیخلاف بڑا کریک ڈاﺅن
  • 2019سے اب تک 1043افراد شہید
  • شہدائے جموں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے تحریک آزادی کی آبیاری کی، علی رضا سید
  • اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ  کردیں
  • جموں خطے میں 1947ء کا قتل عام علاقے میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے، حریت کانفرنس
  • 6 نومبر، کشمیریوں کی نسل کشی کا سیاہ ترین دن
  • صوبے میں امن و امان کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے