امریکا پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار، وزیراعظم نے ٹرمپ سے ملاقات کو حوصلہ افزا قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
وزیراعظم شہبازشریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کو حوصلہ افزا قرار دیا۔وزیراعظم نے نیو جرسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی صدر سے ملاقات میں معیشت، انسداددہشت گردی، معدنیات، اے آئی، آئی ٹی اور کرپٹوپربات ہوئی اور امریکا تجارت، آئی ٹی و دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔وزیراعظم نے ٹیرف کےمعاملے پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کی قیمت کا مناسب تعین ہوگا، پاک امریکا تجارتی معاہدے باہمی مفادات کے تحت ہوں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ٹرمپ سے شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا اور شام کے درمیان برسوں سے جمی برف پگھلنے لگی ہے۔
شامی صدر احمد الشرع نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، جو نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نئی سمت کا اشارہ قرار دی جا رہی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی امن، اور بین الاقوامی معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے گفتگو کے دوران احمد الشرع کی عملیت پسندی اور اصلاحاتی وژن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شامی صدر پسند آئے اور ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ شام کامیاب ہو کیونکہ یہ مشرقِ وسطیٰ کا اہم حصہ ہے۔
ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی امریکی محکمۂ خزانہ نے ایک غیر متوقع اعلان کیا، جس کے تحت سیزر سیریا ایکٹ کے تحت شام پر عائد اقتصادی پابندیاں چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر ختم کر دی گئیں۔ یہ فیصلہ خطے میں استحکام کی کوششوں اور شام کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق یہ فیصلہ شام کے شہریوں کے لیے معاشی مواقع بڑھانے، انسانی ترقی کو فروغ دینے اور تعمیرِ نو کے عمل کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ اقدام اعتماد سازی کے عمل کا حصہ ہے، جس کے تحت امریکا شام کے ساتھ محدود سطح پر تعاون کے دروازے کھولنے پر غور کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ سیزر سیریا سویلین پروٹیکشن ایکٹ 2019 میں منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد سابقہ شامی حکومت اور فوج پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں۔ اس قانون کے تحت امریکی کمپنیوں اور شہریوں کو شام کی حکومت یا فوج سے کاروباری روابط رکھنے سے مکمل طور پر روک دیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال جون میں بھی واشنگٹن نے انسانی بنیادوں پر شام پر عائد کچھ تجارتی پابندیاں نرم کی تھیں، مگر سیزر ایکٹ بدستور نافذ العمل تھا، تاہم، اب اس کے جزوی خاتمے نے شام کے لیے اقتصادی بحالی کی نئی امید پیدا کر دی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ اور الشرع کی ملاقات ایک علامتی مگر اہم موڑ ہے۔ ایک طرف امریکا اپنے اقتصادی مفادات اور مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ کی بحالی چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف شام عالمی تنہائی سے نکلنے کی راہ پر گامزن ہے۔
اُدھر مشرقِ وسطیٰ میں کئی حلقے اس پیش رفت کو امریکا کی نئی عملی پالیسی قرار دے رہے ہیں، مگر فلسطینی اور عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ قدم وقتی اور سیاسی مفاد کے تحت ہے، کیونکہ واشنگٹن کبھی بھی شام، فلسطین یا کسی عرب ملک کے حقیقی مفاد میں دیرپا قدم نہیں اٹھاتا۔