Nawaiwaqt:
2025-11-10@08:55:52 GMT

گوشواروں میں اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو ظاہر کرنا لازمی قرار

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

گوشواروں میں اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو ظاہر کرنا لازمی قرار

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے گوشواروں میں اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو ظاہر کرنا لازمی قرار دے دیا۔

ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی ڈیڈ لائن سے چند روز قبل آئرس فارم میں تبدیلی کی گئی ہے۔

ایف بی آر کے مطابق پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو میں سالانہ اضافے کی تفصیلات دینا ہوں گی، کوئی نیا ایس آر او جاری نہیں کیا گیا، نئے کالم کا اضافہ 18 اگست کو کیا گیا تھا۔

نئے کالم کا مقصد اثاثہ جات کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کر کے مستند ڈیٹا سے بہتر پالیسی بنانا ہے، اثاثہ جات کی مارکیٹ ویلیو کے تعین کا ٹیکس معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کو بنیاد بنا کر کسی ٹیکس دہندہ کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی، انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر ہے۔

ٹیکس دہندگان کی جانب کہا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے گوشوارے جمع کروا چکے ان کو دوبارہ جمع کروانے ہوں گے، اضافی کالم بھرے بغیر نئے فارم مکمل نہیں ہوں گے

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر

حکومت نے ملک کی پہلی قومی صنعتی پالیسی (این آئی پی) وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کر دی ہے، جس میں صنعتی ترقی میں حائل بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی اور مینوفیکچرنگ شعبے کی بحالی کے لیے اصلاحات کی تجاویز دی گئی ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ نے وزارتِ صنعت و پیداوار کو ہدایت کی ہے کہ نئی پالیسی میں شامل مراعات کے لیے پہلے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے منظوری حاصل کی جائے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم اور آئی ایم ایف نمائندوں کے درمیان اس ماہ کے آخر میں ملاقات متوقع ہے، جس میں مختلف شعبوں کے لیے تجویز کردہ مراعات کے سالانہ مالیاتی بوجھ پر بات چیت ہوگی۔

پالیسی کا ہدف 2030 تک 60 ارب ڈالر کی برآمدات، 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور سالانہ 8 فیصد مینوفیکچرنگ گروتھ حاصل کرنا ہے۔ اس کا مقصد صنعتی مسابقت، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میں توسیع کے لیے ایک جامع روڈ میپ فراہم کرنا ہے۔

اہم رکاوٹیں
نیشنل انڈسٹریل پالیسی میں صنعتی ترقی میں رکاوٹ بننے والی مختلف ساختی اور پالیسی سطح کی مشکلات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں میکرو اکنامک عدم استحکام، پالیسیوں میں غیر یقینی صورتحال، مہنگی صنعتی زمین، ضرورت سے زیادہ ضابطہ بندی، غیر معتبر اور مہنگی بجلی کی فراہمی، طویل المدتی قرضوں تک محدود رسائی جیسے عوامل شامل ہیں۔
پالیسی کے مطابق، مقامی صنعتوں کو بلند شرحِ سود اور سرمایہ جاتی منڈیوں تک محدود رسائی کا سامنا ہے، سرمایہ کاروں کے حقوق کے کمزور تحفظ اور دیوالیہ پن کے ناقص نظام نے بینکوں کو قرضوں کی تنظیمِ نو کے لیے ناکافی اختیارات دے رکھے ہیں۔

اسی طرح، غیر مساوی ٹیکسیشن بھی صنعتی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، مینوفیکچرنگ شعبے پر بھاری ٹیکس بوجھ ہے، جب کہ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، تھوک و خوردہ تجارت جیسے شعبے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس سے صنعتی منصوبوں کا منافع متاثر ہوتا ہے۔

مینوفیکچرنگ اداروں کو زرمبادلہ کی قلت کا بھی سامنا ہے، کیوں کہ خام مال درآمد کرنے کے لیے ڈالرز تک رسائی میں اکثر تاخیر ہوتی ہے، بعض اوقات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منافع واپس بھیجنے میں دشواری پیش آتی ہے، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) متاثر ہوتی ہے۔

پالیسی میں معیارات پر کمزور عمل درآمد کو برآمدات میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مصنوعات کے معیار اور سرٹیفیکیشن نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ خواتین صنعتی شعبے میں بڑے پیمانے پر نظر انداز کی جا رہی ہیں۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ خواتین صنعتی دائرے کے حاشیے پر ہیں اور ان میں احساسِ شمولیت کی کمی ہے، اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے اور زیادہ خواتین صنعت کاروں کو آگے لایا جانا چاہیے۔

مالی و ساختی اصلاحات
پالیسی میں ایک شفاف اور قابلِ پیش گوئی ٹیکس نظام تجویز کیا گیا ہے، جو آئی ایم ایف اصلاحات کے مطابق ہو، اس میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور تمام شعبوں سے ان کے جی ڈی پی میں شراکت کے مطابق ٹیکس وصولی کی سفارش کی گئی ہے۔
پالیسی میں کارپوریٹ انکم ٹیکس (سی آئی ٹی) کی موجودہ 29 فیصد شرح کا بھی جائزہ لینے اور اسے علاقائی اوسط (26 فیصد) کے برابر لانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ برآمدی مسابقت بہتر ہو۔ سپر ٹیکس کا بھی از سرِ نو جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ صنعتوں پر بوجھ کم کیا جا سکے۔

مشکلات کا شکار صنعتوں کی بحالی کے لیے پالیسی میں نیشنل انڈسٹریل ری وائیول کمیشن (این آئی آر سی) کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو کمپنیوں کی بحالی اور ریگولیٹری تعاون کی نگرانی کرے گا۔

اسی طرح، دانشورانہ املاک کے حقوق (آئی پی آر) کو مضبوط بنانے کے لیے پیٹنٹ کوآپریشن ٹریٹی میں شمولیت اور انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (آئی پی او) کی صلاحیت میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ جعل سازی اور غیر قانونی نقل کا مقابلہ کیا جا سکے۔

مزید برآں، پالیسی میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کی جانب سے وصول کیے جانے والے زیادہ بندرگاہی چارجز میں کمی کی سفارش کی گئی ہے تاکہ برآمدی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔

حکام کے مطابق پالیسی کی منظوری کے بعد یہ صنعتی تبدیلی کا فریم ورک بنے گی، جس کے ذریعے بہتر طرزِ حکمرانی، مالی نظم و ضبط اور نجی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے گا۔

تاہم، پالیسی کے نفاذ کا انحصار آئی ایم ایف کی منظوری پر ہوگا، کیوں کہ پاکستان اپنی موجودہ معاشی استحکام کے پروگرام کے تحت مالیاتی وعدوں کا پابند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پٹرولیم لیوی سے حاصل آمدن میں کتنےارب روپے کا اضافہ ہوا؟
  • حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر
  • قانون،کیا صرف غریبوں کے لیے؟
  • مقبوضہ کشمیر کے اسکولوں میں وندے ماترم گانا لازمی قرار
  • ہندوتوا نظریے کا فروغ،مقبوضہ کشمیر کے اسکولوں میں وندے ماترم گانا لازمی قرار
  • اراکین پارلیمنٹ گوشوارے 31 دسمبر تک لازمی جمع کروادیں، ترجمان الیکشن کمیشن
  • اپوزیشن کا کام ہے متاثر کرنا مگر متاثر نہیں ہو رہے، یوسف رضا گیلانی
  • مذہبی انتہا پسندی کے وائرس کو ختم کرنا ہوگا: احسن اقبال
  • زہران ممدانی کا انتخاب، امریکا دو حصوں میں بٹ گیا
  • ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟