ابو کی ٹوپی، اپنا رقص: حسن رحیم نے اپنی ’کریزی‘ شادی کا احوال بیان کردیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور نغمہ نگار حسن رحیم اپنی انوکھی موسیقی کے باعث پہلے ہی نوجوان نسل میں بے حد مقبول تھے، مگر ان کی شادی کے مناظر اور رقص نے انہیں عالمی سطح پر بھی وائرل کر دیا۔
حسن رحیم کی اگست میں اپنی کزن نور سے شادی ہوئی ہے ، جس کی تقریبات پورے ایک ہفتے تک جاری رہیں۔ شادی میں انہوں نے گلگت بلتستان کا روایتی لباس زیب تن کیا اور خود ہی روایتی رقص کو پیش کیا، جس نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچادیا۔
حال ہی میں بی بی سی کے صحافی ہاروون رشید کو دیے گئے انٹرویو میں حسن رحیم نے اپنی شادی کے یادگار لمحات کے بارے میں کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’میری شادی نے پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا کو گلگت بلتستان کی شادی کی روایات سے روشناس کرایا۔ اس میں سب سے بڑا کردار میری ماں کا تھا، جنہوں نے مجھے اپنے والد کا پرانا شوکہ پہننے کا کہا۔ یہ ہمارا روایتی لباس ہے جسے نسل در نسل پہنا جاتا ہے۔ میں نے اپنی روایتی ٹوپی بھی پہنی، جس پر لگے پر کو شاتی کہا جاتا ہے۔‘
حسن رحیم کے شادی کےروایتی رقص نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں ، ’ہماری ڈانس پرفارمنس عام طور پر بہت محدود حلقے میں پسند کی جاتی ہے، اسی لیے میں حیران تھا کہ عوام اسے کس طرح لیں گے۔ لیکن لوگوں نے اسے بے انتہا پبسند کیا لوگ کہنے لگے: ’یہ تو کچھ نیا ہے جو ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔‘ مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی۔ شادی سے پہلے میں نے اپنے دوستوں سے مذاق میں کہا بھی کہ اگر موسیقی نہ چلی تو ہم شادی کے ڈانس گروپ بنا لیں گے۔‘
حسن رحیم کو بیوی کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے اسے خاص اہمیت نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا،’میرے ذہن میں یہ تھا ہی نہیں کہ یہ کیسا لگے گا۔ اگر میں ہچکچاہٹ دکھاتا تو وہ سب کچھ غیر فطری اور بناوٹی لگتا۔ میں ان دنوں بہت خوش تھا اور اپنی بیوی کے ساتھ اپنی خوشی بانٹنا چاہتا تھا۔ میرے لیے شادی کا ہفتہ زندگی کے بہترین دنوں میں سے تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا ارادہ شادی کی تقریبات کو اس طرح عوام کے سامنے لانے کا نہیں تھا۔ موبائل فونز پر پابندی لگانے کے بارے میں بھی سوچا گیا تھا لیکن جب ان کی والدہ نے ان سے مہمانوں سے موبائل فون لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے انکار کیا اور یوں شادی کی تقریبات کی ویڈیوز بنیں جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
حسن رحیم کی شادی نے نہ صرف ان کی موسیقی کے پرستاروں کو بلکہ دنیا بھر کے سامعین کو گلگت بلتستان کی ثقافت، محبت اور خوشی کا ایک نیا زاویہ دکھایا۔ ان کا انداز منفرد تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شادی کے لمحات اب بھی سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں کے دل جیت رہے ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان انہوں نے کی شادی شادی کے
پڑھیں:
شاعر مشرق کا فکر و فلسفہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے بیداری،خودی اور روحانی احیا کا سر چشمہ ہے، حسن محی الدین
منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ فکر اقبال ؒ کا مرکز خودی ہے جو انسان کو پستی سے نکال کر بلندی، ذمہ داری اور خدمت انسانیت کی طرف لے جاتی ہے۔ اقبال ؒ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی روحانی طاقت اور اخلاقی وقار کو پہچانیں اور دنیا میں خیر و عدل کے علمبردار بنیں۔ چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یومِ ولادت پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شاعر مشرق کا فکر و فلسفہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے بیداری،خودی اور روحانی احیا کا سر چشمہ ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے نوجوانوں میں جس شعور، ہمت اور بلند حوصلگی کی روح پھونکی آج اسی فکر کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ فکر اقبال ؒ کا مرکز خودی ہے جو انسان کو پستی سے نکال کر بلندی، ذمہ داری اور خدمت انسانیت کی طرف لے جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقبال ؒ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی روحانی طاقت اور اخلاقی وقار کو پہچانیں اور دنیا میں خیر و عدل کے علمبردار بنیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کا نظریاتی وجود اقبال ؒ کے افکار سے جڑا ہوا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقبال ؒ کے پیغام کو صرف تقریبات تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے نظام تعلیم، کردار سازی، قومی سوچ اور معاشرتی اخلاق کا حصہ بنائیں۔ علامہ اقبال ؒ کی فکر قرآن، سنتِ نبوی ﷺ اور رومی کی روحانی تعلیمات سے فیض یافتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ علامہ اقبالؒ محض شاعر نہیں بلکہ وہ ایک صاحبِ بصیرت مفکر، دردمند مصلح اور ملتِ اسلامیہ کے ترجمان تھے۔ پروفیسرڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ اقبال ؒ کا پیغام علم و عرفان، عمل و ایثار اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے عبارت ہے۔ اُنہوں نے غلام ذہنوں کو خودی کی طاقت سے آزاد کرایا اور ملتِ اسلامیہ کے نوجوانوں میں حریتِ فکر کا جذبہ پیدا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب تک مسلمان اپنی روحانی خودی اور ایمانی غیرت کو پہچان نہیں لیتا، تب تک وہ اپنی تقدیر بدل سکتا ہے اور نہ ہی قوم کی حالت۔انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں امام غزالی ؒ، ابن عربی ؒ، مولانا رومی ؒ اور علامہ اقبال ؒچار ایسی شخصیات ہیں جن پر سب سے زیادہ علمی تحقیق ہو رہی ہے۔ اقبال ؒکی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ امت کی نجات اور ترقی صرف قرآن و سنت سے وابستگی اور خودی کی بیداری میں مضمر ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جب امتِ مسلمہ فکری انتشار، فرقہ واریت اور اخلاقی زوال کا شکار ہے، تو اقبالؒ کی فکر ہی امید کی کرن ہے۔ نوجوان نسل اگر اپنے کردار و عمل کو علامہ اقبالؒ کے نظریات کے مطابق ڈھال لے تو پاکستان حقیقی معنوں میں وہی اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے جس کا خواب علامہ نے دیکھا تھا۔ علامہ اقبال ؒ کی روحانی بصیرت آج بھی ہمیں دعوتِ عمل دے رہی ہے کہ ہم علم، ایمان اور کردار کے امتزاج سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کریں۔