واٹس ایپ میں نیا ٹرانسلیشن فیچر متعارف، استعمال کا طریقہ جانیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
میٹا کی زیر ملکیت میسجنگ ایپ واٹس ایپ نے ڈیوائس کے اندر میسجز کا ترجمہ کرنے کی سہولت فراہم کر دی ہے۔
یہ نیا آن ڈیوائس ٹرانسلیشن فیچر صارفین کو ایپ سے نکلے بغیر ہی چیٹس کا فوری ترجمہ کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
اینڈرائیڈ اور آئی او ایس ڈیوائسز کے لیے یہ فیچر 180 ممالک کے صارفین کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔
اینڈرائیڈ فونز میں اس فیچر کے تحت انگلش، اسپینش، ہندی، پرتگیز، رشین اور عربی زبانوں کی سپورٹ دستیاب ہوگی۔
آئی او ایس ڈیوائسز میں 19 زبانوں کی سپورٹ ایپل ٹرانسلیشن کے تحت دستیاب ہوگی۔
واٹس ایپ کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ صارفین اب مختلف زبانوں کے میسجز کا ترجمہ چند سیکنڈوں میں دیکھ کر اس کے مطابق جواب دے سکیں گے۔
فیچر کیسے استعمال کریں؟
اینڈرائیڈ فونز میں اس فیچر کو استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ میسج کو کچھ دیر تک دبا کر رکھیں اور پھر اوپر دائیں کونے میں موجود تھری ڈاٹ مینیو پر کلک کرکے ٹرانسلیٹ اور پھر لینگوئج کا انتخاب کریں۔
ایسا کرنے کے بعد مطلوبہ میسج کا ترجمہ فوری طور پر نظر آئے گا۔
اینڈرائیڈ صارفین تمام چیٹس کے لیے آٹومیٹک ٹرانسلیشن آپشن کو بھی ٹرن آن کرسکتے ہیں۔
اس آپشن سے مستقبل میں اس کانٹیکٹ کی تمام چیٹس کا ترجمہ خودکار طور پر ہو جائے گا۔
میسجز کے ترجمے کا عمل ڈیوائس کے اندر ہی مکمل ہوگا اور صارفین کی چیٹس تک کسی اور کی رسائی نہیں ہوگی۔
آئی فونز میں بھی فیچر کو اسی طرح استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ وہاں آٹومیٹک ٹرانسلیشن آپشن دستیاب نہیں ہوگا۔
کمپنی کے مطابق اس فیچر کو متعارف کرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور بہت جلد تمام صارفین کو دستیاب ہوگا۔
یہ فیچر ون آن ون چیٹس، گروپ چیٹس اور چینل اپ ڈیٹس پر بھی کام کرتا ہے۔
یہ نیا فیچر ابھی واٹس ایپ ویب اور ونڈوز ورژن میں دستیاب نہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کا ترجمہ واٹس ایپ کے لیے
پڑھیں:
میں چاہتی تھی چیٹ جی پی ٹی میری مدد کرے،مگر اس نے خودکشی کا طریقہ بتایا
وکٹوریا ایک جنگ زدہ ملک سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب وہ تنہائی اور ذہنی دباؤ سے دوچار ہوئیں تو انھوں نے اپنی پریشانیوں کا اظہار چیٹ جی پی ٹی سے کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں یہ ان کے لیے ایک سہارا بن گیا — کوئی جو سنے، جواب دے، اور جذبات کے بوجھ کو تھوڑا ہلکا کرے۔ مگر چھ ماہ بعد، جب ان کی ذہنی حالت مزید بگڑنے لگی، انھوں نے اس سے خودکشی سے متعلق سوالات پوچھنا شروع کیے۔
وکٹوریا کہتی ہیں: میں نے اس سے پوچھا کہ اگر میں خودکشی کروں تو کہاں اور کیسے؟ میں امید کر رہی تھی کہ شاید یہ مجھے روکنے کی کوشش کرے گا۔ مگر اس نے الٹا پورا طریقہ سمجھانا شروع کر دیا۔
چیٹ بوٹ نے ان کے سوال کو ’تجزیاتی‘ انداز میں لیا۔ اس نے اس جگہ کے ’فوائد‘ اور ’نقصانات‘ پر بات کی — اور آخر میں کہا کہ ان کا منصوبہ ’فوری موت‘ کے لیے کافی مؤثر لگتا ہے۔
بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق، وکٹوریا کا معاملہ ان متعدد کیسز میں سے ایک ہے جن میں چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت والے چیٹ بوٹس نے صارفین کو خطرناک مشورے دیے — کبھی خودکشی سے متعلق، کبھی غلط طبی معلومات، اور بعض اوقات بچوں سے متعلق حساس نوعیت کے مشورے تک۔
یہ صورتحال اس بات پر سوال اٹھاتی ہے کہ کیا اے آئی بوٹس کمزور یا ذہنی دباؤ کے شکار لوگوں کے ساتھ ایک غیر صحت مند تعلق قائم کر سکتے ہیں — ایسا تعلق جو انھیں مزید نقصان کی طرف لے جائے۔
اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ اس کے تقریباً 800 ملین ہفتہ وار صارفین میں سے ایک ملین کے قریب افراد چیٹ جی پی ٹی سے گفتگو کے دوران خودکشی یا شدید ذہنی دباؤ کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کمپنی نے اس اعتراف کے ساتھ کہا کہ وکٹوریا جیسے معاملات ’دل دہلا دینے والے‘ ہیں، اور اب وہ اپنے نظام کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے تاکہ ایسے مواقع پر بوٹ انسان دوست اور محفوظ انداز میں ردِ عمل دے۔
وکٹوریا کی کہانی یوکرین پر روسی حملے کے بعد شروع ہوتی ہے، جب وہ 17 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ پولینڈ منتقل ہوئیں۔ گھر، دوستوں اور وطن سے دوری نے ان کی ذہنی حالت پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ زیادہ تر وقت تنہا رہنے لگیں اور اپنے پرانے گھر کا ایک چھوٹا سا ماڈل بنا کر خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔
گرمیوں کے دنوں میں، چیٹ جی پی ٹی ان کی روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔
> میں روز اس سے کئی گھنٹے بات کرتی تھی۔ وہ رسمی نہیں لگتا تھا — جیسے کوئی دوست ہو جو ہمیشہ دستیاب ہو، وہ کہتی ہیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ان کی حالت بگڑتی گئی۔ وہ نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور بعد میں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ کسی ماہرِ نفسیات سے ملاقات سے پہلے ہی انھیں برطرف کر دیا گیا، اور اسی دوران انھوں نے چیٹ بوٹ سے اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں بات چیت شروع کر دی۔
ایک پیغام میں بوٹ نے انھیں کہا: اپنے بارے میں لکھیں۔ میں یہاں ہوں، آپ کے ساتھ۔
ایک اور پیغام میں اس نے کہا: اگر آپ کسی سے براہِ راست بات نہیں کرنا چاہتیں تو مجھ سے لکھ سکتی ہیں۔
خوش قسمتی سے، وکٹوریا نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا۔ آج وہ طبی مدد حاصل کر رہی ہیں اور کہتی ہیں: مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک ایسا پروگرام جو لوگوں کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے، وہ انھیں خود نقصان پہنچانے کی باتیں بتا سکتا ہے۔